آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی نے گزشتہ سال اعلان کیا تھا کہ ہر سال 25 ستمبر کو نیشنل نیوز پیپر ریڈنگ ڈے منایا جائے گا ۔سیکرٹری جنرل اے پی این ایس سرمد علی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس دن کا انتخاب 1690ء میں شائع ہونے والے کثیر الصفحات نیوز پیپر کی یاد منانے کیلئے کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان میں نیوز پیپر پڑھنے کی اہمیت اور اثر انگیزی سے متعلق آگاہی پھیلانے کیلئے لیا گیا ہے تاکہ اخبار پڑھنے کیلئے نوجوان نسل کو حوصلہ افزائی کی جائے ۔جناب سرمد علی نے مزید کہا ہے کہ تمام رکن مطبوعات سے درخواست ہے کہ وہ ریڈر شپ ڈے پر ایشوز شائع کریں ۔ الیکٹرانک میڈیا کی موجودگی کے باوجود پرنٹ میڈیا کی اپنی ایک تاریخ اور اپنی اہمیت ہے۔ سرائیکی میں ایک کہاوت ہے کہ لکھیا لوہا ، الایا گوہا ۔ اس کا مطلب ہے کہ جو چیز لکھت میں آ گئی وہ لوح محفوظ بن گئی اور بولی گئی بات فضا میں تحلیل ہو جاتی ہے ۔ پرنٹ میڈیا کے حوالے سے 25 ستمبر کو نیوز پیپر ریڈنگ ڈے منانا بہت ہی اہم ہے کہ اس سے پرنٹ میڈیا کی 400 سالہ تاریخ پر روشنی پڑے گی ۔ نیوز پیپر ریڈنگ ڈے منانا اس لئے بھی ضروری ہو گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی بھرمار ہے ، اس حوالے سے آج بھی پرنٹ میڈیا کو اس بات کی ساکھ حاصل ہے کہ اخبارات کی خبریں درست ہوتی ہیں ۔ صحافتی تاریخ کے ساتھ ساتھ آزادی صحافت کی بھی ایک تاریخ ہے۔ اس کے لئے صحافی برادری نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ موجودہ دور میں صحافت کے ساتھ جو مذاق کیا جا رہا ہے اور جس طرح صحافتی اداروں کو بے حال کر کے رکھ دیا گیا ہے ، اسکی مثال گزشتہ چار سو سال کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ یہ حقیقت ہے کہ ریاست ماں ہوتی ہے ، وہ الجھے ہوئے معاملات کو بہتر بناتی ہے مگر عجب بات ہے کہ ریاست کے کارندے تمام معاملات کو خود خراب کر رہے ہیں اور لاکھوں صحافی برطرفیوں کی صورت میں جو عذاب سہہ رہے ہیں وہ ناقابل بیان ہے۔ نہیں معلوم یہ سب کچھ عمران خان کے کہنے پر ہو رہا ہے یا پھر در پردہ عمران خان کے بد ترین مخالف لبادہ اوڑھنے والے پالیسی سازوں سے غلط فیصلے کرا رہے ہیں ؟بہرحال یہ الگ موضوع ہے ، میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ صحافیوں نے آزادی صحافت کیلئے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں ، اس کے باوجود حکومت کی طرف سے اشتہار کو آزادی صحافت کے خلاف بطور ہتھیار استعمال جاتا ہے جو کہ غیر مناسب عمل ہے، اب آزادی صحافت کے سلسلے میں قربانیوں کا ذکر آیا تو یہ بھی سنیے کہ یہ آزادی بہت بڑی قربانیوں کے بعد ملی ہے اور یہ قربانی پلیٹ میں رکھ کر کسی نے نہیں دی ۔ 18 دسمبر1979ء کو جنرل ضیاء نے ازالہ حیثیت عرفی کے قانون کی رو سے کسی شخص کے خلاف ہتک عزت مواد کی اشاعت ممنوع قرار دی ،خاص بات یہ ہے کہ آرڈیننس میں یہ بھی لکھا گیا ، ’’شائع شدہ مواد کتنا بھی سچا حقیقی اور مفاد عامہ کے حق میں ہی کیوں نہ ہو‘‘ جنرل ضیاء الحق کے اس قانون کو اخبارات کی عالمی تنظیموں نے کالا قانون کا نام دیا تھا، جنرل ضیاء الحق کے عرصہ اقتدار میں مساوات، ہلال پاکستان، صداقت، قاصد، اعتماد (بلوچستان) آزاد کشمیر کے کار زار، مشیر، انجان آزاد، نیلم، قائد، مبصر شعلہ اور ان کے چھاپہ خانہ المدینہ پرٹنگ پریس مظفر آباد، الفتح کراچی، تمثل الحمید، سائنس ڈائجسٹ، سرگزشت، انگریزی، آرٹس انٹرنیشنل اور میڈیکل سپیکڑم سمیت مزید درجنوں اخبارات کے ڈیکلریشن منسوخ ہوئے باقی تمام اخبارات پر مکمل سنسر کے علاوہ مساوات اور حیدر کے پرٹنگ پریس کی سرعام بولی لگوا دی گئی، جنرل ضیاء الحق کے دور میں الطاف حسین قریشی نذیر ناجی، محمود شام جیسے نامور صحافی صرف گرفتار ہی نہیں ہوئے انہیں ذہنی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، روز نامہ صداقت کراچی میں اندھے کی لاٹھی لکھنے پر بشیررانا کو بغیر وارٹ گرفتار کیا گیا سرعام تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 13مئی1978ء کا دن برصغیرپاک و ہند کی صحافت کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، کیونکہ اس دن سرسری فوجی عدالتوں نے چار صحافیوں کو کوڑے لگانے کا حکم دیا، وہ چار صحافی یہ تھے، مسعود اللہ خان، اقبال احمد جعفری، خاور نعیم ہاشمی اور نثار زیدی۔ اس ضمن میں مارشل لاء ایڈمنسریٹر زون اے ( پنجاب کے ہیڈ کوارٹر سے مندرجہ ذیل اخباری بیان جاری کیا گیا۔ آج لاہور میں مختلف فوجی عدالتوں نے گیارہ صحافیوں اور اخباری کارکنوں کو مختلف سزائیں سنائیِں۔ پانچ کو وارننگ دے کر چھوڑ دیا گیا، سزائوں کی تفصیل یہ ہے۔ محمد الیاس( پاکستان ٹائمز راولپنڈی) نو ماہ کی قید بامشقت اور پانچ ہزار روپے جرمانہ اور عدم ادائیگی کی صورت میں مزید تین ماہ کی قید بامشقت۔ نثار زیدی( نوائے وقت) اور اقبال احمد جعفری (سن) نو ماہ کی قید بامشقت ، پانچ پانچ کوڑے اور تین تین ہزار روپے جرمانہ۔ عدم ادائیگی کی صورت میں مزید تین ماہ کی قید بامشقت۔عبدالحمید چھاپرا(جنگ کراچی) چھ ماہ کی قید بامشقت، دو ہزار روپے جرمانہ۔ عدم ادائیگی کی صورت میں مزید تین ماہ کی قید بامشقت۔ مسعود اللہ خان( پاکستان ٹائمز) چھ ماہ کی قید بامشقت۱، پانچ کوڑے، دو ہزار روپے جرمانہ، عدم ادائیگی کی صورت میں مزید تین ماہ کی قید بامشقت۔ سید محمد صوفی(مساوات۔ کراچی) اور خواجہ نثار احمد ( جنگ کراچی) چھ ماہ کی قید بامشقت اور ایک ایک ہزار روپے کا جرمانہ۔ عدم ادائیگی کی صورت میں مزید تین ماہ کی قید بامشقت۔ رانا نیر اقبال( مساوات، لاہور) اور محمد اشرف علی ( صداقت کراچی) تین تین ماہ کی قید بامشقت۔رانا نیر اقبال( مساوات لاہور) اور محمد اشرف علی (صداقت ، کراچی) تین تین ماہ کی قید بامشقت۔ ان گیارہ میں سے جن چار صحافیوں کو کوڑوں کی سزا سنائی گئی ، انہیں عدالت کا فیصلہ سنانے کے سترمنٹ کے اندر کوڑے لگائے گئے۔ اپنک اور پی ایف یو جے نے حکومت کے ان اقدامات کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی۔ حکومت نے تحریک چلانے والے سرکردہ صحافیوں کو گرفتار کر لیا،اور ان پر ظالمانہ تشدد کیا، جن میں ایک خاتون صحافی لالہ رخ حسین بھی شامل تھی۔آج اگر صحافت آزاد ہوئی ہے تو کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ سب کچھ صحافیوں کو پلیٹ میں رکھ کر دیا گیا ہے بلکہ اس کیلئے صحافیوں نے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں ہم قربانیاں دینے والے صحافیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔