اسلام آباد( خبر نگار، 92 نیوز رپورٹ ) نیاپاکستان ہائوسنگ منصوبے کے راستے میں حائل بڑی رکاوٹ ختم،سپریم کورٹ نے فنانشل انسٹیٹیوشن ریکوری آرڈیننس کے خلاف دائر درخواست خارج کردی۔عدالت نے ریکوری آرڈیننس کی شق15قانون کے مطابق قراردے دی۔چیف جسٹس نے درخواست گزارکی سرزنش کردی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ بینکوں کاپیسہ واپس کرتے نہیں اورقانون چیلنج کردیتے ہیں، سیکشن15کے تحت بینکوں کوقرض کی عدم واپسی پرجائیدادنیلام کرنے کااختیارہے ،قانون چیلنج ہونے کی وجہ سے نیاپاکستان ہائوسنگ منصوبہ فنانس نہیں کیاجارہاتھا،درخواست گزارنے اپنی جائیدادقرض کے عوض بینک میں رہن رکھوائی تھی۔عدالت عظمیٰ نے بے نظیر سٹاک آپشن ایمپلائز سکیم کے تحت سرکاری کمپنیز کے ملازمین کو2013ء سے 2019 تک کے فنڈز جاری کرنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کر دیا ہے جبکہ سکیم کو غیر قانونی قرار دینے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو بحال رکھا ہے ۔تین رکنی بنچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف نجکاری کمیشن کی اپیل منظور جبکہ ملازمین کی اپیل خارج کردی۔دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت کو بتایا کہ 2009ء میں اسوقت کی حکومت نے سرکاری کمپنیز کے 12 فیصد شیئرز ملازمین کو دینے کا فیصلہ کیا لیکن 2013 میں حکومت بدلی تو سرکاری کمپنیز کے ملازمین کو منافع کی ادائیگی روک دی گئی، موجودہ حکومت نے سکیم کو ختم کر دیا لیکن اس ضمن میں ملازمین کی طرف سے دائر ایک رٹ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ نے منظور کرتے ہوئے کمپنی کے ملازمین کو 2013 سے 2019 تک کی ادائیگی کا حکم دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سندھ ہائی کورٹ نے تو پوری سکیم ہی کو خلاف قانون قرار دیدیا ہے ۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ پاکستان کی حکومت کے مالی حالات اسی وجہ سے خراب ہیں کیونکہ حکمرانوں نے سرکاری پیسے کو ذاتی سمجھ کر بانٹا۔فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ پیسے الیکشن اسٹنٹ کی غرض سے بانٹے گئے ، حکومت کا پیسہ پھینکنے کے لئے نہیں ہوتا لیکن یہاں تو یہ بھی ہوا کہ 15 سال کی تنخواہیں اور مراعات بھی لوگوں کو دی گئیں، یہ سارا پیسہ سرکار کا ہے حکمرانوں کا ذاتی مال نہیں۔چیف جسٹس نے سرکاری کمپنی کے ٹرسٹ شیئرز کے بارے سوال اٹھایا اور کہا کہ قانون کے مطابق سرکاری کمپنی کے ملازمین کا ٹرسٹ شیئرز پر کیا حقوق ہیں۔ ملازمین کے وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹرسٹ اس وقت تک قائم ہے اور تاحال ختم نہیں ہوا،نجکاری کمیشن کا اس ٹرسٹ کے پیسے پر کوئی حق نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا نجکاری کمیشن حکومت کا حصہ نہیں ہے ؟ جبکہ ٹرسٹ حکومت کے پیسے سے بنا ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صرف مخصوص اداروں کے ملازمین کو سہولت نہیں دی جا سکتی۔