سید الانبیاء ﷺ نے جس تباہ کن جنگ کی پیشگوئی کی تھی اس کے آغاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ''عنقریب دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نمودار ہوگا۔ جب لوگ اس کے بارے میں سنیں گے تو اس کی طرف چل پڑیں گے اور جو پہاڑ کے پاس ہوں گے وہ کہیں گے کہ اگر ہم نے اسے چھوڑ دیا تو دوسرے لوگ اسے لے آئیں گے۔ آپ ؐنے فرمایا پھر اس خزانے کو حاصل کرنے کے لیے لوگ لڑیں گے اور سو (100) میں سے ننانوے (99) قتل کر دیے جائیں گے (مسلم، کتاب الفتن)۔ اس مضمون پر کتب حدیث میں لاتعداد حسن اور متفق علیہ احادیث ملتی ہیں۔ قرب قیامت کے واقعات کے بارے میں ایک اصول یہ ہے کہ ایسی تمام احادیث دراصل تمثیل اور تشبیہات کی صورت میں ہیں سوائے ان احادیث کے جس میں مخبر صادق ﷺ نے اللہ کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ ایسا ضرور ہوگا۔ لیکن باقی احادیث تمثیلی ہیں۔ اس حدیث میں فرات کے کنارے سونے کا پہاڑ جو ایک تمثیل ہے، وہ کیا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد فتح کے نشے میں بدمست عالمی طاقتوں نے 1945ء میں بریٹن ووڈکانفرنس منعقد کی اور اس میں دنیا کو ایک عالمی مالیاتی نظام دیا۔ اس کے تحت اب سونا جو کرنسی اور زر متبادل کے طور پر استعمال ہوتا تھا اسے آئندہ سے خزانے میں محفوظ رکھا جانے لگا اور اس کی قیمت کے برابر ہر ملک کاغذی نوٹ جاری کرنے لگا۔ 1973 ء میں فرانس نے امریکہ سے اپنے کرنسی نوٹوں کے عوض سونے کا مطالبہ کیا تو ایک نیا اصول طے کیا گیا کہ اب حکومتوں کو بنکوں میں سونا رکھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اسکی جگہ اب بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ کسی بھی ملک کی معدنی اور زرعی پیداوار کا جائزہ لیکر کر اس ملک کی معاشی حالت (good will of the country) کا تعین کرکے کرنسی کی قیمت لگائے گا۔ اسی سال تیل پیدا کرنے والے ممالک سے ایک معاہدہ کیا گیا، کہ وہ اب تیل صرف اور صرف ڈالروں میں فروخت کریں گے۔ یوں تیل سونے کا متبادل بن گیا جس کی بنیاد پر ڈالر کی قیمت متعین ہونے لگی، یعنی فرات کے نزدیک ''تیل ''دراصل سونے کے پہاڑ کی تمثیل ہے۔ خلافت عثمانیہ میں 1912ء میں ترکش آئل کمپنی قائم ہوئی جس نے اپنے زیر نگین علاقوں میں تیل کی تلاش کے لائسنس دینے کا آغاز کیا۔ برطانوی ماہر ولیم نوکس ڈی آر سی (William knox D-arcy) کو موصل کے علاقے میں بھیجا گیا لیکن دریافت سے پہلے ہی اس سونے کے پہاڑ پر جنگ عظیم اول چھیڑ دی گئی ،جس کا اصل نشانہ خلافت عثمانیہ کو حصے بخروں میں تقسیم کرنا تھا۔ جس کے پاس جتنا زیادہ تیل تھا، اتنا ہی چھوٹا ملک بنا دیا گیا تاکہ وہ اپنا دفاع نہ کر سکے، کویت، قطر، بحرین، ابو دبی، شارجہ، مسقط، وغیرہ وغیرہ۔ 6 نومبر 1914 ء کو فرات کے کنارے عالمی طاقتوں کی اس سونے کے پہاڑ پر جو لڑائی شروع ہوئی تھی وہ آج بھی جاری ہے۔ صرف اس پہلی جنگ میں ہی عثمانی افواج کے تین لاکھ پچیس ہزار اور برطانوی افواج کے چھیاسی ہزار فوجی ہلاک ہوئے۔ عام شہریوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اسکے بعد گذشتہ پوری صدی میں ہر کسی نے اس سونے کے پہاڑ پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن گزشتہ چالیس سالوں میں اس پہاڑ کی لڑائی کا سب سے اہم فریق ایران رہا ہے۔ 1980ء سے 1988 ء تک آٹھ سالہ جنگ ایران اور عراق کے درمیان ہوئی۔ 1991ء میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو وہاں موجود ایرانی حمایت یافتہ گروہوں نے امریکی حملے کو کامیاب ہونے میں مدد کی۔ گیارہ ستمبر کے بعد دنیا بدلی تو 2003 ء میں عراق پر امریکہ اور نیٹو افواج نے حملہ کیا اور عراق پر قبضے کے بعد سے آج تک عراق ایک جنگ وجدل کا آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ امریکی حملے نے عراق کی تمام عسکری قوت کو تباہ کر کے اس پورے خطے میں ایران کی قوت اور طاقت کو بالادست بنادیا۔ امریکہ کے جانے کے بعد سے اب تک عراق کا کوئی وزیراعظم ایسا نہیں آیا جس کی پارٹی کو ایرانی سرمائے اور ایرانی عسکری ملیشیا کی حمایت حاصل نہ ہو۔ ایران کی سیاسی حمایت تک بات رہتی تویہ اتنی اہم چیز نہ تھی۔ بلکہ عراق کی وزارت داخلہ دراصل ایران کی البدر ملیشیا کا ذیلی ہیڈکوارٹر بن گئی۔ 2003 ء سے لے کر 2014 ء تک امریکی اور عراقی حکومتی کارروائیاں دراصل فلوجہ، موصل کرکوک اور ایسے دیگر شہروں تک محدود تھیں، جنہیں سنی مثلث (Sunni triangle) کہا جاتا ہے۔ الزام یہ تھا کہ وہاں القاعدہ سے دہشتگرد چھپے ہیں۔ لیکن جب وہاں سے داعش کا آغاز ہوا تو امریکہ، روس، سعودی عرب، اسرائیل اور ایران اس کے خلاف متحد ہو گئے۔ 14 جون کو ایرانی القدس ملیشیا کا کمانڈر قاسم سلیمانی بغداد آیا تو ایرانی ملیشیا اور عراق نے داعش کے خلاف مشترکہ عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا۔ پاسداران انقلاب اور بسیج کے دستے ایران سے لڑنے عراق آئے۔ پاکستان اور افغانستان سے فاطمیوں اور زینبیوں کے نام پر لوگ بھرتی کر کے انہیں ایران میں جنگی ٹریننگ دے کر عراق میں مقامات مقدسہ کی حفاظت کے نام پر بھیجا گیا ۔ یہ ایک ایسی لگاتار اور مسلسل جنگ تھی جس نے شام، یمن، بحرین، ترکی اور سعودی عرب کو بھی اپنے اندر لپیٹ لیا۔ سونے کے اس پہاڑ کی جنگ میں پہلے ایران عالمی طاقتوں اور اسرائیلی مفادات کا حلیف تھا لیکن تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ امریکہ، اسرائیل، عالمی طاقتیں اور سعودی عرب عراق کے اس سونے کے پہاڑ کی جنگ میں ایران کے خلاف صف آراء ہو چکے ہیں۔ پہاڑ وہی ہے، لڑنے والے فریق بھی وہی ہیں، صرف ایران اور سعودی عرب کے دوست آپس میں بدل گئے ہیں۔ جنگ کے آغاز میں سب سے پہلے کسی ملک میں سیاسی ابتری اور بے چینی پیدا کی جاتی ہے۔ عراق کی بے چینی کا آغاز تین ماہ قبل تحریراسکوائر میں کرپشن کے خلاف دھرنے سے ہوا اور پھر معاملہ ایران کی ایمبیسی پر ایرانی پرچم اتار کر عراقی پرچم لہرانے تک جا پہنچا۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ ایران اپنے ملیشیا کے ذریعے امریکیوں کو قتل کروا رہا ہے۔ ہنگامے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ان میں 160 لوگ مارے جا چکے ہیں اور دس ہزار کے قریب زخمی ہیں۔ امریکیوں نے الزام لگایا ہے کہ ایران نے 2007 ء سے لے کر اب تک اپنے ملیشیا کے ذریعے 603 امریکیوں کو قتل کیا ہے۔ عراق میں اگر ایران کے خلاف فضا ہموار ہوئی ہے تو وہ یمن، شام، بحرین اور سعودی عرب کے مشرقی علاقے میں اپنے زیر اثر ملیشیا کے ذریعے جنگ کے شعلے وہاں منتقل کر چکا ہے۔ دونوں جانب سے حالات اس بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں اس پہاڑ پر لڑنے والوں میں سو میں سے ننانوے ہلاک ہو جائیں گے۔ لیکن ہلاک ہونے والوں کی ترتیب کیا ہوگی۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ''سب سے پہلے لوگوں میں سے فارس والے ہلاک ہوں گے، پھر ان کے پیچھے عرب والے'' (کتاب الفتن نعیم بن حماد، بیہقی، دلائل النبوہ، مسند ہزار)۔ یعنی سونے کے لئے اس پہاڑ کی جنگ میں سب سے پہلے فارس یعنی ایران کے لوگ ہلاک ہوں گے اور اس کے بعد عرب کے لوگ ہلاک ہو جایئں گے۔ عربوں کی ہلاکت کے بارے میں تو یہاں تک فرمایا کہ ایک جوتا پڑا ہوگا کوئی عورت سوال کرے گی یہ تو کسی قریشی کا جوتا ہے لیکن وہ موجود نہ ہوگا۔رسول اکرم ﷺنے اس سے بچنے کا راستہ بھی بتایا۔ فرمایا ''جلد ہی وہ وقت آئے گا جب فرات میں سونے کا پہاڑ نمودار ہو گا۔ پس جو شخص اس وقت موجود ہو اس خزانے میں سے کچھ نہ لے (مسلم،کتاب الفتن)۔لیکن سعودی عرب اور ایران تو علاقے کی قیادت کی جنگ میں اندھے ہو چکے ہیں۔