وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں نیا پاکستان اپارٹمنٹس منصوبے کا افتتاح کر دیا ہے۔ ایل ڈی اے سٹی میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور نیا پاکستان ہائوسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اشتراک سے 4ہزار سے زاید رہائشی اپارٹمنٹس تعمیر کئے جائیںگے۔ وزیر اعظم نے پہلے تعمیراتی مرحلے کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ منصوبے میں کم آمدنی والے سرکاری ملازمین کی بھر پور دلچسپی کے پیش نظر دو ہزار اپارٹمنٹس کی الاٹمنٹ کے لئے درخواستیں وصول کرنے کی تاریخ میں 12اپریل 2021ء تک توسیع کر دی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کے لئے اس ہائوسنگ منصوبے کی ابتدا میں ایسے افراد کو درخواست دینے کا اہل قرار دیا گیا ہے جو وفاقی حکومت‘ پنجاب حکومت‘ایل ڈی اے‘واسا اور ٹیپا کے ملازم اور پنجاب میں رہائش رکھتے ہیں۔ان اپارٹمنٹس کی الاٹمنٹ بذریعہ کمپیوٹرائزڈ قرعہ اندازی ہو گی۔ قرعہ اندازی میں کامیاب ہونے والوں کا بنک آف پنجاب یا اس کے مقرر کردہ مجاز بنک سے لیٹر آف کمفرٹ حاصل کرنا ہو گا‘حکومت نے ان اپارٹمنٹس کے الاٹیوں کو فی کس 3لاکھ سبسڈی دینے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ پچھلی مردم و خانہ شماری کے مطابق پاکستان میں اپنے گھر سے محروم افراد کی تعداد چھ کروڑ کے قریب ہے۔ بے گھر افراد کی ایک قسم وہ ہے جو افغانستان میں مسلسل بدامنی کے باعث ہجرت کر کے پاکستان آئی۔ یہ لوگ ابتداء میں پشاور اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں قائم مہاجر کیمپوں تک محدود رہے۔ بعدازاں یہ مہاجرین ملک کے بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کرتے گئے۔ کسی حکومت نے ان کو کیمپوں تک محدود رکھنے کی کوشش نہ کی جس کا خمیازہ سماجی و انتظامی مسائل کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اب بھی پاکستان میں 15لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ بے گھر افراد کا دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جو چھوٹے شہروں‘دور دراز دیہات اور سہولتوں سے محروم قصبات سے نقل مکانی کر کے بڑے شہروں کی طرف آ رہے ہیں۔ یہ لوگ بہتر روزگار‘ بچوں کی تعلیم‘ بنیادی سہولیات یا مقامی بااثر افراد کے جبر جیسے مسائل کی وجہ سے کراچی‘لاہور‘ فیصل آباد‘ ملتان ‘کوئٹہ ‘ راولپنڈی اور پشاور آ جاتے ہیں۔ یہاں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ شہر کے مضافات میں کم کرائے پر رہائش حاصل کرتے ہیں یا پھر کچی آبادی بنا کر جھونپڑیوں میں منتقل ہو جاتے ہیں‘اس سارے عمل میں صرف نقل مکانی اور رہائش کے مسائل سامنے نہیں آتے بلکہ شہروں کے وسائل پر ایک دبائو آتا ہے۔ شہری زندگی کے اپنے لوازمات ہوتے ہیں‘ وہاں صفائی‘ پانی کی فراہمی‘ سیوریج اور منصوبہ بندی کا ڈھانچہ متاثر ہونے لگے تو شاہراہیں کچرے کے ڈھیر میں بدل جاتی ہیں‘ ٹرانسپورٹ کی فراہمی مشکل ہو جاتی ہے اور ترقی کا عمل ایک بدنما اور مسخ شدہ سرگرمی سے زیادہ کچھ نہیں رہ پاتا۔ تحریک انصاف نے انتخابی منشور میں بے گھر افراد کو اپنی چھت مہیا کرنے کا وعدہ شامل کر رکھا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران عمران خان ایک کروڑ ملازمتیں اور 50لاکھ گھر تعمیر کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں ادراک ہوا کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی، ناکافی برآمدات اور ٹیکس محاصل کی سطح انتہائی کم ہونے کی وجہ سے ان کے پاس اپنے وعدوں کی پاسداری کی گنجائش نہیں۔ حکومت کو ایک چیلنج اپوزیشن کی طرف سے مل رہا ہے جو اسے 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے کے متعلق مسلسل یاد دہانی کرا رہی ہے‘ بلا شبہ پاکستان میں بے گھری ایک اہم مسئلہ بن کر سامنے آ رہی ہے لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے متعلق جو حکمت عملی سابق اور موجودہ حکومت نے اختیار کی ہے وہ مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اس میں اضافے کا موجب بن رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ رہائشی سہولیات اب کثیر المنزلہ عمارات کے ذریعے فراہم کی جا سکتی ہیں لیکن یہ بھی سوچا جانا چاہیے کہ بڑے شہروں میں اگر ہر خاندان کو رہائش فراہم کرنے پر توجہ دے کر حکومت نقل مکانی کرنے والوں کے آبائی علاقوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو نظر انداز کرتی رہی تو چند سال کے بعد بڑے شہروں میں بے گھر آبادی کی تعداد ایک بار پھر بڑھ جائے گی۔ چھوٹے شہروں میں روزگار ،تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کر دی جائیں تو آبادی کی نقل مکانی کا سلسلہ رک سکتا ہے۔ یہ کام اس لحاظ سے آسان ہے کہ ایسے علاقوں میں رہنے والے افراد کے پاس زیادہ تر پہلے ہی اپنے آبائی مکان موجود ہیں‘جن روپوں سے انہیں شہروں میں گھر یا اپارٹمنٹس تعمیر کر کے دینا ہیں وہی رقم ان پسماندہ علاقوں پر خرچ کر دی جائے تو آبادی کا توازن برقرار رہے گا‘ ساتھ میں وسائل کی بہتر تقسیم ممکن ہو سکے گی۔ نیا پاکستان اپارٹمنٹس کم آمدنی والے سرکاری ملازمین کو فراہم کئے جا رہے ہیں۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چار ہزار فلیٹس میں سے لگ بھگ نصف تو ایل ڈی اے‘ ٹیپا اور واسا کے ملازمین کو مل جائیں گے باقی دو ہزار کے لئے متعلقہ محکموں کا میرٹ کیا ہے کچھ خبر نہیں۔ پھر اس بات کو اب تک زیر غور نہیں لایا گیا کہ نجی شعبے میں کام کرنے والے کارکنوں اور چھوٹا موٹا ذاتی کام اور مزدوری کرنے والوں کو اپنے گھر کی سہولت فراہم کرنا کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ جو لوگ بینکوں میں اکائونٹ نہیں رکھتے‘ان کو کہیں سے بینکوں کے ذریعے تنخواہ منتقلی نہیں ہوتی یا ان کے پاس بینکوں میں بجٹ رکھنے کی استعداد نہیں ان کو اپنے گھر کے خواب سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔نیا پاکستان ہائوسنگ منصوبے پر پونے تین سال بعد کام کا آغاز کیا گیا ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے منصوبوں پر تیز رفتاری سے کام مکمل کیا جائے۔ حکومت جس قدر جلد یہ کام انجام دے گی اس کی کارکردگی میں یہ ایک مثبت اضافہ شمار ہو گا۔