کوئی پلکوں پہ لے کر وفا کے دیے دیکھ بیٹھا ہے رستے میں تیرے لئے کتنی تیزی سے سب کام بڑھنے لگے وقت گھٹتا گیا ہر کسی کے لئے لیجیے تھیلے سے بلی نکل آئی مگر اب وہ پہچانی نہیں جاتی کہ یہ بلی ہے یا کوئی اور جانور ،ہم تو چراغ جلائے راہوں میں منتظر تھے کہ وہ آئیں گے مگر ادھر تو قاصد بھی نہیں آیا۔ میں بات کو الجھانا نہیں چاہتا۔ بلکہ خان صاحب کے نئے مشن یعنی مشن نمبر 2کا تذکرہ کرتے ہیں کہ اب نواز شریف کو واپس لانے کے لئے تگ و دو شروع ہو گئی۔ یہ کیا کمال کی بات ہے۔ عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن۔ دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں۔ یا پھر مرے محبوب نے وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا۔ کسی سے سن لیا ہو گا یہ دنیا چار دن کی ہے۔ خدا کے لئے بس کریں۔ بس کریں۔ خدا کے لئے بہت ہو گئی ہے۔کیا لوگ کسی کی آنیاں جانیاں دیکھتے رہیں۔ پہلے آپ نے نواز شریف کو باہر نکالا اور اب واپس لانا چاہتے ہیں عوام کا ان سے کیا لینا ہے یہاں رکھ کر بھی سارا خرچہ قوم کا ہوتا ہے اور ٹینشن الگ۔ آپ اب عوام کا بھی سوچ لیں۔ کیا خان صاحب کو معلوم نہیں کہ چینی 100روپے کو چھو رہی ہے بلکہ بعض جگہ صد سے آگے نکل گئی ہے ۔ آٹا بھی گھاٹا بن چکا ہے آپ بجلی ہی کو لے لیں جس روز خان صاحب نے اعلان کیا تھا کہ بجلی سستی ہو رہی ہے۔ بے ساختہ منہ سے نکلا تھا۔ مارے گئے اب تو یہ سائنسی کلیہ بن چکا ہے کہ جس چیز کا نوٹس حکومت لیتی ہے وہ مہنگی ہو جاتی ہے یا نایاب۔ اب بجلی کے حوالے سے ہی آپ دیکھ لیں کہ ابھی یہ مژدہ تازہ ہی تھا کہ پہلے لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی اور لوگ بلبلانے لگے جو کہ پہلے صرف بلوں پر بلبلاتے تھے۔ اب حبس اور گھٹن سے۔ دوسرا بجلی کے نرخوں میں 36پیسے فی یونٹ اضافہ ہو گیا ہے۔ پچھلے ہفتے مہنگائی کی 0.96فیصد بڑھی ہے آپ کو کچھ خیال نہیں کہ لوگ مر رہے ہیں اور آپ ہر روز این آر او کی بات لے کربیٹھ جاتے ہیں۔ واقعتاً کسی نے کہا تھا کہ ایناں نہ رو۔پیسہ آپ ان سے ایک نہیں لے سکے۔ غریبوں کی جیبیں کاٹ رہے ہیں سرکاری ملازمین کا معاشی قتل آپ فرما رہے ہیں: قتل کرتا ہے ہمیں اور وہ قاتل بھی نہیں بے حس وہ ہے کہ ہم رحم کے قابل بھی نہیں قوم کا استحصال تو اپنی جگہ مجھے سب سے زیادہ فکر تعلیمی سلسلہ میں ہے کہ شاید جان بوجھ کر اس شعبے کو برباد کیا جا رہا ہے۔کوئی ایجنڈا ہے یا کوئی اور مسئلہ بچے بھول چکے ہیں کہ کبھی وہ سکول جایا کرتے تھے۔ بچہ تو سہولت ڈھونڈتا ہے وہ آپ کی طرح سمجھدار نہیں ہوتا۔ وہ تو آپ کے کہنے پر باہر آئے مہمان کو کہہ دیتا ہے کہ ابو کہتے ہیں میں گھر پر نہیں ہوں۔ وہ معصوم ہے چھٹیاں پسند کرتا ہے۔ کسی نے بچے سے پوچھا تھا کہ جنت میں جائو گے یا دوزخ میں۔بچے نے فوراً جواب دیا جہاں چھٹیاں زیادہ ہوں گی۔ اب بتائیے بچے اس حکومت سے کیوں خوش نہ ہونگے پہلے بھی وزیر اعلیٰ صاحب اپنے صوابدیدی اختیارات ادھر ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ ذرا سی فوگ ہوئی یا سموگ چلو چھٹیاں۔ ذرا سردی پڑی چلو چھٹیاں تو سیع پکڑ گئیں۔ اب تو چھٹیاں ایک طرف تاریخ کی سب سے لمبی چھٹیاں۔ مان لیا بچوں کا درد آپ کو ستاتا ہے اور آپ بہت محتاط ہیں مگر یہی بچے پارکوں‘ محلوں اور گلیوں میں اکٹھے کرکٹ کھیل رہے ہیں یہ سکول ہی رہ گئے ہیں یا مسجدیں جہا ں آپ کو پابندی لگانا ہوتی ہے۔ سب کچھ آن لائن کب تک چلے گا۔ آن لائن پڑھنے والے 5فیصد بھی نہیں: شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیر شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا اللہ کا شکر ہے کہ کورونا آخری دموں پر ہے۔ حالات معمول پر آ چکے ہیں مگر لگتا ہے کہ حکومت پریشان ہے کہ سب ٹھیک ہو گیا تو ان کے کرنے کے لئے کیا رہ جائے گا کیونکہ سب سے بڑا کریڈٹ وہ یہ لیتے ہیں کہ کورونا سے انہوں نے مقابلہ کیا مگر سچی بات یہ کہ وہ تو ڈاکٹروں کو بھی حفاظتی سامان مہیا نہیں کر سکے۔ ایک خیالی ٹائیگر فورس۔ آپ کہتے ہونگے کہ شاید میں اول فول لکھتا جا رہا ہوں آپ با ہر نکل کر لوگوں سے معلوم کریں کہ کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا۔ قبلہ تعلیم کے بارے میں ضرور سوچیں کہ آپ نئی نسل تباہ کر رہے ہیں ۔ آپ خسارے کم کرنے کی بات لے بیٹھے ہیں مگر تعلیمی خسارے سے بڑا خسارا کوئی نہیں خسارہ بھی تو کم اس لئے ہوا کہ آپ نے درآمدات روک دیں۔ چلیے اگر آپ کی بات مان بھی لی جائے تو یہ شرح نمو تو آپ 5.8سے نیچے لاتے لاتے منفی پر لے گئے ہیں۔ ساری زد تو عوام پر پڑتی رہی ہے۔ ٹیکس بھی لوگ دے رہے ہیے کہ تاجر بھی تو ٹیکس عوام سے لیتا ہے مگر مچھ تو آپ کی رسائی میں نہیں ہے وہ آرام سے پلی بارگین کر کے نکل جاتے ہیں۔ سٹیٹ کی سطح پر سعودی بادشاہوں سے لئے گئے تحفے بیت المال میں بھی آ پاتے۔ تف ہے ان پر، جو ترکی کی خواتین اول سے ملنے والا خیرات کا ہار اپنی بیوی کے گلے میں ڈال دیتے ہیں: بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی سب کچھ سامنے کی بات ۔ چند روز قبل شیخ رشید نے صاف کہا کہ نواز شریف ایک وعدے کے تحت باہر گئے ہیں کہ 5سال عمران خان کو نہیں چھیڑیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ فوجی سادہ ہوتے ہیں اور سیاستدان چالاک۔ خیر یہ تو ان کی غلط فہمی ہے۔ پہلے والی بات درست ہو گی تو پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ لوگوں کی توجہ مہنگائی سے ہٹانے کے لئے سب انڈر سٹینڈنگ سے ہو رہا ہے۔ مریم نواز نے بڑی معنی خیز بات کی کہ ان کے لئے بولنا آسان ہے اور خاموش رہنا مشکل۔ انہوں نے یہ بات عورت ہونے کے ناتے سے نہیں بلکہ بحیثیت سیاستدان کی۔ ہمیں تو سیف الدین سیف یاد آ گئے: مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے اظہار بھی مشکل ہے چپ رہ بھی نہیں سکتے آخر میں صرف ایک شعر کہ پتہ تو چلے کہ ہم کہاں پہنچے ہیں: ہم دونوں آغاز پہ پہنچے یہ کیسا انجام ہوا ہے