ذہن کو سکون بخشنے والی دوائیں بھی مہنگی ہو گئیں۔سکون و اطمینان مہنگے ہوں گے تو دوائیں بھی مہنگی ہو جائیں گی۔یہ ایک سادہ سال اصول ہے ڈیمانڈ اور سپلائی کا اصول جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے دل کا سکون اور ذہن کا اطمینان رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔جیسے واقعات پے درپے رونما ہو رہے ہیں اس میں یہی ہوتا ہے۔پیمانۂ صبر لبریز ہو رہا ہے اور برداشت جواب دے رہے ہیں تو پھر کیا کیا جائے؟کتنا صبر اور کتنی برداشت؟ جتنا بھی ممکن ہو۔کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ فائنل رائونڈ ہے۔جو ہونا ہو گا اسی رائونڈ میں ہو جائے گا۔کیا ہوگا؟ اس کا جواب تو کسی کے پاس نہیں ہے۔لیکن قیاس کہتا ہے کہ خرابیاں آخری درجے تک پہنچ چکی ہیں اب ان کے بطن سے خوبیاں اور اچھائیاں ہی جنم لیں گی۔کیا یہ محض خوش گمانی ہے یا تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتا ہے۔سب سے زیادہ تاریکی رات کے پچھلے پہر کو ہوتی ہے اور اس لئے ہوتی ہے کہ اس کا پردہ چاک کر کے سپیدۂ سحر نے نمودار ہونا ہوتا ہے۔قوموں کی زندگی میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔تخریب کی انتہا تعمیر کا آغاز ہوتی ہے۔اس قسم کی باتیں یہ خاکسار ایک عرصے سے لکھتا آ رہا ہے‘ لیکن اس لکھے کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔لوگ درپیش حالات سے یہی نتیجہ نکالتے ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے کہ حالات دگرگوں ہوں اور نتیجہ خوش کن نکلے۔یہ بات اس لئے بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنے معاملات کو محض انسانی سطح پر رکھ کر دیکھتے‘ پرکھتے اور فیصلہ دیتے ہیں۔ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ دنیا کے معاملات کو چلانے والی کوئی اور ہستی ہے۔بہت کچھ معاملات میں تقدیر کا ہاتھ بھی ہوتا ہے۔جب تک ہم اپنے قومی معاملات کو قدرت کے فیصلوں کے تناظر میں رکھ کر نہ دیکھیں ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے ،قدرت براہ راست معاملات میں دخیل نہیں ہوتی۔وہ حقائق کو بدلنے میں واسطے اور وسیلے کو اختیار کرتی ہے تو جو کچھ ہوتا ہے اور جو کچھ ہو گا وہ حقیقت پسندانہ طریقے ہی سے ہوتا ہے ۔چاہے اس کا ہونا ہمیں دکھائی نہ دے اور سمجھ میں نہ آئے۔ قوموں کا عروج و زوال ایک ایسا سربستہ راز ہے جسے خداوند تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں کھول کر بتا دیا ہے کہ وہ جلیل القدر ہستی زمانے کو قوموں کے درمیان گردش دیتی رہتی ہے تاکہ برے کی جگہ بھلے کو لایا جا سکے۔یہی وجہ ہے کہ قوموں کی ترقی و تعمیر‘ ان کا بام عروج پر پہنچنا اور چھا جانا ایک مخصوص مدت کے لئے ہوتا ہے۔اس کے بعد جو قوم بام عروج پر ہوتی ہے وہ آہستہ آہستہ اپنی اوقات پہ واپس آ جاتی ہے اور جو قوم کل تک خوار و زبوں تھی وہ رفتہ رفتہ بام عروج پر پہنچ جاتی ہے۔اس اصول کی روشنی میں دنیا کے حالات کا جائزہ لیں تو ساری حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔کسی کا بڑھنا اور ترقی کرنا اور کسی کا پست سے پست تر ہونا اسی قانون کے زیر اثر ہوتا ہے۔ خدائی فیصلے اور خدائی قانون دھوم دھڑکے کے ساتھ نافذ نہیں ہوتے کہ دکھائی دے جائیں اور ان کے نفاذ سے کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔نہیں حقیقت آہستہ آہستہ بدلتی ہے۔تبدیلی دبے پائوں آتی ہے ایسے ہی جیسے عمر کے ساتھ ساتھ آدمی بدلتا جاتا ہے۔اس کا اندرون اور اس کا باہر نشو و نما پا کر پچھلی عمر سے مختلف ہو جاتے ہیں، ایسے ہی اقوام عالم کا معاملہ ہے۔تہذیبی بقول ایک مغربی مفکر درختوں کی طرح ہوتی ہیں جس طرح ایک درخت ابتدا میں محض بیج اور پودا ہوتا ہے۔ پھر نشرو و نما پا کر بڑھتا جاتا پھلتا پھولتا جاتا اور برگ و بار لاتا ہے اور کچھ عرصہ بعد کہنہ ساسالی کا شکار ہو کر پتے سوکھ جاتے ہیں۔تنے اور شاخیں کمزور ہو جاتی ہیں اور پھر ایک دن یہ درخت گر جاتا ہے یہ معاملہ تہذیبوں اور قوموں کا ہے۔یونان‘ روم‘ ایران‘ برطانیہ سامنے کی مثالیں ہیں جو اپنے عروج پر پہنچ کر واپس اپنی اوقات پہ آ گئیں۔ اب آج کی دنیا میں چین اور جاپان ترقی و تعمیر کی علامت بن گئے ہیں حالانکہ پہلے یہ بھی تخریب و زوال سے دوچار تھے۔تو جب صورت معاملہ کچھ یوں ہے تو پھر مایوسی کیسی؟ جو کچھ ہو رہا ہے وہ مقدر ہے اور آگے بڑھنے کا راستہ ان ہی صعوبتوں اور مسائل سے ہو کر گزرتا ہے۔لیکن کیا کریں کہ ہم انسان ہیں‘ ہم حقائق سے متاثر ہوتے ہیں کوئی علم اور کوئی اطلاع ہمارے احساسات کو نہیں بدل سکتے۔جو کچھ سامنے ہے وہی حقیقت ہے اور ہم اس کا اثر قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ہمیں کوئی بھی فلسفہ پڑھا دیا جائے۔کوئی بھی اصول سکھا دیا جائے لیکن ہم اپنے دل کو تسلی نہیں دے سکتے۔یہ دل تو اسی وقت مطمئن ہو گا جب حقیقت بدلے گی۔جب امن‘انصاف اور خوشحالی کا سورج طلوع ہو گا اور وہ کب ہو گا؟یہ خدا ہی کو معلوم ہے۔ماہر فلکیات بھی جو کچھ بتاتے ہیں ستاروں کی چال کو دیکھ کر اس کی بھی حیثیت قیاس آرائی سے زیادہ کچھ نہیں۔عالم الغیب تو خدا وند عالم ہی ہے اور ہم اسی سے اپنے حالات کے بدلنے کی دعا مانگ سکتے ہیں۔وہ ہماری دعا کو جب بھی قبول کرے اور جس حالت میں بھی قبول کرے۔اس کی مرضی۔وہ انسانوں کی بہتری چاہتا ہے۔وہ تنگی کے بعد فراخی عطا کرتا ہے اور مہربان اتنا ہے کہ تنگی کے اندر بھی فراخی عطا کر دیتا ہے۔ہمارے ملک کی حالت کتنی درماندہ اور خستہ حال ہے لیکن آج بھی ہمارے بازار پررونق ہیں۔زندگی کی گاڑی برے بھلے ہر حال میں چل ہی رہی ہے۔یہ اسی کا کرم ہے لوٹ مار کا جو حال رہا ہے اس لحاظ سے تو اسے دیوالیہ ہو جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہے۔بہتری کی کوئی نہ کوئی صورت نکلتی رہتی ہے اور میرا ایمان ہے کہ بہتری کی مزید صورتیں نکلیں گی اور اچھے دن ضرور آئیں گے۔ظلم اور استحصال کا یہ نظام زیادہ دن نہیں چلے گا۔جو ہو رہا ہے وہ آئندہ نہیں ہو گا اور آئندہ یہ ہو گا وہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔اس لئے میں مایوس نہیں ہوں۔یہ الگ بات کہ کبھی کبھی حالات کی تباہی کا اثر مایوسی کی اتھاہ گہرائی تک پہنچا دیتا ہے لیکن خدا کی رحمت سے مایوسی کیسی؟ بات شروع ہوئی تھی کہ ذہن کو سکون پہنچانے والی دوائوں کی مہنگائی سے۔ہاں اس وقت ایسی گولیوں کی مانگ بڑھ گئی ہے جنہیں کھا کر آدمی پائوں پسارے اطمینان کی نیند سو سکے۔ہزار طرح کے اندیشے ہیں‘ ہزار طرح کے خوف اور وسوسے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔اسی تکرار میں آنکھوں سے نیند اجڑ جاتی ہے لیکن یہ پریشاں خوابی اس بات کی نشانی ہے کہ سکون و اطمینان بھری نیند بھی آنے والی ہے۔وہ ذرا سے فاصلے پر ہے۔!