خارجی سطح پر کچھ ایسی کامرانیاں واقع ہوئیں کہ محب وطن تجزیہ نگاروں کا پیمانہ حب الوطنی لبریز ہو گیا اور انہوں نے درجن بھر سے زیادہ ایسے تجزیے نشر اور شائع فرما دیئے جن میں پاکستان کو کسی نئے اسلامی بلاک میں شامل ہونے کی پرزور تجویز دی گئی تھی۔ بعض نے تو یہ اطلاع بھی دی کہ نئے اسلامی بلاک میں شامل ہونے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ عالمی سطح پر بھی پاکستان کو اس اتحاد میں شامل ہونے کی تجویز دی گئی جو چین کی قیادت میں بن رہا ہے۔ اسلامی بلاک بقول ان محب الوطن باخبر افرادکے ایران‘ ترکی اور ملائشیا کی قیادت میں تشکیل پایا ہے یا پانے والا ہے۔ برسبیل تذکرہ ان تجزیہ نگاروں میں وہ ٹی وی میزبان بھی شامل ہے جس نے قصور کی زینب بی بی کے قتل کی کوریج سے شہرت پائی تھی اور یہ شہرت عدالت تک جا پہنچی تھی۔ اس فاضل تجزیہ نگار نے ملائیشیا کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے انکشاف فرمایا کہ ملائیشیا کا نام پہلے ملایا ہوا کرتا تھا‘ پھر بدل کر ملائیشیا کردیا گیا۔ ہوسکتا ہے کل کلاں کو یہ عالم فاضل تجزیہ کو کچھ اس قسم کے انکشافات بھی فرما دیں کہ پاکستان کا پرانا نام پنجاب ہوا کرتا تھا اور بھارت کو پہلے اترپردیش کہا جا تا تھا۔ چنانچہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ ملایا کا نام کبھی نہیں بدلا گیا‘ وہ کل بھی ملایا تھا اور آج بھی ملایا ہے۔ دراصل ملایا نے دو دوسری آزاد ریاستوں صباح اور سراداک سے مل کر ایک فیڈریشن بنائی جس کا نام ملائیشیا رکھا گیا۔ ٭٭٭٭ ضروری ہے کہ ان دونوں اسلامی اور عالمی کے بلاکوں پر نظر ڈالی جائے۔ ملائیشیا کے سابق وزیراعظم اس قسم کے اسلامی اتحاد کے لیے متحرک رہے ہیں، جس کا ذکر ہمارے محبان وطن زوروشور سے کر رہے ہیں لیکن اب ملائیشیا میں نئی حکومت آ چکی جو اس قسم کی تجویز یا سوچ سے لاتعلق ہے۔ چنانچہ دو ہی ملک باقی رہ گئے‘ ایران اور ترکی۔ ان کا اتحاد ہو سکتا ہے بشرطیکہ دریا کے دو کنارے باہم متحد ہو جائیں۔ دراصل ان دونوں ملکوں میں کئی ہزار سالہ دوریاں ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے نئے حالات میں ان کے لیے باہم اتحاد ممکن نہیں چنانچہ ایک قسم کے ’’ورکنگ‘‘ تعلقات کی فضا ہے۔ اگرچہ کم از کم پانچ میدان ایسے ہیں جن میں دونوں کے مفادات بری طرح متصادم ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے‘ سرفہرست شام ہے جس کی بشارالاسد انتظامیہ ہے۔ آزادی کے لیے برما جنگ دھڑوں کی مدد ترکی کر رہا ہے اور اس نے شمالی شام کی پچاس میل چوڑی اور سینکڑوں میل لمبی پٹی پر قبضہ کر کے ایک بفر زون بنا لیا ہے جو دراصل ترکی عملداری میں ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے ایک پورے صوبے ادلیب کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اٹھا لی ہے جس پر آزادی پسند دھڑوں کا قبضہ ہے۔ دوسرا میدان عراق ہے۔ شمال مغربی عراق کی ایک چند کلومیٹر لمبی پٹی ترکی کے پاس ہے اور عراق کے ترکمان ترکی کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایران ان دونوں ملکوں میں ترکی کی مداخلت پر بار بار احتجاج کر چکا ہے۔ تیسرا میدان لبنان ہے جو حزب اللہ کی گرفت سے پھیل رہا ہے اور ترکی اپنے قدم جما رہا ہے۔ چوتھا میدان شام ہے جہاں دارالحکومت طرابلس میں قائم قومی حکومت ترکی کے زیر اثر ہے جبکہ ایران‘ سعودی عرب‘ امارات‘ اسرائیل‘ مصر‘ روس اور فرانس باغی حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ پانچواں میدان آذر بائیجان ہے جو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد آزاد ہوا۔ اس کی آرمینیا سے جنگ چل رہی ہے اور ترکی اس کا مددگار ہے جبکہ ایران آرمینیا کے ساتھ ہے۔ لیکن نسلی بنیادوں پر (آذری دراصل ایک ترک قوم ہے) وہ ترکی کا اتحادی ہے۔ ایران کو شبہ ہے کہ اس کے شمالی صوبے آذربائیجان میں جو اینٹی فارسی مہم چل رہی ہے‘ اس کے پیچھے ترکی اور آذربائیجان کا ہاتھ ہے۔ (ایرانی صوبے آذربائیجان کی سرحد جمہوریہ آزربائیجان اور ترکی والوں سے ملتی ہے)۔ دونوں ملکوں میں واحد قدر مشترک قطر ہے۔ یہ دونوں کا دوست ہے لیکن ترکی کا زیادہ اس لیے کہ جب اسے سعودی عرب سے خطرہ ہوا تو ترکی نے فوج بھیجی جو ابھی تک قطر میں موجود ہے۔ ترکی کشمیریوں کے حق میں زور دار آواز بلند کرتا ہے ۔ہمارے ہاں بعض کا خیال ہے کہ ایران بھی چین کا اتحادی ہے حالانکہ وہ روس کا اتحادی ہے۔ ایران میں چین نے بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا ۔ ترکی کا کوئی اتحاد نہیں لیکن اڑھائی ملکوں کو اس کا اتحادی کہا جاسکتا ہے۔ آذربائیجان اور قطر دو اور آدھا لیبیا۔ چین کے بلاک میں فی الوقت ایک ہی ملک ہے اور وہ ہے برما (میانمار)۔ جن ملکوں میں چین کی سرمایہ کاری ہے یا جہاں سے ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے گزر رہے ہیں وہ چین کے پارٹنر ہیں لیکن ساتھ ہی امریکہ کے بھی بلکہ امریکہ کے زیادہ۔ پھر چاہے وہ یورپی ملک ہوں‘ پاکستان ہو یا وسط ایشیا کے ملک سری لنکا ہو یا بنگلہ دیش یا مشرقی افریقہ والے۔ وسط ایشیا سے اس کے پانچوں ملک چین کے پڑوسی ہیں لیکن و ہ امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ پانچوں ملک ترکی سے رابطے میں ہیں کیونکہ قومیت‘ زبان اور ثقافت مشترکہ ہے۔ دنیا کے کسی ایک ملک کا نام بتا دیں جو امریکہ سے پارٹنر شپ چھوڑ کر محض چین کا ہو جانا چاہتا ہو۔ در حقیقت امریکہ کا دائرہ اثراب پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ یورپ کے ملک پولینڈ‘ چیک‘ سلواکیہ‘ رومانیہ‘ بلغاریہ‘ بیلاروس‘ یوکرائن‘ لتھوانیا‘ اسٹونیا‘ لٹویہ‘ مالاودا سب کے سب روس کے دائرے سے نکل کر امریکہ کے قریب ہو گئے۔ بلقان کی تمام ریاستیں بھی ماسوائے سربیا کے امریکہ کی طرف دیکھتی ہیں۔ محبان وطن کو اپنے عظیم دماغ ایسی چھوٹی چھوٹی ہوائی اور خیالی باتوں پر ضائع نہیں کرنے چاہئیں۔ انھیں اپنی صلاحیتیں اندرون ملک قومی اتحاد کے ناطوں کو مضبوط کرنے پر صرف کرنی چاہئیں اور ایسی خبروں پر خوش کن تبصرے لکھنے چاہئیں کہ ع تازہ خبر آئی ہے، حکومت نواز شریف کو واپس لائی ہے ۔