پنجاب کے سینئر وزیر علیم خاں کی گرفتاری پر کوئی کچھ بھی کہے‘ یہ نیب کے فرینڈلی فائر کے سوا کچھ نہیں۔ اس ’’فرینڈلی‘‘ کا رروائی کا مقصد کیا ہے‘ اس پر اختلاف ہو سکتا ہے اور ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ بزدار نے خاں صاحب کو ایک پرزور اور پر درد اور حتمی شکایت کی تھی کہ مجھے یہ صاحب چلنے نہیں دے رہے اور میرے بارے میں گفتہ بہ اور ناگفتہ بہ کہانیاں انہی کی وجہ سے چل رہی ہیں چنانچہ اس وقت علیم خان کی گرفتاری کا فیصلہ ہو گیا اور یہ عارضی ہے۔ علیم خاں کچھ دن حراست میں رہیں گے اور اچھے چال چلن کا ’’ڈپلوما‘‘ لینے کے بعد باہر آ جائیں گے۔ دوسری تھیوری اس سے کچھ ملتی جلتی‘ کچھ مختلف بھی ہے اور یہ کہ ’’اوپر‘‘ سے خاں صاحب کو کہہ دیا گیا ہے کہ بزدار میاں نہیں چل سکتے‘ انہیں فارغ کرنا ہی ہو گا چنانچہ اس صورت میں نئے بزدار کی اسامی پر مقابلہ ہو گا اور اس مقابلے کے لئے ’’شارٹ لسٹنگ‘‘ کی گئی ہے۔ یعنی تین امیدوار تھے‘ اب دو رہ گئے۔ فیصلہ آسان ہو جائے گا۔ بعض کا خیال ہے کہ ایک امیدوار اور پکڑا جائے گا لیکن یہ خیال تو محض باطل خیال لگتا ہے۔ لیکن بالفرض ایسا ہو گیا تو محض ایک ہی امیدوار میدان میں رہ جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ علیم خاں پر جو الزام ہے‘ وہ ہمیشہ سے مضحکہ خیز رہا ہے۔ آمدنی سے زیادہ اثاثے۔ یہ وہ الزام ہے جو کسی پر بھی لگ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ صادق و امین پر بھی جن کے پاس اربوں کے اثاثے ہیں اور آمدنی بظاہر صفر۔ مزے کی بات قاف لیگ کے ایک رکن قومی اسمبلی نے گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں کہی۔ فرمایا اگر کوئی چیئرمین نیب سے پوچھے کہ کیا ان کے اثاثے آمدن کے مطابق ہیں تو وہ بھی شاید جواب نہ دے سکیں۔ یہ الزام نیب میں اتنا مقبول کیوں ہے؟ اس لئے کہ اسے ثابت نہیں کرنا پڑتا۔ بس یہ کہہ دینا کافی ہے کہ بادی النظر میں اثاثے زیادہ ہیں۔ آمدنی کم۔ نواز شریف کے کیس میں بھی یہی ہوا۔ آمدنی کا ذکر کسی فیصلے میں نہیںہے‘ اثاثوں کی مالیت کا بھی کوئی گوشوارہ کہیں موجود نہیں ہے لیکن سات اور دس سال کی سزائیں سنا دی گئیں۔ حقیقت میں اس الزام کے تحت کسی بھی شخص کو سزا سنائی جا سکتی ہے۔ کسی بھی آدمی کو پکڑ لو‘ پوچھو‘ یہ مکان کہاں سے بنوایا‘ یہ تو چالیس پچاس لاکھ کا لگتا ہے اور تمہاری تنخواہ پچاس ہزار اتنی تنخواہ میں تو گیس کا بل ادا نہیں ہوتا‘ مکان کیسے بن گیا۔ اگر وہ کہے کہ جمع پونجی لگا دی تو حتمی ریفرنس تیار‘ جمع پونجی کی منی ٹریل دو۔ تمہارے ہاتھ پر جو گھڑی بندھی ہے۔ اس کی رسید کہاں ہے۔ نہیں ہے‘ تو چلو سات سال کے لئے جیل۔ ٭٭٭٭٭ اگر یہ مفروضہ معنی بر حقیقت ہے کہ علیم خاں کو راستے سے ہٹانے کے لئے یہ کھیل کھیلا گیا ہے تو علیم خاں کے دل پر کیا گزرے گی؟ جو بھی گزرے گی۔ قہر درویش برجان درویش والا معاملہ ہی ہو گا۔ وہ تحریک انصاف کو چھوڑ کر کہیں اور جانے کے قابل ہیں ہی نہیں۔ آمدنی سے زائد اثاثوں کا کیس تو فی الحال فرینڈلی ہے۔ کسی دوسری جماعت میں جائیں گے تو یہ نان فرینڈلی ہو جائے گی۔ نہ صرف یہ بلکہ کچھ دوسرے کیس بھی سامنے آ جائیں گے جو سچ مچ خطرناک ہیں۔ لیکن بات وہاں تک پہنچے گی نہیں‘ نمبردار کے قائم رہنے یا دوسرے نمبردار کے لائے جانے کے بعد علیم خان بھی دھل دھلا کر باہر آ جائیں گے۔ پھر ہو سکتا ہے کوئی اور محفوظ عہدہ دے دیا جائے یا نہ بھی دیا جائے۔ ٭٭٭٭٭ بزدار صاحب کے بارے میں قطعی پیش گوئی کرنا عام تجزیہ نگاروں کے لئے مشکل ہے۔ خاص تجزیہ کاروں کی بات اور ہے وہ تو اندر کی خبر رکھتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خاص تجزیہ کار بھی دو قسم کی خبریں لا رہے ہیں۔ ایک تو وہی جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے کہ سرکار بالانے کہہ دیا ہے کہ خاں صاحب‘ یہ میاں بزدار نہیں چل سکتے‘ فوراً اس تبدیلی کا تبادلہ کرو۔ اس کی بات مانے بغیر چارہ نہیں اور یوں چھ ماہ پہلے آنے والی تبدیلی کم از کم پنجاب میں رخت سفر باندھ لے گی اور نئی تبدیلی اس کی جگہ لے گی۔ لیکن ان خاص تجزیہ نگاروں کے مطابق سرکار بالا محض ایک نہیں ہے‘ ایک سرکار درون خانہ بھی ہے اور خاں صاحب اس کی بات بھی نہیں ٹال سکتے۔ بزدار کی تقرری‘ بھی اسی سرکار موخر الذکر کے کہنے پر ہوئی تھی اور یہ سرکار بزدار کو بدلنے کی سخت مخالف ہے۔ یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بزدار گئے تو سارا طلسم کدہ ہی ٹوٹ جائے گا۔