سویرے سویرے طبیعت مکدّر ہوگئی تھی اور بوجھل بھی‘ پچھتاوے اور موقع گنوا دینے کے احساس سے بوجھل۔ سچ ہے کہ کوئی بھی سعادت زورِ بازو کے بل پر نہیں پائی جاسکتی۔ سعد گھڑی تو مقدر کے ذیل میں آتی ہے۔ کوشش اور تردّد کے باوجود بھی بسا اوقات نہیں ملتی اور نصیب ہو تو جھولی میں آن پڑتی ہے۔ پسِ منظر اس تمہید کا یوں ہے کہ ہفتے‘ دو ہفتے بعد کبھی کبھی بازار کا ناشتہ کرنے کو دل چاہتا ہے۔ مسلم سکول والا جیرا تو اب نہیں رہا اور نہ ہی میرا ساتھی ندیم کہ جو ہر دوسرے تیسرے دن ناشتے کو بلوالیا کرتا تھا۔ چناں چہ اب بھی میں کبھی کبھار اکیلا ہی یہ علت پوری کرنے کو چلاجایا کرتا ہوں۔ بچوں کو سکول چھوڑا اور خود دہلی گیٹ‘ ریواڑی محلہ یا گل گشت کسی ناشتہ پوائنٹ پر جابیٹھا۔ یہ بھی رواں ہفتہ کی ایک ایسی ہی سویر کا وقوعہ ہے۔ گل گشت کالونی کے جلال مسجد چوک‘ جہاں سینکڑوں دیہاڑی دارمزدور‘ راج مستری‘ رنگ والے کھڑے ہوتے ہیں اور کسی رکتی گاڑی کو دیکھ کر جمگٹھاکر دیتے ہیں، ان سے ذرا پرے کئی ناشتے والے ہیں۔ ان میں ایک کے پاس سڑک کنارے دھری کرسیوں پر جاکر میں بیٹھ گیا۔ اس کے چنے میرے پسندیدہ ہیں۔ کٹوری میں چنوں پر نہاری کا شوربہ اور قورمے کی تری ڈال کر دیتا ہے اور ساتھ میں توے کی پتلی پتلی روٹیاں۔کوئی اخبار گود میں رکھے ناشتہ کر رہا تھا‘ کوئی کر چکا تھا اور کوئی انتظار میں۔ میں پہلی روٹی آدھی ختم کرچکا تھا جب ایک منحنی جسم اور کوتاہ قامت والا بابا‘ کپڑے کا ایک تھیلا بائیں شانے کی ہڈی پر اْڑسے سست قدموں سے چلتا ہوا آیا اور مجھ سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔ ساٹھ یا دو چار برس اوپر کا سَن ہوگا‘ سپید داڑھی اور صفا چٹ سر۔ اپنی ہی دھن میں مگن، اس نے ناشتہ کرتے ہوئے لوگوں میں سے کسی کو در خورِ اعتنائ￿ نہ گردانا۔ کچھ دیر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہا پھر جیب میں ہاتھ ڈال کے بسکٹ کا ایک ٹکی پیک نکالا اور کھانے لگا۔ مجھے لگا کہ بابا بھوکا ہے مگر اس میں کمال بے نیازی تھی۔ اس نے کسی کی طرف دیکھا تک نہیں کہ نظروں ہی سے کسی قسم کے پیغام کی ترسیل ہوسکے۔ بھوکا بندہ کھانے کو بہرحال للچائی نگاہوں سے دیکھا کرتا ہے. میرے دل میں کْھد بْد سی لگ گئی کہ بابا بھوکا ہے اس کو ناشتہ آفر کرنا چاہئے مگر پھر اس کی بے نیازی حوصلہ توڑ دیتی کہ مبادا اس نے ٹھکرادیا تو...؟ پھر میری اس کی قمیص کے پچھلے دامن پر نظر پڑی جو کرسی سے نیچے لٹکتا تھا۔ وہاں ایک پیوند لگا تھا۔ یا خدا...! اس زمانے میں پیوند..! جب سستے سے سستا کپڑا دست یاب، حتیٰ کہ استعمال شدہ شلوار قمیص چوراہوں پر فروخت ہوا کرتے ہیں. میں تیسری روٹی پر ہاتھ صاف کر رہا تھا جب میرے سامنے بیٹھا ایک نوجوان جو وضع قطع سے طالب علم لگتا تھا‘ ناشتے سے فارغ ہو کر اٹھا۔اس کی چنگیر میں دو روٹیوں کے کنارے تھے اور کٹورے کے پیندے سے سالن کی باقیات لگی تھیں۔ نوجوان ذرا پرے ہوا تو بابا نے جلد ی سے اس کی چنگیر اور کٹورا اپنی طرف کھسکا لیا۔ ابھی وہ روٹی کا بچا ٹکڑا اٹھانے کو ہی تھا کہ نوجوان نے واپس آکر بابا کا ہاتھ پکڑ لیا ’’بابا جی!آپ یہ نہ کھائیں، میں آپ کو ناشتہ لادیتا ہوں‘‘ تب بابا نے نظر اٹھا کرنوجوان کو دیکھا جس میں تشکر کم اور بے بسی زیادہ تھی۔ نوجوان نے سالن روٹی کے ساتھ ایک پلیٹ میں میٹھے چاول بھی ڈلوا ئے اور خود بابا کے سامنے رکھ دئے پھر شکرئیے کے کسی جملے کا انتظار کئے بغیر عجلت میں بوسن روڈ کی طرف روانہ ہوگیا۔ نہ کسی نے میری طرف دیکھا، نہ جتایا مگر مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ میں سوچتا ہی رہ گیا اور نوجوان بازی لے گیا۔ ایک طالب علم جو کسی پرائیویٹ ہاسٹل میں رہتا ہوگا اور گھر سے آنے والے محدود پیسوں میں گزاراکرتا ہوگا‘ وہ کار سے اترے ایک شخص کو مات دے گیا۔ ’’ایں سعادت بزورِ بازو نیست‘‘۔پھر میں نے سوچا کہ کہنے کو یہ کرہ زمیں ابلاغ و اشاعت کے وسائل کے بَل پر ایک گائوں کی حیثیت اختیارکر گیا ہے۔ میڈیا ایک سیکنڈ میں دنیا کے ایک کونے کا وقوعہ دوسرے گوشے میں دکھا رہا ہوتا ہے‘ پھر ملک کے پانچویں اور صوبے کے تیسرے بڑے شہر کے پررونق چوک پر ایک بزرگ شہری کے بھوکے پیٹ کی خبر ذمہ داروں تک کیوں نہیں پہنچ پاتی؟ آ ج کے انٹر نیٹ، موبائل اور ٹیلی وژن کے دور سے تو وہ زمانہ اچھا تھا جب بغیر کسی لائوڈ سپیکر اور سائونڈ سسٹم کے ایک شیر خوار کے رونے کی آواز خلیفہ وقت کے کانوں تک پہنچ جاتی تھی اور وہ شیر خوار گی کے زمانے میں بچے کا وظیفہ مقرر کردیا کرتا تھا۔ پھر انہی ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ ہونے کی بنا پر مجھے خود سے اور بھی شرم آنے لگی۔ میڈیا کے مسئلے ہی اور ہیں۔ وہ ایوان ہائے سیاست کی غلام گردشوں سے باہر نہیں نکلتا. وزیر صاحب نے کیا کہا، اپوزیشن نے کس طور جوابی لتے لئے وغیرہ وغیرہ. چوک جلال مسجد والے اس بابے کی بھوک کبھی دو تین کالم سرخی نہیں بنتی‘ یہ بھوکا بابا کسی کالم نگار کو ہیلی کاپٹر کی سیرچوں کہ نہیں کرواسکتا‘ پنج ستارہ ہوٹلوں میں میٹ دی میڈیا فالوڈ بائی لنچ کا اہتمام نہیں کرسکتا‘ اس لئے یہ ہمارا بھی موضوع نہیں. چلئے ہم کسی کو الزام نہیں دیتے۔ مجھ ایسے میڈیا والوں پر چار حرف بھیجئے‘ سیاست دانوں اور حکمرانوں کو بھی لوٹ لوٹ کے غیر ملکی بنک بھرنے دیجئے۔ آج مجھے عوام سے کچھ کہنا ہے، ان سے نہیں جو مہنگے ریستورانوں کے دیو مالائی ماحول میں کھانا کھایا کرتے ہیں کیوں کہ ایسے ہوٹلوں کی تو پارکنگ تک بھی بھوکے بابوں کی رسائی نہیں۔ بلکہ میرے جیسے جو ریڑھیوں پر، ٹھیلوں پر‘ ہانڈیوں والے ہوٹلوں پر اکثر یا کبھی کبھار کھانا کھایا کرتے ہیں‘ ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑا لیا کریں۔ کوئی بھو ک کا مارا بابا یا کوئی مزدور تو مجبوری اوڑھے وہاں موجود نہیں۔ اگر ہے تو میری طرح جھجکتے نہ رہا کریں‘ آگے بڑھ کر اس کا پیٹ بھرنے کی کوشش کریں وگرنہ یہ پچھتاوا یہاں کے ساتھ ساتھ اگلی دنیا تک ہم سفرہوسکتا ہے۔ان خالی شکموں کے لئے زیادہ نہیں بس ایک چھولے کی پلیٹ اور دو روٹیاں… #