وہ چشم ہائے ناز سرِدشتِ بے اماں مشکیزے جیسے کھول دے کوئی بھرے ہوئے اے شہر یار‘ شہر کہاں چھوڑتے ہیں لوگ جنگل سے کب نکلتے ہیں آہو ڈرے ہوئے دشت میں نخلستان کا گمان بھی مسافر کو ایک گونہ آسودگی دے جاتا ہے۔ آپ سوئے آسمان دیکھنے سے پہلے بھی اگر دل کو دعا کی طرف راغب کریں تو آنکھوں میں ابر اتر آتے ہیں۔ وہی جو اقبال نے کہا تھا کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ یہی مٹی جس کو انسان کے لئے گوندھا گیا۔ انسان کی رسائی تو صرف حواس کے ذریعہ ہے باقی معاملات تو پردے کے پیچھے ہیں۔ وہ جو خیام نے کہا تھا کہ جسے نہ آپ سن سکتے ہیں اور نہ میں۔ مگر کہیں یہ القاضرور ہوتے ہیں اور منکشف بھی۔ بات یہ ہے کہ ہمیں یہیں زندگی کرنا ہے اور اسی جگہ کو ہم نے سنوارنا ہے اور غفلت کریں گے تو انجام کار کس کو معلوم نہیں: فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے مشکل کوئی بھی ہو حل اس کا ہوتا ہے اور مشکل کشائی کرنے والا تو ہمارے دلوں میں رہتا ہے ہماری شہ رگ سے قریب ہے اور پتھر میں ہونے والے عمل سے بھی بے خبر نہیں۔ حل ملتا انہی کو ہے جو سعی کرتے ہیں۔ صلہ از بس ضروری ہے‘‘ مالک دا کم پھل پھل لانا لاوے یا نہ لاوے‘‘ ہم جانتے ہیں کہ کورونا نے ہمارے حال دگرگوں کر دیے ہیں اور اس کورونا سے زیادہ ہمارے کرونیے زیادہ مشکل کا باعث بنے ہیں کہ وہ حرص و ہوس کے مارے ہوئے ہیں۔ وبا کے دنوں میں بھی جو دولت بنا رہے ہیں۔ غفلت کی بھی کوئی ڈگر ی ہے مگر جب دل سیاہ ہو جائیں تو کوئی کیا کرے مگر درد دل رکھنے والے اور اللہ پر کامل یقین رکھنے والے پھر بھی ناامید نہیں ہوتے۔ ویسے یہ زندگی بھی عجب ہے بلکہ آپ کو شعر سے سمجھاتا ہوں: اس زندگی کا سانحہ کتنا عجب ہے ہم دیکھتے ہیں موت کو لیکن کسی کے ساتھ میں کچھ مستحسن اعمال کا ذکر کرتا چلوں تو آپ کا دل بھی شاد ہو جائے گا۔ مجھے ملک محمد شفیق نے بریفنگ میں بتایا کہ الخدمت والوں نے ثریا عظیم ہسپتال میں کورونا لیب کا افتتاح کر دیا ہے ۔ کمال یہ کہ جو ٹیسٹ نو یا دس ہزار میں ہوتا ہے وہ تین ہزار روپے میں کریں گے۔ مزید یہ کہ اگر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا تو یہ فری میں بھی ہو سکے گا۔ اس کا افتتاح ہیلتھ اینڈ سائنسز کے وائس چانسلر اور ہردلعزیز ڈاکٹر جاوید اکرام نے کیا ہے۔ ان کے ساتھ الخدمت کے صدر عبدالشکور اور لاہور جماعت اسلامی کے صدر ذکر اللہ مجاہد بھی موجود تھے۔ صرف لیب ہی نہیں آئسولیشن وارڈ اور ٹریٹ منٹ بھی موجود ہے۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ سرکاری سطح پر بہت غفلت بھی برتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر فرقان کی موت کوئی معمولی واقعہ نہیں کہ کسی ہسپتال نے انہیں داخل نہ کیا اور غفلت برتنے والے ڈاکٹر جگدیش کے خلاف کارروائی ہو گی۔ اس کے علاوہ اوپر سے آرڈر کے بہانے کورونا کے مریضوں کو ہی ہراساں نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے گھروں کو سیل کر دیا جاتا ہے۔ مگر حوصلہ افزا صورت حال بھی پیدا ہوتی جا رہی ہے اچھے لوگ ہمیشہ ہوتے ہیں۔ مثلاً ایپٹما کے مالک گوہر اعجاز نے جناح ہسپتال میں کورونا لیب ڈونیٹ کی ہے۔ انہوں نے پنجاب گورنمنٹ کو دو کروڑ روپے بھی دیے ہیں۔ اس کے باوجود کہ ان کا پہلا تجربہ اچھا نہیں تھا کہ انہوں نے سرکاری جگہ پر 5000پانچ ہزار لوگوں کا راشن دیا مگر کچھ نہ پوچھیے چند سو تک بھی نہ پہنچا اوپر شکایت کی گئی تو پھر ان کا رابطہ 1122کے ساتھ کروا دیا گیا جو واقعتاً نیک نامی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اتفاق سے کچھ دوستوں مولانا حمید حسین ‘ ڈاکٹر ناصر قریشی‘ غلام عباس جلوی‘ عبدالغفور ایڈووکیٹ اور ملک محمد شفیق نے میرے گھر پر افطاری کی کہ وہ میرے والد محترم نصراللہ شاہ کے کہنے پر آئے تھے تو مجھے کافی معلومات مل گئیں۔ ڈاکٹر ناصر قریشی جو کہ سوشل سکیورٹی ہسپتال میں ہیں اور وہاں کورونا وارڈ بھی بنایا گیا ہے نے بتایا کہ ایس او پیز پراب بہتر انداز میں عمل ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اصل بات ہی یہ ہے کہ ایس او پیز کا اطلاق درست ہو۔ ناصر قریشی صاحب نے بتایا کہ نئے ایس او پیز کے تحت اصولی طور پر اس بات کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ مریض گھر پر بھی قرنطینہ ہو سکتا ہے دوسرا یہ کہ اب مریضوں کا ٹیسٹ دو ہفتے کی بجائے ایک ہفتے کے بعد کیا جائے گا۔ نیگٹیو ہونے کی صورت میں انہیں گھر جانے کی اجازت مل جائے گی اور اگر مثبت آئے تو پھر ایک ہفتہ اور وہاں رکھا جائے گا۔ اب آتے ہیں وفاقی کابینہ کے اعلان کی طرف کے 9 مئی کو لاک ڈائون مرحلہ وار ختم کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ حکومت کی مجبوری ہے تو پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ لوگ فاقوں مر رہے ہیں،وہ احتجاج تو کیا بغاوت پر اتر آئیں گے کہ زندگی سب کو پیاری ہے۔ اس حوالے سے یہ دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ مگر کچھ اقدام انہیں پھر بھی کرنا ہوں گے کہ کورونا کیسز بڑھ رہے ہیں۔ اس کا تذکرہ عارف نظامی صاحب نے بھی اپنے کالم میں کیا ہے۔ لیکن حکومت سے زیادہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم اس چھوٹ یا سہولت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں کہ یہ ہمارے لئے ہی خطرناک ہو سکتا ہے ہم احتیاط کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ دل لگی ذرا سی دیر کو موخر کی جا سکتی ہے وگرنہ لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔کہیں یہ نہ کہنا پڑے کہ: اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ ایک دلچسپ پوسٹ شاہین مفتی نے لگائی ہے کہ شیخ رشید عنقریب کورونا کو ریل کی سہولت فراہم کریں گے۔ میرا خیال ہے یہ پیغام سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ بہتر ہو گا کہ شیخ صاحب ہوش کے ناخن لیں اور ایسے ہی نمبر ٹانگنے کی کوشش نہ کریں۔ اس سے پہلے انہوں نے گاڑیوں کو قرنطینہ کے لئے استعمال کرنے کا کہا تھا۔ پتہ نہیں اس کیا کیا بنا۔ بہرحال حکومت کو چاہیے کہ وہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے کہ کاروبار زندگی بھی چلتا رہے مگر کورونا کے پھیلائو کے اسباب پیدا نہ ہونے پائیں۔، اچھا لگا کہ کابینہ ارکان نے ایک تنخواہ کورونا فنڈ میں دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت کاروباری لوگوں کو اس معاملے میں اپنے تئیں احساس کرتے ہوئے دل کھول کا کوئی بندوبست کرنا چاہیے کہ یہ بھی معیشت کو آئندہ نقصانات سے بچانے کے لئے۔ بہت بڑے بڑے تاجر ہیں تو وہ بڑے آدمی بن کر دکھائیں۔ ملک و قوم نے انہیں بہت کچھ دیا اب ملک ان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جو تجوریاں اللہ کی مخلوق کے لئے کھلیں گی وہ ہمیشہ بھری رہیں گی۔