گئے روز جماعت اسلامی اور اے این پی نے مہنگائی کے خلاف مظاہرے کئے۔ ایک دن پہلے کچھ شہروں میں شہریوں نے ازخود جلوس نکالے۔ شاید آنے والے دنوں میں اور مظاہرے بھی ہوں لیکن بے اثر رہیں گے۔ حکومت کا ’’عزم‘‘ ان سے متاثر ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ تو چھوٹے چھوٹے مظاہرے تھے‘ بہت بڑے بڑے ہوںتو بھی کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔ اپنے عزم کی طرح حکومت بھی مضبوط ہے اس لئے کہ ’’پیج‘‘ والے اس کے ساتھ ہیں۔ سیاں بھئے کوتوال‘ ڈر کاہے کا۔ چنانچہ مہنگائی بڑھتی رہے گی اور بڑھتی ہی رہے گی۔ پیپلز پارٹی قدرے سمجھدار ہے‘ مہنگائی پر اس کی نظر ہی نہیں ہے چنانچہ اس کی طرف سے علامتی احتجاج کا بھی کوئی اندیشہ نہیں‘ اس کی نظر پیج پرہے۔ پیج طاقتور ہے‘ عوام سدا کے کمزور اور اب تو کمزور ترین۔ ٭٭٭٭٭ مہنگائی کی بدلی چودہ پندرہ ماہ پہلے نمودار ہوئی تھی‘ آن کی آن میں گھٹا بن کر افق تا افق چھا گئی اور گھنگھور سے گھنگھور ہوتی گئی۔ پہلے پریشانی برسی‘ پھر تکلیف‘ اس کے بعد عذاب برسا اور اب معاملہ جان لیوا ہو گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے فرمایا ہے کہ حکومت نے ترین اور خسرو کے لئے چینی اور آٹا مہنگا کیا۔ مزید کہا کہ یہ لینڈ‘ شوگر اور آٹا مافیا کی حکومت ہے۔ بجا فرمایا لیکن سیمنٹ مافیا‘ کھاد مافیا اور ڈرگ (میڈیسن) مافیا کا ذکر بھی کر دیتے۔ ادھر شیخ رشید نے حکومت کی صفائی دیتے ہوئے ارشاد کیا ہے کہ مافیا ہر دور میں حکومت پر راج کرتے رہے ہیں۔ شاید درست ہی کرتے ہیں لیکن سارے مافیا مل کر ایک ہی پیج پر پہلے کبھی نہیں تھے‘ اب ہیں۔ ٭٭٭٭٭ کچھ دنوں سے دانشور حضرات مایوسی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ جسے دیکھو‘ کہہ رہا ہے کہ ملک نیچے ہی نیچے جا رہا ہے۔ ہر طرف تباہی ہے۔ دراصل یہ زاویہ نگاہ کے فتور کا قصور ہے۔ اسے درست فرما لیں تو ہر شے ٹھیک نظر آنے لگے گی اور زاویہ نظر کیسے ٹھیک ہو گا؟ ایسے کہ یوگا کا مشہور آسن جما لیں‘ سر نیچے‘ ٹانگیں اوپر کر لیں‘ پھر دیکھیں ملک کیسے اوپر جاتا ہوا نظر آئے گا۔ ہر الٹی چیز سیدھی دکھنے لگے گی۔ مثال کے طور پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ہی کی رپورٹ کو دیکھ لیں۔ اس نے بتایا ہے کہ تبدیلی کے جلوہ افروز ہونے سے پہلے کے پورے عشرے میں کرپشن سال بہ سال کم ہوتی رہی‘ بالخصوص نواز دور کے پانچ برسوں میں کم ہونے کی رفتار‘ چارٹ کے مطابق‘ تیز ہو گئی لیکن تبدیلی کے آتے ہی کرپشن کی پھر سے نشاۃ ثانیہ ہو گئی اور ملک انڈیکس میں 117کے بجائے 120پر آ گیا۔ اب اسے درست زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ نواز دور میں دراصل تنزل تھا اب عروج کے تین مرحلے طے ہو گئے۔ وزیر اعظم نے اسی لئے تو کہا ہے‘ اخبارات پڑھنا‘ ٹی وی دیکھا چھوڑ دیں ‘ سب ہرا ہی ہرا نظر آئے گا۔ ٭٭٭٭٭ ٹرانسپیرنسی کی یہ رپورٹ اکیلی اسی کی نہیں ہے۔ ورلڈ اکنامک فورس سمیت پانچ عالمی اداروں کی رپورٹ کا خلاصہ ہے اور فورم نے تو سال گزشتہ کے اکتوبر ہی میں رپورٹ جاری کر دی تھی کہ پاکستان میں کرپشن پھر سے بڑھ رہی ہے لیکن اس وقت میڈیا کا زاویہ نظر درست تھا‘ اس لئے رپورٹ مشتہر نہ ہو سکی۔ اس کے بعد خدا جانے کیا ہوا کہ زاویہ نظر بگڑ گیا۔ عمران خاں کے ایک عاشق شعار ٹی وی اینکر کے پروگرام میں ایک روز بتایا گیا کہ پنجاب میں کرپشن تین سو فیصد بڑھ گئی ہے۔ بظاہر اعداد و شمار میں تھوڑا سا مبالغہ ہے‘ چینی ڈھائی سو فیصد اور آٹا دو سو فیصد مہنگا ہوا ہے‘ اس لئے کرپشن بھی درست متناسب قاعدے کے تحت اتنی ہی بڑھی ہو گی‘ تین سو فیصد نہیں۔ ہاں آنے والے دنوں میں تیز رفتار ترقی یقینی ہے۔ حکمران جماعت کے ’’ہمدرد‘‘ ہی یہ خبریں دے رہے ہیں کہ چینی سو روپے کلو ہونے والی ہے اور یہ کہ آٹا بحران تو ختم ہو جائے گا‘ اس کی بڑھی ہوئی قیمت نہیں ٹلے گی۔حکومت نے جو بحران پیدا کیا‘ وہ اسی لئے ہی تو پیدا کیا۔ آٹے کی بڑھی ہوئی قیمت کے لوگ عادی ہو جائیں گے تو پھر بحران جاری رکھنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ اور لوگوں کا کیا ہے‘ وہ آٹے چینی کے بغیر زندہ رہنے کی عادت بھی ڈال لیں گے ع کم از کم حکومت یہی سمجھتی ہے تحریک انصاف کے حامی کرپشن بڑھنے کو مسترد کرتے ہیں۔ کل ہی ٹی وی پر ایک سربرآوردہ فرما رہے تھے کہ پنجاب میں ہمارے کسی میگا پراجیکٹ میں کرپشن کا کوئی سکینڈل نہیں آیا۔ پنجاب میں کوئی میگا پراجیکٹ ہے ہی نہیں۔ یہاں جو ہو رہا ہے وہ میگا پراجیکٹوں کا محتاج نہیں۔ سکینڈل ہیں‘ وہ کرپشن کی تعریف سے ویسے ہی خارج ہیں اور ہاتھ کی صفائی کے ضمن میں آتے ہیں۔ میگا پراجیکٹ پختونخواہ میں لگے‘ مبلغ دو عدد۔ ایک بی آر ٹی یعنی وہاں کی میٹرو اور دوسرا بلین ٹری سونامی۔ ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ٭٭٭٭٭ گورنری کے بعد سٹیٹ بنک آف پاکستان کی ڈپٹی گورنر بھی آئی ایم ایف سے درآمد کردہ افسر کو سونپ دی گئی۔ بہت شاندار، اب بنک کا نام بھی کیوں نہ بدل دیا جائے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے بجائے سٹیٹ بنک آف آئی ایم ایف کر دیا جائے؟