نیب نے مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں حمزہ اور سلمان شہباز کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیتے ہوئے ن لیگ کے سابق دور حکومت میں پی ایچ اے کے منصوبوں کی تحقیقات کے لئے کمشن قائم کر دیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ اور ان کے اہل خانہ کے خلاف متعدد معاملات میں بدعنوانی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ تحقیقات کا آغاز قانونی انداز میں کرکے سیاسی انتقام کے الزامات کو عملی انداز میں نیب نے مسترد کیا ہے۔میرٹ اور شفافیت کے بغیر کوئی ملک ترقی کر سکتا ہے ناہی جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچ سکتے ہیں۔ ملک کو بار بار مارشل لاز سے بچانے کے لئے دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے 13 سال قبل ایک دوسرے کے خلاف مستقبل میں سیاسی انتقامی کارروائیاں نہ کرنے کا عزم کرتے ہوئے میثاق جمہوریت کیا اس کو بعض ستم ظریف میثاق جمہوریت کے بجائے میثاق کرپشن کہتے ہیں۔ یہ کہنا بظاہر اس لئے غلط نہ ہو گا کہ اس کے نتیجے میں ماضی کے حکمرانوں بالخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایک دوسرے کی بدانتظامی اور مالی بدعنوانیوں سے صرف نظر شروع کر دیا جس کے باعث دونوں جماعتوں میں کرپشن کو فروغ ملنا شروع ہوا ۔ کراچی میں حکومتی وزراء کے گھروں سے اربوں روپے برآمد ہونے شروع ہوئے تو سمندر کے راستے کروڑوں ڈالر سمگل ہونے کے مقدمات بھی سامنے آئے۔ اس طرح پاکستان کی سیاست میں یہ بھی پہلی بار ہوا کہ حکومتی وزراء کے خلاف بدعنوانی کے معاملات عہدوں پر رہتے ہوئے سامنے آنے شروع ہوئے اور پنجاب میں سابق وزیراعلیٰ کے داماد کے زیر تعمیر پلازہ کے فلور کو کروڑوں روپے کرایہ پر دینے کا معاملہ سامنے آیا تو لاہور پارکنگ کمپنی کے سکینڈل میں حکومتی جماعت کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے۔ یہاں تک کہ خود کو خادم اعلیٰ کہلوانے والے وزیراعلیٰ پنجاب کے دور اقتدار میں 56 کمپنیوں میں 80 ارب کی کرپشن کا نہ صرف معاملہ سامنے آیا بلکہ خادم اعلیٰ نے چھان بین کے لئے کمیٹی بھی خود ہی قائم کر دی تھی۔ قومی مفاہمت کے نام پر بدعنوانی کے فروغ کا معاملہ صرف صوبائی حکومت تک ہی محدود نہ رہا بلکہ وفاقی حکومت میں سابق حکومت کے وزیر خزانہ اور سابق وزیر اعظم کے نام بھی نہ صرف کرپشن کیسز میں آتے رہے بلکہ اکثر معاملات میں تحقیقات کا آغاز بھی ہوا۔ چیئرمین نیب کی بے لاگ اور بلاامتیاز احتساب کی پالیسی کا ہی ثمر ہے کہ نیب سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف تحقیقات کے بعد نہ صرف 50 کروڑ رقم بنک سے برآمد کر چکا ہے بلکہ سابق وزیرخزانہ کی صوبائی دارالحکومت میں مہنگی ترین جائیداد بھی ضبط کی جاچکی ہے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی بدعنوانی کے الزامات کے تحت نیب کی تحویل میں ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو نیب کی طرف سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور ان کے صاحب زادگان حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کی اربوں روپے کی جائیدادیں ضبط کرنے کا معاملہ مبنی بر انصاف محسوس ہوتا ہے۔ ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ سابق وزیراعلیٰ کے داماد پہلے ہی عدالتوں سے مفرور ہیں اور ان کے صاحبزادے سلمان شہباز بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تساہل پسندی اور اپوزیشن کے سیاسی انتقام کے واویلا کا فائدہ اٹھا کر ملک سے فرار ہو چکے تھے اب خود شہباز شریف اپنے بھائی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے علاج کے لئے عدالت سے ریلیف لے کر ملک سے باہر تشریف لے جا چکے ہیں۔ ماضی میں کرپشن اور لوٹ مار کی اندھیر نگری کا اندازہ اس بات سے بھی ہو جاتا ہے کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پاکستانی کاروباری شخصیت ملک ریاض کے خاندان کی طرف سے تصفیے کی مد میں 190 ملین پائونڈ کی پیشکش قبول کر لی ہے۔ ملک ریاض اور ان کے خاندان کے 8 اکائونٹس اور املاک کی تحقیقات کے بعد یہ پیشرفت سامنے آئی ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ برطانیہ یہ رقم فوری طور پر پاکستان کومنتقل کر رہا ہے جبکہ ملک ریاض نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انہوں نے ہائیڈ پارک والا فلیٹ حسن نواز سے خریدا اور وہ اپنی قانونی جائیداد کو فروخت کر رہے ہیں۔ ان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے وضاحت کی ہے کہ یہ رقم سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں جمع کرائی جائے گی۔ ملک ریاض کے ٹویٹ اور سپریم کورٹ میں رقم جمع کرانے کے معاملات پر تاحال کچھ وضاحتیں درکار ہیں۔ تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان سے غیرقانونی طور پر لے جائی گئی دولت کی واپسی شروع ہو گئی ہے۔ یہ رقم ایسے وقت میں پاکستان کو مل رہی ہے جب ملکی معیشت بہتری کی طرف پیشقدمی کر چکی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ماضی میں سیاست دانوں کی سرپرستی اور پشت پناہی کے باعث کرپشن کا بازار گرم رہا ہے مگراس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سیاستدان افسر شاہی کی معاونت اور ملی بھگت کے بغیر مالی بدعنوانی کے مرتکب نہیں ہو سکتے۔ گو ماضی میں سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں میں کھیلنے اور کرپشن میں ملوث کچھ اعلیٰ سرکاری افسر بھی احتساب کے شکنجے میں آ چکے ہیں لیکن کرپشن کے ناسور سے اس وقت تک چھٹکارا ممکن نہیں جب تک کرپشن کے ہر معاملے میں سیاست دان کے ساتھ ملوث سرکاری افسر کو بھی احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا۔ بہتر ہو گا نیب سیاستدانوں کے ساتھ افسر شاہی کے خلاف بھی قانون کا شکنجہ کسے تاکہ سیاسی انتقام اور صرف سیاستدانوں کے احتساب کا تاثر ختم ہو سکے۔