عمران خان کے لیے اسلام آباد میں وزارت ِاعظمیٰ کا منصب پھولوں کی سیج نہیں ہوگا۔ اُنہیں اب تک احساس ہوچکا ہوگا کہ آنے والے برسوں کی مسافت ہموار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی پنڈت اُن کی حکومت کے استحکام اور مقبولیت کے لیے پہلے سو دنوں کو بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔ یقینا چند ایک ماہ کے دوران عمران خان کی حکومت کوئی معجزانہ تبدیلیاں برپا نہیں کرسکتی اور نہ ہی ان کی توقع کرنا چاہیے اور پھر پاکستان میں کم پارلیمانی اکثریت کے ساتھ حکومت کرنا بذات ِخود کسی جوکھم سے کم نہیں۔ سیاسی جماعتوں میں دھڑے بندی کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ تاہم پارٹی کی صفوں میں دراڑیں واضح ہورہی ہیں اور دیکھا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے قائد کو خیبرپختونخواہ کے وزیر ِاعلیٰ کو نامزد کرنے میںکتنا وقت لگ گیا۔ ابھی تک پنجاب کے وزیر ِاعلیٰ کا نام فائنل نہیں کیا جاسکا۔ وفاقی کابینہ کا اعلان کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے ، لیکن پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے بہت سے ’’الیکٹ ایبلز ‘‘ اپنا حصہ ضرور مانگیں گے۔ چنانچہ عمران خان کو ایسے امور پر بھی سمجھوتہ کرنا پڑے گا جن سے وہ عام حالات میں اجتناب برتتے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک کولیشن کو ساتھ لے کر چلنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔ لیکن پنجاب اور مرکز میں عمران خان کو کولیشن پارٹنرز کی ضرورت ہے ۔ ان میں ایم کیو ایم جیسی مشکل جماعت سے ساجھے داری بھی شامل ہے ۔ سیاسی میدان میںپی ٹی آئی اور ایم کیو ایم ایک طویل عرصہ تک ایک دوسرے کی حریف رہی ہیں۔ ایم کیو ایم کے مضبوط علاقوں میں پیدا ہونے والے خلامیں پی ٹی آئی نے پائوں رکھنا شروع کیا ہے۔ تو کیا اب ایم کیو ایم اپنے گھر میں پی ٹی آئی کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے دے گی؟ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آنے والی حکمران جماعت کے لیے کولیشنز کے ساتھ نباہ کرنا آسان نہ ہوگا، کیونکہ اس نے اپنے حامیوں کو گزشتہ کئی عشروں سے باور کرادیا ہے کہ صرف وہی دیانت دار ہیں، جبکہ دیگر تمام جماعتیں’’ بدعنوان اور چور ‘‘ ہیں۔ تیسری یہ کہ قومی اسمبلی، سینٹ اور پنجاب اسمبلی میں طاقتور اپوزیشن کی موجودگی میں قانون سازی کرنا اور دیگر معاملات چلانا جوئے شیر لانے کے متراد ف ہوگا۔ ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کے لیے نئے قوانین کی ضرورت ہو، اور اس کے ایک ایک مرحلے پر اُسے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے گا۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں عمران خان کو ایک شعلہ بیان انقلابی رہنما کی بجائے ٹھنڈا دماغ رکھنے والے ایک قومی رہنما کا کردار ادا کرتے ہوئے مزید سمجھوتے کرنے پڑیں گے ۔ ممکن ہے کہ کچھ ایسے کرداروں کا تعاون بھی حاصل کرنا پڑے جن پر وہ ماضی میں کڑی تنقید کرتے رہے ہیں، جیسا کہ پی پی پی کے آصف علی زرداری اور پی ایم ایل (ن) کے شہباز شریف۔ چونکہ سینٹ میں اپوزیشن جماعتیںطاقتور ہیں، اس لیے امور ِ حکومت اپنی مرضی سے چلانا ممکن نہیں۔ معاشی بحران سے نمٹنا آنے والی حکومت کے سامنا چوتھا بڑا چیلنج ہے۔ اس کو درپیش محدود آپشنز پر بہت کچھ کہا جاچکا ہے اور کم وبیش اس پر سب کا اتفاق پایا جاتا ہے کہ اسے کیش کے فوری حصول کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ لیکن آئی ایم ایف سے پیکج حاصل کرنے کے لیے کچھ سخت شرائط ماننا پڑیں گی ۔ ان میں سے سب سے اہم اخراجات میں کمی ہوگی۔اس بحران میں سے گزرنے کی قیمت چکانی پڑے گی۔ اس وقت پبلک سیکٹر میں چلنے والی انٹر پرائزز کا خسارہ 1.2 ٹریلن روپے تک پہنچ چکا ہے جو جی ڈی پی کا چار فیصد ہے ۔ جون 2018 ء تک ِ گردشی قرضوں کا حجم 573 بلین روپے تھا۔ اس مالی بحران کی موجودگی میں ’مدینے جیسی فلاحی ریاست ‘‘ کیسے قائم کی جائے گی؟ امریکہ نے پہلے ہی آئی ایم ایف کو وارننگ دے دی ہے ۔ اس مرحلے پر پہنچ کر خاں صاحب کو اندازہ ہوجائے گا کہ معاشی مجبوریاں خارجہ پالیسی کے انتخاب پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ واشنگٹن آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے دیگر عالمی مالیاتی اداروں پر خاطرخواہ اثر رکھتا ہے ۔ پاکستان کو فراہم کی جانے والی سکیورٹی امداد میں کمی کی جاچکی ہے ۔ اس کے علاوہ انٹر نیشنل ملٹری ایجوکیشن اور ٹریننگ پروگرام میں پاکستان کے ملٹری افسران کی شرکت کے امکانات بھی محدود کیے جارہے ہیں۔ اس معاونت کا حجم کم ، لیکن اس کی علامتی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ اس سے دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعلقات میں آنے والے موڑ کا پتہ چلتا ہے ۔ ایک حوالے سے اس کا تعلق افغانستان کی صورت ِحال سے ہے ، لیکن یہ خطے میں آنے والی تزویراتی تبدیلیوں کی بھی علامت ہے ۔ تو کیا عمران خان کو یقین ہے کہ وہ کابل کے ساتھ مسائل حل کرنے جارہے ہیں؟ کیا کابل کے ساتھ تعلقات کار استہ واشنگٹن سے ہو کر نہیں گزرتا؟ نئی حکومت ایک پیچیدہ علاقائی مسلے میں الجھ سکتی ہے ۔ دیکھا جانا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کس طرح اس تنی ہوئی رسی پر چلتی ہے ، خاص طور پر جب قومی سلامتی کے امور فوج کی مرضی سے طے پاتے ہوں۔ لیکن یہ تمام چیلنجز اُن توقعات کے پہاڑ کے سامنے ہیچ دکھائی دیتے ہیں جن کی بنیاد پر لاکھوں لوگوں نے اس پارٹی کوووٹ دیے تھے ۔ کئی برسوں سے عمران خان اور اُن کے دست ِراست راتوں رات تبدیلی کے نعرے لگاتے رہے ہیں۔ چنانچہ عوام کی بلند وبالا توقعات پر پورا اترنااگلی انتظامیہ کا حقیقی امتحان ہوگا۔ پی ٹی آئی کے حامی الیکٹرانک میڈیا نے ان توقعات کی خوب آبیاری کی ہے۔ عوام کی توقعات کو التباس اور زمینی حقائق کے درمیان کسی مناسب توازن پر ایستادہ کرنے کے لیے انتہائی سیاسی اور انتظامی بصیرت درکار ہوگی۔ آخر میں، حکومت کی ساکھ پر لگنے والا دھبہ بھی معمولی ایشو نہیں ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں مبینہ دھاندلی کا رونا رو رہی ہیں۔ یہ سلسلہ پچیس جولائی کی شب سے جاری ہے ۔ وہ اس احتجاج کوپارلیمنٹ کے اندر بھی لائیں گی۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کے باہر بھی کچھ کھلاڑی ہیں۔ مثال کے طور پر جمعیت علمائے اسلام (فضل) کے رہنما مولانا فضل الرحمان شدید غصے میں ہیں۔ وہ عمران خان اور ان کی مبینہ سرپرست، ’’اسٹبلشمنٹ ‘‘ پر حملے کررہے ہیں۔ دوسری طرف مولانا خادم رضوی نے بھی دھاندلی کے خلاف مہم شروع کررکھی ہے ۔ یہ مانا کہ ہمارے ہاں ایسا احتجاج کوئی نئی بات نہیں، لیکن اس کا ایک منفی پہلو ضرور ہے ۔ پی ٹی آئی کی کامیابی نے احتجاج کی طاقت رکھنے والی جماعتوں کو تاثر دیا ہے کہ اگروہ اس مسلے کو زندہ رکھیں تو اگلے انتخابات تک وہ بھی وٹامن اے اور ڈی سے بھرپور ہوجائیں گی۔ اس وقت مرکزی دھارے کا میڈیا اسٹبلشمنٹ پر تنقید سنسر کردیتا ہے لیکن گلیوں میں ہونے والی تنقید کی سمت اسی طرف جارہی ہے ۔ ابھی عمران خان نے حلف بھی نہیں اٹھایا لیکن احتجاجی مظاہروں میں سنائی دینے والی شعلہ بیانی کی حدت بڑھ چکی ہے ۔ چنانچہ انتقال ِ اقتدار کا مرحلہ کانٹوں کا تاج پہننے کے مترادف ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں ہے ۔ لوگ اُن پر اعتماد کرتے ہیں اور وہ تبدیلی کا مژدہ سناتے بہت اچھے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ پر ، لیکن وہ ایک دیمک زدہ نظام کی قیادت سنبھالنے جارہے ہیں۔ اس نظام کو اشرافیہ اور طاقت ور طبقات کے مفاد نے کھوکھلا کردیا ہے ۔ اور اس ’’پرانے پاکستان ‘‘ کے بہت سے دھڑوں کی مدد سے ہی وہ اپنے حریفوں پر سبقت لے پائے ہیں۔ تو کیا وہ جس سیڑھی پر چڑھ کر اس بلندی پر پہنچے ہیں، اُسے کاٹ کر گراسکتے ہیں؟ان حالات میں توقعات کا بوجھ اٹھائے اقتدار سنبھالنے والے عمران خان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔ یقینا اُنہیں کامیابی کے لیے بہت سی دعائوں کی ضرورت ہے ۔