اسلام آباد(خصوصی نیوز رپورٹر؍خبر نگار خصوصی؍ نیوز ایجنسیاں؍ مانیٹرنگ ڈیسک)اپوزیشن جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اسلام آ باد میں اے پی سی کے انعقاد کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری و دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان سے فوری استعفے کا مطالبہ کیا۔سربراہ جے یو آئی نے کہا اکتوبر اور نومبر میں پہلے مرحلے میں ملک کے صوبائی دارالحکومتوں (کراچی، کوئٹہ، پشاور اور لاہور) سمیت بڑے شہروں میں مشترکہ جلسے کئے جائیں گے ، دسمبر میں دوسرے مرحلے میں صوبائی دارالحکومتوں میں بڑی عوامی ریلیاں اور مظاہرے ہوں گے جب کہ جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف فیصلہ کن لانگ مارچ کیا جائے گا۔حکومت مخالف احتجاجی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وکلائ، تاجر، کسان، مزدور، طالب علم، سول سوسائٹی، میڈیا اور عوام کو اس تحریک کی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے گا۔مولانا فضل الرحمان نے کہا سلیکٹڈ حکومت کی تبدیلی کے لئے اپوزیشن پارلیمان کے اندر اور باہر تمام جمہوری ، سیاسی اور آئینی آپشنز استعمال کرے گی جس میں عدم اعتماد کی تحاریک اور مناسب وقت پر اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کا آپشن شامل ہے ۔ انہوں نے بتایااپوزیشن کی جانب سے 4 صفحات کا اعلامیہ جاری کیاگیا جس کو ’کل جماعتی کانفرنس قرارداد‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس اعلامیے میں 26 نکات شامل ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے قرارداد پڑھ کر سنائی جس کے مطابق قومی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ’پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ‘ تشکیل دیا گیا ہے ، یہ اتحادی ڈھانچہ حکومت سے نجات کے لئے ملک گیر احتجاجی تحریک کو منظم کرے گا، چارٹرآف پاکستان مرتب کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی جائے ، کمیٹی اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کی سمت کاتعین کرے گی۔قرارداد کے مطابق حکومت نے ریکارڈ توڑ مہنگائی، بیروزگاری، ٹیکسوں کی بھرمار سے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی لہٰذا آٹے ، چینی، گھی، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات میں فوری کمی کی جائے ۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ آئین، 18 ویں ترمیم اور موجودہ این ایف سی ایوارڈ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، پارلیمان کی بالا دستی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی اور نہ ہی اس پر سمجھوتہ کیا جائے گا۔قرارداد کے مطابق سلیکٹڈ حکومت نے پارلیمان کو بے وقعت کر کے مفلوج کر دیا، عوام کے آئینی بنیادی انسانی حقوق کے منافی قانون سازی کی جا رہی ہے ، آج سے ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ سے اپوزیشن کوئی تعاون نہیں کرے گی۔قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے شہری آزادی کے منافی غیر آئینی، غیر جمہوری، غیر قانونی قوانین کو کالعدم قرار دیا جائے اور ایوان کی کارروائی کو بلڈوز کر کے کی گئی قانون سازی واپس لی جائے ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا اجلاس نے میڈیاپرتاریخ کی بد ترین پابندیوں، دباؤ اور حکومتی ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ میرشکیل الرحمان سمیت تمام گرفتارصحافیوں اور میڈیاپرسنز کو رہا کیا جائے ۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے مذموم ارادوں کو مسترد کیا جاتا ہے ، سلیکٹڈ حکومت سقوط کشمیر کی ذمہ دار ہے جبکہ اے پی سی نے حکومت کی افغان پالیسی کی مکمل ناکامی پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ موجودہ حکومت کو دھاندلی کے ذریعے مسلط کیا گیا، اس لئے اجلاس نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان استعفی دیں اور ملک میں شفاف اور آزادانہ انتخابات کرائے جائیں، 1973 کے آئین اور18 ویں ترمیم قومی اتحاد کا مظہر ہے اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اجلاس ملک میں صدارتی نظام کے ارادے کو رد کرتا ہے ، صوبائی خود مختاری اور شہری آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اجلاس سیاسی انتقام پر گرفتار سیاسی رہنما اور کارکنوں کی فوری رہائی کامطالبہ کرتا ہے ، اس کے علاوہ اجلاس گلگت بلتستان میں شفاف انتخابات کا بھی مطالبہ کرتا ہے ۔اعلامیے کے مطابق اجلاس نے ٹروتھ کمیشن کا مطالبہ کیا ہے ، تباہ حال معیشت ملک کے لئے خطرہ بن چکی ہے ، میثاق جمہوریت پر نظرثانی کی جائے گی، متحدہ اپوزیشن ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کرتی ہے ، اس تحریک میں وکلا، تاجر،کسان، عوام اور سول سوسائٹی کو بھی شامل کیا جائے گا،اپوزیشن کی جانب سے جنوری 2021 میں فیصلہ کن لانگ مارچ کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس حوالے سے بلاول بھٹو زرداری نے کہا حکومت کے خلاف تحریک کے لئے نکل رہے ہیں، امید ہے عوام حکومت کے خلاف ہمارا ساتھ دیں گے ۔نجی ٹی وی کے مطابق عدلیہ،ڈیفنس سروسز،بیوروکریسی یاپارلیمان کے افراد کا ایک قانون اورادارے کے تحت احتساب کیا جائے ،ملک میں آزاد،شفاف اورغیرجانبدارانہ انتخابات کاانعقادیقینی بنایاجائے ،سیاسی انتقام کاشکاراورجھوٹے مقدمات میں گرفتارارکان کورہاکیا جائے ۔ اجلاس میں خورشیدشاہ اور حمزہ شہباز سمیت سیاسی رہنمائوں کی جرأت واستقامت کوخراج تحسین پیش کیاگیا۔ اجلاس میں کہا گیا ناتجربہ کارحکومت نے سی پیک کوخطرے میں ڈال دیا، پاکستان کے شہریوں کولاپتہ بنانے کاسلسلہ بند کیا جائے ، آغاز حقوق بلوچستان پرعملدرآمد یقینی بنایاجائے ، بلوچستان میں ایف سی کی جگہ سول اتھارٹی بحال کی جائے ۔اجلاس نے مطالبہ کیاکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی و چیئرمین سی پیک اتھارٹی عاصم سلیم باجوہ کے بارے میں سامنے آنے والی حالیہ رپورٹ کی مکمل اورشفاف تحقیقات اسی طریقہ کارکے مطابق کی جائیں جوملک کے دیگرسیاستدانوں سے متعلق اپنایاگیاہے ،تحقیقات مکمل ہونے تک انہیں عہدے سے برطرف کیاجائے ۔قبل ازیں مسلم لیگ(ن) کے قائد، سابق وزیراعظم نواز شریف نے طویل عرصے بعد اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے اپوزیشن کی کثیر الجماعتی کانفرنس میں حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری جدوجہد وزیراعظم عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ 2018 انتخابات کے ذریعے انہیں اقتدار میں لانے والوں کے خلاف ہے ۔پیپلزپارٹی کے زیراہتمام کثیر الجماعتی کانفرنس میں مسلم لیگ(ن)، جے یو آئی(ف)، عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت اہلحدیث اور پشتون تحفظ موومنٹ نے شرکت کی، تاہم جماعت اسلامی شریک نہیں ہوئی۔کانفرنس سے اپنے خطاب میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے کہا ہماری تاریخ میں 33 سال کا عرصہ فوجی آمریت کی نذر ہوگیا، یہاں صرف ایک آمر پر مقدمہ چلا، خصوصی عدالت بنی، کارروائی ہوئی، اسے آئین و قانون کے تحت سزا سنائی گئی لیکن ہوا کیا؟ کیا وہ ملک میں آگیا اور اسے سزا ملی؟ بلکہ ہوا تو یہ کہ وہ عدالت ہی غیر آئینی قرار دے دی گئی۔انہوں نے سوال کیا کہ 2018 کے انتخابات میں آر ٹی ایس گھنٹوں کیوں بند رکھا گیا، گنتی کے دوران پولنگ ایجنٹس کو کیوں باہر نکال دیا گیا، انتخابات میں دھاندلی کیوں اور کس کے کہنے پر کس کے لئے کی گئی اور کن مفادات کے لئے کی گئی، اس پر سابق چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری الیکشن کمشنر کو بھی جواب دینا ہو گا اور جو لوگ بھی دھاندلی کے ذمہ دار ہیں، ان سب کو حساب دینا ہوگا۔اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ کھربوں روپے کے نقصان اور ہزاروں جانیں قربان کرنے کے باوجود ہم کبھی ایف اے ٹی ایف اور کبھی کسی اور کٹہرے میں کھڑے شرمناک صفائیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ کیوں ہم عالمی تنہائی کا شکار ہوگئے ؟ کیوں دنیا ہماری بات سننے کو تیار نہیں ؟ شاہ محمود قریشی نے کس منصوبے کے تحت وہ بیانات دیئے جس سے ہمارے دیرینہ دوست سعودی عرب کی دل شکنی ہوئی، خارجہ پالیسی کو بچوں کا کھیل بنا دیا گیا،وقت آگیا ہے کہ ان تمام سوالوں کے جواب لئے جائیں۔انہوں نے کہا اب سی پیک کے ساتھ پشاور بی آر ٹی جیسا سلوک ہورہا۔سابق وزیراعظم نے کہا 2018 میں سینیٹ انتخابات سے کچھ عرصہ قبل ایک مذموم سازش کی گئی، اس مذموم سازش کے ذریعے بلوچستان کی صوبائی حکومت گرادی گئی، جس کا اصل مقصد سینیٹ کے انتخابات میں سامنے آیا۔انہوں نے کہا اس سازش کے کرداروں میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ، جو اس وقت کے کمانڈر سدرن کمانڈ تھے ، کا نام بھی آتا ہے ، یہ وہی عاصم سلیم باجوہ ہیں جن کے خاندان کی بے پناہ دولت اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اثاثوں کی تفصیلات پوری قوم کے سامنے آچکی ہیں،ان حقائق کو نہ صرف چھپایا گیا بلکہ مبینہ طور پر ایس ای سی پی کے سرکاری ریکارڈ میں بھی ردوبدل کیا گیا۔انہوں نے کہا ریاستی طاقت سے میڈیا کی زبان بندی کہاں کا انصاف ہے ؟اپنے طویل خطاب میں نواز شریف نے کہا جمہوریت کو کمزور کرنے اور اپنا مخصوص ایجنڈہ نافذ کرنے کے لئے 'تقسیم کرو' کی پالیسی معمول بن چکی ، اب ’’تقسیم کرو‘‘ کا یہ ہتھیار نہ صرف وکلا، دانشوروں، تاجروں، صنعتکاروں اور میڈیا کے لئے استعمال ہورہا بلکہ اب عدلیہ بھی اس کا ہدف ہے ۔سابق وزیراعظم نے کہا میری تجویز ہے کہ یہ کانفرنس حمودالرحمٰن کمیشن کی سفارشات کو عوام کے سامنے لائے ۔انہوں نے کہا ہمارے دفاع کی مضبوطی اور قومی سلامتی کے لئے سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہماری مسلح افواج آئین پاکستان، اپنے دستوری حلف اور قائد اعظم کی تلقین کے مطابق خود کو سیاست سے دور رکھیں اور عوام کے حق حکمرانی میں مداخلت نہ کریں۔پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین، سابق صدر آصف زرداری نے بذریعہ ویڈیو لنک اپنے خطاب میں سب سے پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بلاول کی دعوت پر اے پی سی میں شرکت کی، ساتھ ہی انہوں نے سابق وزیراعظم کی صحت کے لئے بھی دعا کی۔آصف زرداری نے کہا اے پی سی کے خلاف حکومت جو ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے ، وہی آپ کی کامیابی ہے ، یہ کیا ہے کہ نواز شریف کو براہ راست نہیں دکھا سکتے لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف کو دکھا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا جب سے ہم سیاست میں ہیں، ہم نے کبھی اتنی پابندیاں نہیں دیکھیں، ایک چینل کے سی ای او کو جیل میں ڈالا ہوا جبکہ ایک چینل کو لاہور سے بند کیا ہوا ہے ۔انہوں نے کہا ہم حکومت کو نکال کر جمہوریت بحال کریں گے ، عمران خان کی سوچ ایک میجر کی سوچ ہے ، یہ کوئی جمہوریت نہیں، اس طرح ملک نہیں چلتے ، ہم حکومت گرانے نہیں بلکہ ملک بچانے آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے اس اے پی سی کے بعد پہلا بندہ میں ہی جیل میں ہوں گا لیکن مولانا فضل الرحمٰن سے درخواست ہے کہ آپ ملنے آئیے گا، اس ملاقات کا مجھے انتظار رہے گا۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا حکومت کونہ صرف سڑکوں سے للکارناہے بلکہ انہیں وہاں سے للکارناہے جہاں وہ موجودہیں۔ انہوں نے کہا جس نے یہ کٹھ پتلی نظام مسلط کیا، ہمیں انہیں سمجھانا پڑے گا، ہمیں مطالبہ کرنا پڑے گا کہ ہمیں انتخابات میں سب کو مساوی مواقع دینا ہوں گے ۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک میں جمہوریت صرف نام کی ہے ۔مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا اپوزیشن کو متحد ہوکر آگے بڑھنا ہوگا،ووٹ کو جب عزت نہیں ملتی تو پٹرول، آٹا، چینی، ادویات مہنگا ہونا علامات ہیں، ووٹ کی عزت یہ ہے ؟ انہوں نے کہا ہم نے انگریز سے اس لئے آزادی حاصل نہیں کی تھی کہ اگر کوئی حق سچ کی بات کرے تو رات کو ویگو ڈالے والے اٹھا کر لے جائیں، پاکستان میں ویگو ڈالے والا کلچر ختم ہونا چاہیئے ، ادارے اپنی حدود میں رہیں تو سب قابل احترام ہیں، سینیٹ اور فیٹف قانون کے معاملے پر جو ہوا، یہ حکومت کیلئے کوئی فخرکا مقام نہیں۔ انہوں نے کہا سیاستدانوں کی تضحیک ختم ہونی چاہئے ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اسمبلیوں سے استعفیٰ اور سندھ اسمبلی کو تحلیل کرنے کی تجویز پیش کر تے ہوئے کہا وزیراعظم سمیت اسمبلیاں جعلی اور میرے نزدیک چیئرمین سینیٹ بھی جعلی ہے ۔