نیب نے جادو کر دکھایا۔ اس کی شبانہ روز اور ان تھک کوششوں سے کرپشن کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کا درجہ 175سے 116واں ہو گیا ہے۔ نیب نے اخبارات میں نمایاں طور پر خبر چھپوائی ہے۔ گویا مختصر عرصے میں پاکستان ایمانداری کی 59سیڑھیاں چڑھ گیا، یا بدعنوانی سے 59سیڑھیاں نیچے اتر آیا۔ کمال ہے اور بے مثال کمال ہے۔ آپ کی مرضی، اسے جادو کہہ لیں یا معجزہ۔ ہاں، بس ایک سوال ے جو جادو کے اس چیستان کے حل ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ وہ یہ کہ ٹرانسپرنسی کے اس انڈکس میں جسے سی پی آئی(کرپشن پرسیپشن انڈکس) کہا جاتا ہے، پاکستان کا یہ 175واں نمبر کس سال تھا جو کم ہوتے ہوتے ماشاء اللہ، چشم بددور 116ویں پر آ پہنچا ہے۔ مثال کے طور پر کیا سال گزشتہ میں یہ نمبر تھا؟23فروری 18کے اخبارات میں بھی تازہ انڈکس کی خبر چھپی تھی۔ اس سال پاکستان کا نمبر117واں تھا۔ اس سے ایک سال پہلے 2017ء میں بھی یہ نمبر 117واں تھا۔ پھر 175واں نمبر کس سال میں تھا۔ 180ملکوں کے جائزے پر مبنی ٹرانسپرنسی کا یہ انڈکس ہر سال آتا ہے اور اس کا سارا ریکارڈ حکومتی اداروں کے پاس موجود ہے اور نیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ اس ریکارڈ کے مطابق ایسا کوئی نمبر پاکستان کا کبھی تھا ہی نہیں۔ ریکارڈ کے مطابق پاکستان بے ایمانی کی سب سے اونچی جس سیڑھی پر رہا ہے اس کا نمبر 144تھا اور یہ سال 2005ء کی بات ہے جب شاہ ایمانداراں، فخر صادقان،مشرف کی حکومت تھی۔ آپ سے پہلے، حیرت کی بات ہے۔ 1995ء میں پاکستان کا کرپشن کا نمبر محض 39واں تھا۔ پرویز مشرف کے دور میں ہم نے کرپشن کی سیڑھیوں پر برق رفتاری سے قدم رکھنے شروع کیے اور جیسا کہ آپ نے دیکھا، 144ویں نمبر پر آ گئے۔ مشرف کے جانے کے بعد اس میں کمی آنے لگی، 2010ء میں پاکستان کا نمبر 134واں ہوا یعنی اس درجے کی کمی اور نواز دور میں یہ کمی بڑھتے بڑھتے 117ویں نمبر پر آ پہنچی۔ اب نیب ہی بتائے کہ 175واں نمبر کس سال کا تھا؟ اور ہاں، ڈرتے ڈرتے ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ٹرانسپرنسی نے 2019ء کے سال کی رپورٹ جاری کر دی ہے؟ کیونکہ ابھی تو سال 2018ء کی رپورٹ بھی ٹرانسپرینسی نے ابھی جاری ہی نہیں کی؟ چلیے، خیر کوئی بات نہیں، رپورٹ آنے ہی والی ہو گی لیکن یہ 175واں نمبر…؟ ٭٭٭٭٭ نیب نے حال ہی میں فرمایا کہ وہ ملک کو کرپشن سے سو فیصدی پاک کرنے کے لیے لگا ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری کا بیان یاد آیا۔ بھی شامل کیا جا سکتا ہے جنہوں نے کہا کہ آخر نیب کو پشاور کے بس منصوبے عرف بی آر ٹی میں سو ارب روپے کی کرپشن نظر کیوں نہیں آ رہی۔ یہ بیان انہوں نے نیب کے فرمان کے ایک آدھ روز آگے پیچھے ہی دیا ہے۔ یہ بیان یونہی یاد آ گیا ورنہ ہر انصاف پسند کو پتہ ہے کہ سو فیصد کرپشن کا مطلب ہے پچاس فیصد نواز شریف اور باقی پچاس فیصد زرداری۔ پشاور منصوبے کا کوئی تعلق سو فیصد سے ہے نہ کرپشن سے۔ جملہ ارباب انصاف اس بارے میں ایک پیج پر ہیں کہ اس منصوبے میں ذرا بھی کرپشن نہیں ہوئی۔ پھر بھی احتیاط کا تقاضا ہے کہ چھان بین کر لی جائے لیکن جلد بازی کی ضرورت نہیں۔ جونہی تعمیر مکمل ہوئی، چھان بین ہو جائے گی۔ اس بارے میں منصف مزاج ماہرین عزم کی پیش گوئی یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہوتے ہی! ٭٭٭٭٭ بلاول بھٹو البتہ ایک کوڑی دور کی بھی نکال لائے ہیں۔ اپنے بیان میں انہوں نے فرمایا کہ نیب والے شاید اس بات سے ڈرتے ہیں کہ حکمران جماعت کی کرپشن کی طرف دیکھا تو کہیں وہ ایک ویڈیو اور نہ لے آئیں۔ پہلی ویڈیو کون سی تھی؟ یاد نہیں آ رہا۔ بہرحال، بلاول کی منطق درست نہیں۔ ویڈیو ایسی شے نہیں کہ جس سے ڈرا جائے۔ ریلیز ہوتی ہے تو ہو جائے، بس اتنا کہنا کافی ہے کہ اس میں سیاق و سباق کی کمی ہے، اس لیے مسترد کی جاتی ہے۔ کوئی کہے کہ فارنزک کرا لو تو یہ کہہ کر بات ختم کی جا سکتی ہے کہ اس کی ضرورت نہیں کیونکہ سیاق و سباق مشکوک ہیں۔ ایک ویڈیو مریم نوازنے بھی پیش کی تھی جس میں جج صاحب کہتے پائے گئے کہ میں نے دبائو میں آ کر نواز شریف کو سات سال قید سنائی ورنہ وہ بری تھے۔ حکومت نے پہلے اعلان کیا کہ جعلی ہے یا اصلی، اس کا فرانزک ہو گا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا، یہ وعدہ کس سیاق و سباق میں گم ہو گیا اور نواز شریف کی سزا جوں کی توں ہے۔ ٭٭٭٭٭ انگیریزی اخبار نے ایک سکینڈل کی تفصیلات شائع کی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ مونچھوں والی سرکار نے اپنے سرکاری ادارے، جس کے وہ چیئرمین لگائے گئے ہیں کے کچھ اختیارات ایک عجوبہ ٹینڈرز کے ذریعے اپنے دوست کی نجی کمپنی کو دے دیئے ہیں۔ عنوان ہے الیکٹرانک مانیٹرنگ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم فارٹوبیکو پراڈکٹس۔ اس پنج سالہ ٹھیکے سے دوست کو سالانہ 6ارب روپے کا فائدہ ہو گا۔ اخبار نے سرخی میں میگا سکینڈل لکھا ہے حالانکہ یہ تو کچھ بھی نہیں، محض 30ارب روپے۔ پی ٹی آئی کے درجنوں بلکہ دسوں احباب ایمانداری کی گنگا میں پیراکی کر رہے ہیں، ایک غوطہ مونچھوں والی سرکار نے بھی لگا لیا تو کیا غضب ہو گیا۔