پاکستان اس لحاظ سے ایک دل چسپ ملک ہے کہ جہاں راتوں رات مقدر بدل جاتا ہے اور بڑے بڑے برج الٹ جاتے ہیں۔ کل کے حکمران آج کے قیدی اور کل کے قیدی آج کے حکمران بن جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ یہ ہیں وہ ایام جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ کل تک جناب عمران خان جن روشوں اور رویوں کو نشانہ تنقید بناتے رہے آج وہ انہی رویوں کے علم بردار بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ وہ انسانوں کی ہارس ٹریڈنگ کو شرفِ آدمیت کی تذلیل قرار دیتے تھے ،آج خریدو فروخت کے لئے ’’گھوڑے‘‘فخریہ طور پر ان کے حضور پیش کئے جاتے ہیں جنہیں وہ خوش آمدید کہتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کے لئے ان پر غیر سیاسی الزامات لگانے کی روایت بھی بہت پرانی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے زمانے میں چودھری ظہور الٰہی کو بھینس چوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں آج کے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے بیڈ کے نیچے سے غیر قانونی کلاشنکوف برآمد ہو گئی اور اب پنجاب کے سابق وزیر قانون رکن قومی اسمبلی کے بریف کیس سے 15کلو ہیروئن پکڑی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اے این ایف عمومی طور پر ایک نیک نام ادارہ ہے مگر جن حالات میں اور جس انداز سے رانا صاحب پر ہیروئن فروشی کا الزام لگا اس نے بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ رانا صاحب نے میڈیا پر بتایا تھا کہ جناب وزیر اعظم کسی نہ کسی الزام میں ان کی گرفتاری چاہتے ہیں۔ ان حالات میں یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ رانا صاحب جیسا سیاست دان کروڑوں کی ہیروئن اپنے بیگ میں ڈال کر سڑکوں پر پھر رہا ہو۔ جناب عمران خان نے 22برس عدل و انصاف اور قانون کی بالادستی کے لئے جدوجہد کی، اس کے علاوہ عدل اجتماعی یعنی سوشل جسٹس ان کی طویل جدوجہد کا سب سے امتیازی نشان ہے۔ وہ غریبوں کی تاریک دنیا میں امیدوں کے چراغ جلانے کا پروگرام رکھتے تھے۔ وہ غریبوںکو معاشی و معاشرتی پستی سے نکال کر ترقی کی شاہراہ عام پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر ہو کیا رہا ہے کہ جن غریبوں کے پاس دو وقت کی روکھی سوکھی تھی اب ان کے پاس ایک وقت کی باقی نہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق بجٹ کے نافذ ہوتے ہی مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے۔ دالوں‘ چاول اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں چالیس سے ساٹھ روپے کلو اضافہ ہو چکا ہے اور چینی کی قیمت ستر روپے فی کلو ہو گئی ہے اس پر عوام سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ حکومت نے گیس کی قیمتیں بھی 198فیصد تک بڑھا دی ہیں۔ جب خریدو فروخت نہ ہو گی تو لوگ ٹیکس کہاں سے دیں گے۔ گویا مہنگائی کا سونامی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ گیس مہنگی‘ سی این جی مہنگی‘ بجلی مہنگی اور ادویات مہنگی۔ ریلوے اور ٹرانسپورٹ کے کرائے غریب کی پہنچ سے باہر ہیں ۔دوسری طرف بے روزگاری اپنے عروج پر ہے چھوٹے تاجر یا بڑے تاجر سے پوچھیں‘ صنعت کار سے پوچھیں یا دستکار سے پوچھیں‘ پرچون فروش سے پوچھیں یا تھوک کے بیوپاری سے پوچھیں آپ کو آنسوئوں اور آہوں کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ یہ وقت چھوٹے بڑے تاجروں ریڑھی بانوں اور صنعت کاروں کو ڈرانے دھمکانے یا انہیں لرزہ خیز انجام سے دوچارکر دینے کی دھمکیاں دینے کا نہیں۔ انہیں اعتماد میں لینے ان کی تجاویز سننے اور ان کے ساتھ مل کر زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری میدان میں لانے کا ہے۔ جناب وزیر اعظم وہ کارروائیاں نہ کریں جو ان کے پیش رو یہ سوچ کر کرتے رہے کہ یہ اقتدار ابدی اور دائمی ہیں اور کبھی ان کے اقتدار کا سورج غروب نہ ہو گا اور کبھی انہیں اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے قانون کے کٹہرے میں کھڑا نہ ہونا پڑے گا۔ جناب عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے مزید قانون سازی کرتے مگر اس کے برعکس وہ ماضی کے فوجی و جمہوری آمروں کے ہتھکنڈوں اور حربوں میں مزید شدت لانے کے لئے ایک جمہوری ملک میں مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں اور آمریتوں کا کلچر یہاں رائج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ خان صاحب نے کہا ہے کہ منتخب سیاست دانوں کے ایوانوں کے اجلاس میں شرکت کے لئے پروڈکشن آرڈر نہیں جاری ہونے چاہئیں۔ بیرون ملک سفر پر جانے والوں کو سفر پر جاتے ہوئے سفر کی غرض و غایت اور سفری اخراجات برداشت کرنے والے سپانسر کے بارے میں بتانا ہو گا۔ اسی طرح سیاست دانوں کو ان کے مقام و مرتبے کے مطابق جیل میں ملنے والی سہولتوں کو بھی وہ ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ مہذب جمہوری ملکوں میں یہ سب بلکہ ان سے کہیں زیادہ سہوتیں سیاست دانوں اور عام شہریوں کو ملتی ہیں بلکہ وہاں تو جب تک کوئی مقدمہ ٹرائل کے مراحل میں ہوتا ہے اس وقت تک کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ موجودہ حکومت کے سامنے اس وقت دو بہت بڑے چیلنج ہیں ایک معیشت اور دوسرے خارجہ تعلقات ۔ جناب عمران خان کے سامنے امریکہ کا پانچ روزہ دورہ ہے۔ اس دورے میں وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ملاقات کریں گے۔ عمران خان کو اس اہم غیر ملکی دورے پر جانے سے پہلے سیاست اور سیاست دانوں کو یوں بدنام نہیں کرنا چاہیے۔ تمام تر اختلافات کے باوجود سابقہ حکمرانوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ ایسے کسی دورے پر جانے سے پہلے بھر پور ہوم ورک کرتے تھے۔ اپوزیشن کو اعتماد میں لیتے تھے۔ سفر امریکہ پر روانہ ہونے سے پہلے جناب عمران خان اپوزیشن کے ہر قابل ذکر سیاست دان کو جیل پہنچا دینا چاہتے ہیں۔ خان صاحب احتسابی اداروں کو اپنا کام کرنے دیں اور وہ خود اور ان کے فواد چودھری جیسے ’’عقاب‘‘ اپوزیشن کے قائدین کو جیلوں میں پہنچانے اور ان کی صوبائی حکومتیں ختم کرنے کی دھمکیوں سے اجتناب برتیں۔ جناب عمران خان امریکہ کے دورے کے حوالے سے ساری پارلیمنٹ یا کم از کم خارجہ امور کی کمیٹیوں کا ان کیمرہ اجلاس بلائیں اور اپوزیشن کے تجربات و تجاویز کی روشنی میں امریکہ سے بات چیت کے لئے اپنی پالیسی اور ترجیحات طے کریں تاکہ یہ تاثر ملے کہ ساری قوم یک زبان ہے۔ جہاں تک مہنگائی اور ٹیکسوں کا معاملہ ہے اس کے بارے میں وہ اپنے وزیروں مشیروں اور ممبران اسمبلی کو پابند کریں کہ ایک طرف وہ عوام کے زخموں پر مہم رکھیں۔ دوسری طرف تاجروں اور صنعت کاروں کی تجاویز پر ہمدردانہ غور کریں۔ جناب خان صاحب کو باور کرنا چاہیے کہ اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستانیوں نے ان سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اس لئے خان صاحب نئے پاکستان میں پرانے ہتھکنڈوں سے پرہیز کریں۔