پیپلز پارٹی کی سینیٹر کرشنا کماری نے بھارتی پردھان منتری نریندر مودی کو نئے دور کا راون قرار دیا ہے۔ نادر مگر بامعنی خطاب ہے کیونکہ انجام کار مودی اور ان کے سنگ پریوار کی سیاست کاری ہندو دھرم کو نقصان دے گی اور ہندو سماج کو تو اس نے ابھی سے بکھیرنا شروع کر دیا ہے۔ مودی جی راون تو ہیں پر اس طرح کے کہ اپنی لنکا گجرات سے اٹھا کر دہلی لے آئے ہیں۔ حیرت تو ان پر ہے جو اس راون کی زنار کے دانے بن گئے ہیں، اگلے ماہ الیکشن ہے اور یہ چند ہفتے بھارتی سیاست میں خوب گرما گرمی کے ہوں گے۔ ابھی سے ایسی دھما چوکڑی مچی ہے کہ کچھ نہ پوچھیے۔ انتخابی مہم میں قوم تقسیم تو ہو ہی جایا کرتی ہے لیکن اس بار یہ تقسیم پچھلے الیکشن سے زیادہ نظر آتی ہے۔ پچھلے الیکشن میں کانگرس کی مہم دبی دبی سی تھی جیسے اسے پہلے ہی پتہ ہو کہ کیا نتیجہ آنے والا ہے لیکن اس بار وہ بڑھ بڑھ کر حملے کر رہی ہے۔ ہمارے ہاں بعض اخبار نویس اس گہری تقسیم کو پاک بھارت کشیدگی سے جوڑ رہے ہیں جو صحیح نہیں۔ یہ وہ تقسیم ہے جو الیکشن کے موقع پر دونوں ملکوں میں نظر آتی ہے۔1976ء میں الیکشن ہوئے تو پاکستانی قوم کیسے تقسیم ہو گئی تھی۔ ویسی ہی تقسیم 1988ء کے الیکشن میں نظر آئی۔ آج ہمارے ہاں مڈٹرم الیکشن کا اعلان ہو جائے تو پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ بھارت میں بھی یہی صورت ہے۔ ہاں دو درجے فرق پڑا ہے۔ ایک درجے کا اس لئے کہ کانگرس کو نئی توانائی ملی ہے۔ راہول ہمارے بلاول کی طرح چمک رہے ہیں اور چند ماہ پہلے پانچ ریاستوں کے الیکشن میں کانگرس کی فتح نے اس کے حوصلے دوچند کر دیے ہیں۔ دوسرے درجے کا فرق اس لئے کہ پاکستان نے بھارت کے دو طیارے تباہ کر دیے اور اس سے بھی زیادہ اس لئے کہ بمباری میں تین سو دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ غلط نکلا۔ لگتا ہے جس افسر نے تین سو کی ہلاکت کی خبر جاری کی‘ وہ کانگرس کا آدمی تھا۔ ایسا تھا کہ اس نے مودی کو تیز چوٹ لگائی۔ مودی کی مسلم دشمنی کے خلاف آوازیں پہلے سے موجود ہیں اور اونچی ہوتی جا رہی ہیں۔ ابھی تک ویسی لہر مودی کے حق میں نظر نہیں آ رہی جیسی پچھلے انتخابات میں تھی۔ اس لئے ہو سکتا ہے‘ مودی جی الیکشن ہار جائیں۔ یا سب سے بڑی پارٹی تو بن جائیں لیکن اکثریتی کی سیڑھی نہ چڑھ سکیں۔ اسی لئے کچھ لوگ اس اندیشے میں ہیں کہ وہ کوئی نیا ایڈوانچر کر کے اپنی انتخابی مہم میں جان ڈالنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ادھر بھارت کے نجومی الگ الگ قسم کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں‘ بالکل ہمارے ہاں کی طرح۔ ایک کا کہنا ہے کہ مودی کے ستارے گردش میں ہیں‘ دوسرا دعویٰ کرتا ہے کہ ستارے ان کے ساتھ ہیں۔ ستارے زمین کے ماحول‘ کیا نباتات اور کیا جمادات اور کیا حیوانات (بشمول انسان) پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن ستاروں کا کوئی علم ایسا نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ کون الیکشن ہارے گا۔ ستاروں کا اثر کوئی ’’پیرانارمل‘‘ بات نہیں ہے۔ سراسر عالم اسباب کا حصہ ہے۔ سورج چاند کی کرنیں زندگی پر اثر ڈالتی ہیں۔ نباتات کی شکل بدلتی ہے انسان کے جذبات متاثر ہوتے ہیں اور جمادات میں بھی تغیر آتا ہے۔ جیسے کہ ہمارا الیکٹرو میگنیک فیلڈ شمسی طوفان سے درہم برہم ہو جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہؒ کیا فرماتے ہیں؟ یہ کہ آسمان اور ستارے زمینی حالات اور واقعات پر اچھا برا اثر ڈالتے ہیں۔ جو کچھ ہوتا ہے اس میں اور اسباب کے سوا افلاک اور سیاروں ستاروں کا بھی حصہ ہے۔ یہ بات آپ نے قصص الانبیا کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھی ہے(تاویل الاحادیث فی رموز قصص) انہوں نے مزید فرمایا کہ یہ سب امر طبعی ہے۔ یعنی یہ کہ کوئی پیرا نارمل نہیں‘ نہ ہی سیاروں ستاروں میں کوئی دیوی دیوتائوں کے اثرات ہیں۔ حدیث نبویؐ ہے انسان کی تقدیر ماں کے پیٹ میں لکھ دی جاتی ہے۔ ڈی این اے میں انسانی جسم کی شکل و صورت ہی نہیں‘ جسمانی قوتوں‘ صلاحیتوں اور نفسیاتی و اخلاقی خوبیوں اور خامیوں کی لکھت بھی کر دی جاتی ہے اور یہ سب اسباب کا حساب ہے تقدیر العزیز العلیم۔ علم غیب کا دعویٰ کرنے والے پاکھنڈی ہیں اور مودی جیتے گا، ہارے گا، کے دعوے کرنے والے بھی۔ ٭٭٭٭٭ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے علاج کے بارے میں حکومت جو ’’لانگ پلے‘‘چلا رہی ہے‘ وہ ’’تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو‘‘ کے زیر عنوان ہی آتی ہے۔ انہیں دل کا شدید مرض ہے‘ ہر روز انجائنا کے تین تین حملے ہو رہے ہیں۔ سخت نوعیت کے ہارٹ اٹیک کے علاوہ گردے فیل یا خراب ہونے کا شدید خطرہ ہے اور حکومت انہیں ہسپتالوں کی سیر تو کرا رہی ہے لیکن علاج کو پاس پھٹکنے نہیں دے رہی۔ ہسپتال بھی جنرل قسم کے جہاں دل کا علاج ہی نہیں ہے۔ ساتھ ہی کہہ رہے ہیں کہ ہم تو ہر ہسپتال لے کر گئے۔ انہوں نے بائیکاٹ کر کے خود اپنی موت کو دعوت دی۔ ذہن خاصے کی چیز سہی لیکن اب یہ حکایت عام ہوئی،نواز شریف آج سول بالادستی اور آئین کی حکمرانی کی جنگ میں اکیلے کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ بھائی ساتھ نظر آتا ہے نہ بھتیجا۔ پارٹی بھی غائب ہے محض بیٹی ساتھ کھڑی ہے۔ سیرِ صحرائے جنوں حیف کہ تنہا کردم ٭٭٭٭٭ وزیر خزانہ اسد عمر نے اپوزیشن کو میثاق معیشت کرنے کی پیشکش کر دی ہے۔ شاید حسِ مزاح کا مظاہرہ کیا ہے ورنہ آپ نے حسب ایجنڈا معیشت کو پیوند زمین تو کر ہی دیا۔ جو شے زمین کا رزق بن چکی اس پر کہاں کا میثاق۔ غریب اور مڈل کلاس کو آپ نے شانوں تک درگور تو کر دیا۔ رہا سہا کام ایک دو منی بجٹ اور کی مار ہے۔ لگے رہیے اسد عمر میاں۔ تو مشق ناز کر خون دو عالم۔’’ان‘‘ کی گردن پر لیکن آخر کو یہ خون دو عالم آپ ہی کی گردن پر آنا ہے۔ جسے آپ پھول متی سمجھے ہیں‘ وہ پھول جڑی بن کر آپ ہی پر پھوٹ پڑے گی خیال فرمائیے گا۔