ریاستی مشینری کی طرف سے شریف فیملی بالخصوص اور مسلم لیگ(ن) کی لیڈر شپ کے خلاف بالعموم کریک ڈاؤن کا دائرہ وسیع ہوتاجا رہا ہے۔ منگل کو ہونے والی کارروائیوں سے لگتا تھا کہ یہ دن ن لیگ کے لیے ڈراؤنا خواب تھا ،اسی روز پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں مسلم لیگ(ن) کے روح رواں اور رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق اور برادرخورد خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت منسوخ ہونے کے بعد انھیں احاطہ عدالت سے نیب نے گرفتار کر لیا۔ اسی روز علی الصبح قطر کے راستے لندن جانے والی فلائٹ سے پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف کو اتار لیا گیا۔ اس پر مستزادیہ کہ مریم اورنگزیب جو مسلم لیگ(ن) کی مرکزی ترجمان بھی ہیں اور میڈیا پر ہرروز تحریک انصاف کی حکومت پر تابڑ توڑ حملے کرتی رہتی ہیں، ان کے خلاف بھی ایک نامعلوم شخص کی درخواست پر نیب نے کارروائی شروع کردی ہے۔ ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے ، سرکاری فنڈسے ن لیگ کی اشتہاری مہم چلانے اور دیگر الزامات کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے نواز شریف،مریم صفدر اور کیپٹن(ر)صفدر جیل کی یاترا کر کے آئے ہیں،اسحاق ڈار مفرور اور رانا ثناء اللہ کا نام ماڈل ٹاؤن سانحہ میں لیا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ خواجہ آصف پر منی لانڈرنگ اور احسن اقبال پر نارووال میں سٹیڈیم کی تعمیر میں مبینہ خورد برد کے الزامات ہیں۔میاں شہباز شریف کے چھوٹے صاحبزادے سلمان شہباز شریف کو آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات کا سامنا جبکہ سابق وزیر اعلیٰ کے داماد علی عمران یوسف پنجاب پاور کمپنی میں مبینہ طور پر کک بیک لینے کے کیس میں بیرون ملک مفرور ہیں۔دوسری طرف سابق چیئرمین سینیٹ نیئر حسین اور پیپلزپارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے پریس کانفرنس میں یہ گلہ کیا ہے کہ بلاول بھٹو ایک جلسہ کرتے ہیں تو اڑٹالیس گھنٹے میں نیب کا نوٹس آجاتا ہے، ہمارا جتنا مرضی احتساب کریں پیپلزپارٹی نہیں جھکے گی۔ دوماہ سے زائد عرصہ سے زیر حراست میاں شہباز شریف نیب کی کارروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے اس حد تک چلے گئے کہ ملک میں سویلین آمریت نافذ ہے، ان کے مطابق احتساب کے نام پر چیرہ دستیاں ہو رہی ہیں۔بدھ کو قومی اسمبلی میں بھی احتساب کے حوالے سے دھواں دھار تقریریں ہوئیں، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور پیپلزپارٹی کے نوید قمر نے اپنی تقریروں میں احتساب کو یکطرفہ اور انتقام کا شاخسانہ قراردیا، نوید قمر نے کہا کہ گرفتاریاں جاری رہیں تو اجلاس اڈیالہ جیل میں نہ بلانا پڑے۔ وزیراطلاعات فواد چودھری، وزیر تعلیم شفقت محمود اور دیگر حکومتی ارکان کاکہنا ہے کہ اب جبکہ احتساب ہو رہا ہے تواپوزیشن کو تکلیف ہو رہی ہے۔ شفقت محمود نے بجا طور پر کہا کہ نیب کا چیئرمین پیپلزپارٹی اور اس وقت حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے مل کر بنایا تھا کیونکہ میاں نوازشریف کا خیال تھا کہ یہ ان کے خلاف استعمال نہیں ہو گا۔ لیکن شاہد خاقان عباسی نے درست نکتہ اٹھایا کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اتفاق چیئرمین نیب کی تقرری پر ہوا تھا، ہم تو نیب کی بطور ادارہ بات کرتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں حکومتی ارکان کو متنبہ کیا کہ اس قسم کے ہتھکنڈے بالآخر ناکام ہو جاتے ہیںاور انھیں استعمال کرنے والوں کو آخرکار لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ یقینا اس وقت سابق حکمران جماعت کواس تلخ حقیقت کامکمل ادراک ہو گیا ہو گا۔ دوسری طرف چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک اور کیس کے حوالے سے کہا ہے کہ نیب حد سے نکل رہا ہے، یہ لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں، شرم نہیں آتی۔ فواد چودھری نے یہ بھی انکشاف کیا کہ حکومت نیب قوانین میں تبدیلی کے لیے اپوزیشن سے بات چیت کر رہی ہے اور ایک کمیٹی بھی کام کر رہی ہے۔ یقینا اس ضمن میں دورائے نہیں ہو سکتیں کہ سیاستدانوں سمیت سب کا احتساب ہونا چاہیے لیکن ایسا احتساب جو شفاف اور بلاامتیاز ہو تب ہی اس کی کریڈبیلٹی ہوتی ہے۔ اس وقت یہ تاثر جاگزیں کر گیا ہے کہ نام نہاد احتساب کا نشانہ صرف اپوزیشن ہے۔ اس بات میں بھی کسی حد تک صداقت ہے جب میاںنوازشریف کے دور حکومت میں آصف زرداری کے دست راست ڈاکٹر عاصم حسین کی اربوں روپے کی مبینہ نام نہاد کرپشن کے خلاف کارروائیاں کی گئیں اور انھیں قید میں ڈالا گیا تو میاں نوازشریف نے چپ کا روزہ رکھ لیا بعدازاں میاں صاحب نے وہی استدلال پیش کیا جو آج کل تحریک انصاف کی حکومت پیش کر رہی ہے کہ ان کا زرداری صاحب کے حواریوں کے خلاف نیب کی کارروائیوں کا کوئی تعلق نہیں۔ آج تحریک انصاف کے کارپردازان بھی یہی کہتے ہیں ہم نے کسی کے خلاف کارروائی شروع نہیں کی اور کوئی کیس ہمارا بنایا ہوا نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آمر مطلق جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں نوازشریف کا تختہ الٹنے کے بعد نیب کا قانون بنایا تھا، جیسا کہ پاکستان میں رواج ہو چکا ہے کہ ہر طالع آزما اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اپنے ڈھب کا سویلین سیٹ اپ لانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی انداز فکر کے تحت نیب تشکیل دیا گیا۔ اسی متنازعہ قانون کے تحت نیب کو بے محابہ اختیارات دے دیئے گئے جن کے تحت کسی بھی شخص کو گرفتار کر کے تین ماہ کے لیے کسی اپیل اور دلیل کے بغیر بند کیا جا سکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اس قسم کے حربوں کے ذریعے نیب کی مدد سے مسلم لیگ(ن) کے اندر سے مسلم لیگ(ق) بنائی اور فیصل صالح حیات اور راؤسکندر اقبال اینڈ کمپنی کے ذریعے پیپلزپارٹی میں نقب لگائی اور پیٹریاٹس بنائے۔ اس کے باوجود 2002ء کے عام انتخابات میں لوٹوں کی اس نئی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہو سکی۔یہ بات درست ہے کہ ایسے حربوں سے کوئی دیرپا سیاسی نظام قائم نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے آج پیٹریاٹس کانام و نشان بھی مٹ چکا ہے جبکہ مسلم لیگ(ق) محض چودھری برادران کے گھر تک محدود کر رہ گئی ہے۔ اب بھی جیسا کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی الزام عائد کرتی ہیں کہ وہ لوگ جو حکمران جماعت میں ہیں یا اس کے حواری ہیں اور جن میں سے بہت سے نیب کے ریڈار پر بھی ہیں کے ساتھ بڑاشریفانہ سلوک کیا جا رہاہے اور وہ دھونس اور تحریص کے حربے جو اپوزیشن کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں ان کے خلاف استعمال نہیں ہوتے۔ کریشن کے نام پر انتقامی کارروائیاں ایک سویلین حکومت کے دور میں ہو رہی ہیں۔ اس سے پہلے میاں نواز شریف کے دوسرے دور کے نام نہاد احتساب بیورو نے بھی سیف الرحمان کی سربراہی میں احتساب کے نام پر مخالفین کو نشانہ بنایا تھا۔ ستم ظریفی ہے حکومت کا دعویٰ یہ ہے کہ ہمارا ان کارروائیوں سے کوئی تعلق نہیں تو کیا فرشتے یہ سب کچھ کروا رہے ہیں۔ عمران خان توالٹی بات کہتے ہیں کہ ان کو نیب سے گلہ ہے کہ وہ بڑی نا اہل ثابت ہو رہی ہے، ان کے مطابق تو کم از کم پچاس افراد جیلوں میں ہونے چاہئیں تھے۔ اس صورتحال کی بنا پر کاروبار مملکت رکا ہواہے۔ اسمبلی میں دنگافساد اور لاحاصل بحث ومباحثہ کے سوا قانو ن سازی کے حوالے سے کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ۔ فواد چودھری کا دعویٰ ہے کہ حکومت کوکسی سیا سی چیلنج کاسامنا نہیں ہے البتہ گورننس اور اکانومی کے حوالے سے مسائل درپیش ہیں۔ ان کے مطابق نوازشریف اور آصف زرداری کی جگہ جیل یا گھر بیٹھناہے کیونکہ ان کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ اس بات کا فیصلہ پاکستان کے عوام اور عدالتیں ہی کر سکتی ہیں لیکن موجودہ حکومت اگر واقعی گورننس کے جھنڈے گاڑنا چاہتی ہے تو اسے اسی اپوزیشن جسے وہ چورا ور ڈاکو قرار دیتی ہے کے ساتھ بقائے باہمی کا راستہ تلاش کرنا پڑے گا اور اپوزیشن کے ساتھ مل کر بلاامتیاز احتساب کے لیے قانون بنانا پڑے گا۔ بالآخرقائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ بنانا اس سمت پہلا قدم ہے۔