کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ کی مساجد میں سفید فام دہشت گرد نے بوڑھوں کو دیکھا نہ بچوں کو ، گورے کو دیکھا نہ کالے کو ، دیسی کو دیکھا نہ پردیسی کو دیکھا۔ 28 سالہ آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرنٹ نے دیکھا تو صرف یہ دیکھا کہ آج جمعۃ المبارک ہے، مسلمانوں کے لیے ہفتے کا مقدس ترین دن اور ڈیڑھ دو بجے دوپہر کا وقت جب مسلمان مساجد میں اکٹھے ہوتے ہیں اور رب ذوالجلال کے حضور سربسجود ہوتے ہیں۔ بزدل حملہ آور نے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ کے لیے اس وقت کا انتخاب کیا تھا۔ اس نے مسجد النور میں داخل ہوتے ہی فائرنگ شروع کردی۔ ایک گن گولیوں سے خالی ہو گئی تو پاکستانی نعیم راشد نے خالی گن اٹھا کر بہت مزاحمت کی اور حملہ آور پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کی مگر اس نے دوسری گن سے نعیم راشد پر گولیاں برسا کر اسے ڈھیر کردیا۔ 9 پاکستانیوں سمیت سفید فام دہشت گرد نے کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے پچاس افراد کو شہید کردیا۔ حملہ آور برینٹن ٹیرنٹ نے نیٹ پر اپنا 73 صفحات پر مشتمل منشور بھی جاری کیا جس کا لب لباب یہ ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گورا برتری پالیسی سے بہتر متاثر ہے۔ اسے تشویش ہے کہ یورپی ممالک میں مسلمان کی بڑھتی ہوئی نقل مکانی اور ان کی شرح افزائش آبادی یورپ کے لیے خطرہ ہے۔ یورپی ممالک میں امیگریشن کے ذریعے آنے والے مسلم حملہ آوروں سے بچانا چاہتا ہے۔ وحشی حملہ آور کو یہ معلوم نہ تھا کہ ممتاز ماہر تاریخ ٹاکن بی نے 12 جلدوں پرمشتمل اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’اے سٹڈی آف ہسٹری‘‘ اور ’’ڈی ورلڈ اینڈ دی ویسٹ‘‘ میں لکھا ہے کہ مغربی تہذیب کی بنیاد جدید ٹیکنالوجی پر ہے۔ آج دنیا کا گزارہ جدید ٹیکنالوجی کے بغیر ناممکن ہے اس لیے جہاں ٹیکنالوجی جاتی وہاں ساتھ ہی مغربی تہذیب بھی جاتی ہے اور یوں ساری دنیا مغرب کے زیر اثر آ رہی ہے اور مغربی تہذیب کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔ اگر خطرہ ہے تو اس تہذیب کے اپنے اندرونی تضادات سے خطرہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیوزی لینڈ کا سانحہ بہت بڑا ہے، غم و اندوہ کا پہاڑ ناقابل برداشت ہے، پچاس افراد کی ہلاکت سے متاثر ہونے والے کم و بیش پچاس ہزار انسان ہوں گے مگر جو بات دلاسے کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب کی آگ میں جلنے والے انتہا پسند لیڈروں کو چھوڑ کر باقی ساری عالمی برادری نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ برینٹن ٹیرنٹ کی وحشیانہ فائرنگ کو دہشت گردی قرار دیا اور اس کی بھرپور مذمت کی۔ یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور کئی ممالک میں فوری طور پر بین الامذاہب ہم آہنگی کی تنظیموںکے مختلف شہروں کی مساجد میں بڑی تعداد میں عیسائی، یہودی، سکھ، مسلمان اور دیگر کئی مذاہب اور عام کمیونٹی کے سرکردہ افراد اکٹھے ہوئے اور انہوں نے دہشت گردی کی مذمت کی، غمزدہ خاندانوں کی دل جوئی کی اور مسلمانوں کے ساتھ اظہار تعزیت کیا۔ بوسٹن امریکہ سے قاضی خالد نے ایسے ہی اجلاس کی خبر دی ہے۔ اس طرح ڈاکٹر احمد نے مجھے ڈیلس امریکہ سے بتایا کہ وہاں بھی بین المذاہب ہم آہنگی کی سب سے بڑی تنظیم کا اجلاس ہوا جس میں ایک افریقن امریکن سکالر نے خون گرما دینے والی تقریر کی۔ اس نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ گورا برتری کا علمبردار ہے۔ ہم امریکی شہری ہونے کی حیثیت سے شرمندہ ہیں کہ سفید فام نسل پرست امریکی صدر سے انسپریشن لیتے ہیں۔ اپنا اپنا وژن ہے کہ ایک امریکی صدر ابراہام لنکن نے انیسویں صدی میں امریکہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے افریقی غلاموں کو طوق غلامی سے نجات دلائی تھی اور امریکہ میں گورے کی کالے پر سیاسی و سماجی برتری کا خاتمہ کردیا تھا۔ نیوزی لینڈ کے دلفگار سانحے کے بعد وہاں کی 39 سالہ خاتون وزیراعظم جنیڈا ارڈرن نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر سفید فام حملہ آور کی قاتلانہ و وحشیانہ کارروائی کو کھلی کھلی دہشت گردی قرار دیا اور اس کی بھرپور مذمت کی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سانحہ کی خبر سن کرانپے ٹویٹ میسج کے ذریعے ایک مسلم مخالف ویب سائٹ پر خبر کا لنک بھیجا اور کوئی مذمت نہ کی تھی۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو فون کر کے کہا کہ ہم آپ کی کیسے مدد کرسکتے ہیں تو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا کہ اس موقع پر آپ مسلمانوں کو محبت اور ہمدردی کا پیغام دے کر ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ا س جواب سے شرمسار ہوا اور اس کے بعد ہی اس نے اپنے ٹویٹ میسج میں نیوزی لینڈ کی دہشت گردی کی مذمت کی۔ نیوزی لینڈ کے سانحے پر وہاں کی وزیراعظم جنیڈا نے سیاہ لباس پہن کر اور سیاہ دوپٹہ اوڑھ کر غمزدہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو گلے لگا کر صدق دل اور شدت جذبات کے ساتھ اظہار تعزیت کیا۔ مسلمانوں کے ساتھ جنیڈا کے اظہار یکجہتی نے ساری دنیا میں مسلمانوں کے دل موہ لیے۔ اس موقع پر انتہائی پرامن ملک نیوزی لینڈ کے باشندوں نے متاثرہ مساجد کے باہر تعزیتی تحریریں لکھ کر ہزاروں کی تعداد میں پھولوں کے گل دستے رکھے اور یوں متاثرہ خاندانوں اور مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر کچھ احادیث کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ اللہ کے آخری نبی نے بعض صحابہ کے ریاست مدینہ کو چھوڑ کر کسی مشرک کمیونٹی میں سکونت اختیار کرنے کو ناپسند کیا تھا اور اس کی ممانعت فرمائی تھی۔ گویا مسلمانوں کو غیر مسلم معاشروں میں نہیں جانا چاہیے اور وہاں سکونت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کے 57 ممالک میں سے کوئی ایک بھی ریاست مدینہ کے کم از کم تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔ اس وقت تقریباً تمام اسلامی ممالک معاشی، معاشرتی، سیاسی اور قانونی انصاف سے تہی دامن ہیں۔ یہ بھی بتایا جائے کہ فلاں اسلامی ملک میں غریب اور امیر دونوں کے لیے یکساں انصاف ہے۔ کسی ایک اسلامی ملک کا نام بتا دیں جہاں کوئی صحافی ادھورا نہیں پورا سچ بول سکتا ہو۔ اجتماعی و معاشی اور سیاسی ناانصافی کے ہاتھوں مجبور ہو کر جب لوگ ہجرت کرتے ہیں۔ بیروزگاری سے تنگ آ کر خودکشی کے آپشن تک جانے والے جب اپنے اہل خاندان اور اپنے ملک کی خوشحالی کے لیے زرمبادلہ بھیجتے ہیں تو یہ ناجائز کیسے ہوگیا۔ جہاں تک طب، سائنس، ٹیکنالوجی، علم الافلاک وغیرہ کا تعلق ہے تو سب کے سب جدید علوم مغرب کے پاس ہیں۔ وسیع النظری کے ساتھ غور و خوض ضرور کرنا چاہیے۔ نیوزی لینڈ کی سفید فام دہشت گردی کے بعد دنیا میں یہ بیانیہ بہت مقبول ہورہا ہے کہ دہشت گردی کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ۔اگلے جمعۃ المبارک کو ساری دنیا میں نماز جمعہ کے بعد مسلمانوں کو پھول پیش کر کے ان کے ساتھ وسیع تر انداز میں اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔ ہمیں مسلم دوستی کی اس لہر اور انسانی اقدار سے وابستگی کی اس فضا کو عام کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔