مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی کامیاب رہی‘ حمزہ شہباز شریف کی پریس کانفرنس کام دکھا گئی۔ نیب کو بالآخر بیک فٹ پر جانا پڑا‘ چیئرمین نیب نے میاں شہباز شریف کی اہلیہ اور بیٹیوں کو جاری طلبی کے نوٹس منسوخ کر دیے اور عوام کو یقین دہانی کرائی کہ چادر اور چار دیواری کا تقدس بہرحال ملحوظ رکھا جائے گا۔ اب نیب شریف خاندان کی خواتین کو سوالنامہ جاری کرے گا اور جوابات موصول ہونے پر نئی حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ نیب لاکھ ڈھول پیٹتا رہے کہ وہ ’’فیس‘‘ نہیں’’ کیس ‘‘دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے‘ کسی امتیاز اور تفریق کے بغیر احتساب جاری رہے گا اور کسی قصور وار سے رو رعائت نہیں ہو گی‘ کوئی ذی شعور یقین کرتے ہوئے سو بار سوچے گا ؎ یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں تم انشا جی کا نام نہ لو‘ کیا انشا جی سودائی ہیں؟ حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری میں بار بار ناکامی‘ عدالت میں حاضری کے بغیر ضمانت قبل از گرفتاری‘ اور دیگر واقعات سے عبرت پکڑنے کے بجائے نیب نے نوٹس پر نوٹس جاری کئے اور سرمائے کی اندرون و بیرون ملک منتقلی کے حوالے سے سوالات کا جواب دینے کے لئے شریف خواتین کو طلب کر لیا‘ نیب کی اس جرات رندانہ پر قانون کے بلا تفریق و امتیاز اطلاق کے حامی حلقے عش عش کر اٹھے اور ڈیل و ڈھیل کا تاثر پاش پاش ہوا مگر دو دن میں صورتحال بدل گئی‘ چیئرمین نیب کے اقدام سے ان حلقوں کی تشفی ہوئی جو قانون کو طاقتور لوگوں کے گھر کی لونڈی اور طاقت‘ امارت اور اثرورسوخ کو معاشرے میں عزت و احترام کا معیار سمجھتے ہیں تاہم چیئرمین نیب کے اس فیصلے نے جو ظاہر ہے کہ خواتین کے تقدس اور چادر و چار دیواری کے احترام میں کیا گیا ہے چند سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔بالفرض خواتین نے نیب کے سوالنامے کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا اور’’جواب دیتی ہے میری جوتی‘‘ کہہ کر سوالنامہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا یا ازراہ مروّت جواب دے دیا مگر جوابات غیر تسلی بخش پائے گئے تو نیب کا ردعمل کیا ہو گا؟ گزشت آنچہ گزشت کہہ کر خاموشی یا پھر طلبی کا نوٹس بھیجنے کی’’ گستاخانہ حرکت ‘‘؟ ایسی صورت میں حرمت نسواں اور چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال ہونے سے کس طرح بچایا جائے گا۔؟ خواتین کو اگر نیب میں تفتیش کے لئے طلب کرنا حرمت نسواں کے منافی ہے تو اس اصول کے تحت انہیں ریفرنس بنا کر عدالتوں میں گھسیٹنا اور منہ پھٹ وکلا کے جارحانہ سوالات کے جواب دینے پر مجبور کرنا اس سے بڑی زیادتی ہے‘ نیب کے ریفرنسز کے تحت پیپلز پارٹی دور کی ایک وزیرعاصمہ ارباب عالمگیر احتساب عدالت پشاور میں پیشی ہو رہی ہیں ان پر اثاثوں سے زائد آمدنی کا کیس ہے جبکہ راولپنڈی کی احتساب عدالت سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کو طلب کر چکی ہے گرفتاری کے اندیشے کی بنا پر دونوں بہن بھائی اسلام آباد ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت منظور کرا چکے ہیں تاکہ حمزہ شہباز شریف کی طرح بے خوف و خطر عدالت میں پیش ہو سکیں ‘کیا حرمت نسواں اور چادر و چاردیواری کی تقدیس کا جذبہ فریال تالپور اور عاصمہ ارباب عالمگیر کے معاملے میں بھی موجزن ہو گا یا انہیں بھی حمزہ شہباز شریف کی طرح ایک جارحانہ پریس کانفرنس کا سہارا لینا پڑیگا؟ یہ دونوں کیس چونکہ لاہور میں زیر سماعت نہیں لہٰذا یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اگر پریس کانفرنس کی نوبت آئی تو ٹارگٹ احتساب عدالت کے جج ہوں گے‘ نیب راولپنڈی اور پشاور کے ڈی جی یا براہ راست چیئرمین نیب۔ اور ہاں احتسابی ادارے کا جوابی ردعمل کیا ہو گا‘ دلیرانہ یا ٹائیں ٹائیں فش۔ سوالات اٹھانے کا مقصد نیب کی تضحیک نہ مجھے ذاتی طور پر شریف فیملی سے پرخاش ہے کہ خدانخواستہ میں ہر حال میں ان قابل احترام خواتین کی طلبی کا خواہش مند ہوںکسی بھی ریاستی ادارے سے اگر کوئی شہری مطمئن نہیں اور وہ اس کے طرز عمل پر سوال اٹھاتا ہے تو یہ اس کا آئینی و قانونی حق ہے‘ قانون سے بالاتر کوئی فرد‘ خاندان نہ ادارہ‘ لیکن سوال اٹھانے والے کو بھی یہ حق ریاست کے ایک ایسے شہری کے طور پر ہے جو قانون کا پابند ہے اور ریاستی ادارے بھی فیصلہ کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش نہ کریں کہ ان کا ہر عمل اور اقدام عدل و مساوات کے بنیادی تقاضوں‘ آئین و قانون کے تابع ہونا چاہیے ۔نعرہ اگر بلا تفریق احتساب کا ہے تو پھر کسی مالو مصلی کو یہ احساس نہ ہونے پائے کہ وہ کمزور‘ غریب اور بے آسرا ہونے کی بنا پر بے انصافی اور عدم مساوات کا شکار ہے اس کی ماں بہن بیٹی محض شک کی بنا پر اٹھا کر حوالات میں پھینک دی جائے جہاں ہوس کے مارے انہیں کتوں کی طرح بھنبھوڑیںاور کوئی طرم خان محض اپنی دولت‘ طاقت اور اثرورسوخ کی وجہ سے آئین‘ قانون اور ریاستی ادارے کو ہاتھ کی چھڑی‘ جیب کی گھڑی نہ جانے کہ تمیز بندہ و آقا فساد اوآدمیت ہے‘ تمیز بندہ و آقا کی قباحتوں بلکہ خباثتوںکا خمیازہ ہم قومی سطح پر بے چینی‘ لاقانونیت اور ریاست سے بے گانگی کی صورت میں بھگت رہے ہیں ‘مزید بھگتنے کی ریاست میں سکت ہے نہ معاشرے میں ہمت۔ چیئرمین نیب اپنی جگہ سچے ہیں جس معاشرے میں ماڈل ٹائون سانحہ کی متاثرہ بسمہ امجد پانچ سال گزرنے کے باوجود ڈاکٹر طاہر القادری کے سیاسی کزن عمران خان کے دور حکمرانی میں انصاف کو ترس رہی ہے۔ وہاں اکیلی نیب کرنا بھی چاہے تو کیا کر سکتی ہے؟ اکیلا چنا کیا بھاڑ پھوڑے گا۔ بسمہ چند ماہ قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کو دکھڑا سناتی اورفریاد کرتی ہے کہ ’’عدالت میری بے قصور ماں کے قاتلوں کو سزا کیوں نہیں دے رہی ؟مجھے انصاف کیوں نہیں مل رہا‘‘ چیف جسٹس کمسن بسمہ کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیر کر کہتے ہیں’’میری بچی آپ کو انصاف ملے گا‘ آپ بس اپنی تعلیم پر توجہ دو اور شہید ماں کے خواب کو پورا کرو‘‘ مگر چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے صرف دو اڑھائی ماہ بعد وہ معصوم ایک بار پھر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد شمیم کی عدالت میں بیٹھی انصاف کی طلب گار ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کی طرح سانحہ ساہیوال دن دیہاڑے ہوا‘ عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا کہ وہ مظلوم خاندان کی داد رسی کرے گا‘ مگر مہینوں بعد بھی معصوم بچے اپنے والدین کے قاتلوں کے انجام سے بے خبر ہیں‘ وزیر اعظم بھی اپنی حکومت سے مایوس ہو کر جوڈیشل کمشن کے قیام کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں گویا پنجاب پولیس اور دیگر ادارے ان کی خواہش کے مطابق قاتلوں کا سراغ لگانے اور ان سے نمٹنے میں ناکام ہیں۔ خواتین کا احترام ہر حال میں ملحوظ رکھا جائے‘ زیادتی کسی سے نہ ہو اور انصاف سب کو ملے مگر یہ اصول صرف اشرافیہ کے لئے نہیں‘ عام شہری بھی اسی احترام‘ عزت اور وقار کے حقدار ہیں جو پاکستان میں مقتدر‘ طاقتور اور بااثر طبقے کو ہر سطح پر حاصل ہے۔ کتنی ہی خواتین ملک کی جیلوں اور حوالات میں پڑی ذلت و رسوائی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہیں‘ ان کی ریاست پرسان حال نہ معاشرہ ہمدرد دمساز‘ بعض خواتین اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ سزا کاٹ رہی ہیں اور ان پر کوئی ریاستی ادارہ ترس کھاتا ہے نہ جیل حکام کو رحم آتا ہے۔ میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور دیگر رہنمائوں کے حق میں نعرے لگانے والی خواتین پر پولیس جب لاٹھی چارج کر رہی ہوتی ہے تو چادر چار دیواری’’حرمت نسواں کسی کو یاد نہیں رہتی۔ سرور کائنات رسول اکرم ﷺ نے قوموں کی تباہی کی ایک وجہ اسی امتیاز اور تفریق کو قرار دیا تھا جو ہمارے ہاں بے شرمی سے رائج ہے۔فرمایا ‘‘تم سے پہلی امتیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ وہ طاقتوروں کو جرائم پر معاف کرتیں اور کمزوروں کو دھر لیتی تھیں ‘خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی جرم کریگی تو سزا پائے گی(مفہوم)مسلم لیگ(ن) کی حکمت عملی کامیاب رہی نیب بیک فٹ پر چلی گئی اور قانون کے بلا امتیازو تفریق اطلاق کا نعرہ فی الحال سراب ثابت ہوا ؎ خیالِ زلفِ دوتا میں نصیر پیٹا کر گیا ہے سانپ نکل تُو لکیر پیٹا کر خدا کرے کہ سوالنامہ بھیجنا نیب کی حکمت عملی ہو‘ پسپائی نہیں کہ احتساب سے مایوس قوم کو خونی انقلاب کی طرف دھکیل سکتی ہے۔