پر امن ہمسائیگی کے حامی، کسی عالمی چقپلش کا حصہ نہیں بننا چاہتے ،ایسی دنیا چاہتے ہیں جو ہم پر سرمائے اور تجارت کے دروازے بند نہ کرے۔ پچھلے ہفتے اسلام آباد میں اِپری کی طرف سے منعقعدہ تین روزہ کانفرنس میں کہے گئے وزیر مملکت برائے خارجہ امورمحترمہ حنا ربانی کھر کے یہ الفاظ وضاحت کرتے ہیںاس قومی سلامتی پالیسی کی جو شہریوں کے مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ پر امن ہمسائیگی کے لیے باہمی رابطہ کاری اور تجارت کی ضرورت ہے جو ہونہیں رہی۔ افغانستان اور ایران معاشی پابندیوں کا شکار ہیں جبکہ بھارت کو اس میں دلچسپی نہیں۔ ہم اس صورتحال کو خود سے تبدیل نہیں کر سکتے لیکن باہر سے جو بھی آتا ہے فساد ہی پھیلاتا ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد حالات میں تبدیلی کی کچھ امید ہوچلی تھی ، یہ خواب پورا نہیں ہوا اور ایک نئی سرد جنگ سر پر منڈلا رہی ہے۔ سلامتی پالیسی کے نفاذ کے چار مہینے بعد ہی پاکستان کی سیاست میں اس وقت بھونچال آگیا جب اشرافیہ نے تحریک انصاف حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ پی ڈی ایمکی تیرہ پارٹیاں اقتدار میں آگئیں اور تحریک انصاف اپنے لٹے پھٹے کیمپ کے ساتھ ، قومی اسمبلی سے استعفی دے، امریکی سازش کی شکایت کر تی سڑکوں پر چلی گئی۔ امسال جنوری میں ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کے منظر عام پر آنے سے مہینوں پہلے سول اور عسکری قیادت نے باری باری معروف اینکروں اور صحافیوں کو گھنٹوں اعتماد میں لیا تھا کہ اب تمام ادارے آئین کی پاسدری کرتے ہوئے اپنے اپنے دائرے میں کام کریں گے۔تحریک انصاف کے اپنی حکومت کے چلتا ہونے کی پیچھے امریکی ہاتھ کا نظریہ اس وقت فیل ہوگیا جب نئی حکومت بھی یوکرین معاملے پر امریکی اصرار کے باوجود غیر جانبداررہی۔ خارجہ پالیسی کے سمت بڑی واضح ہے۔ ہر ملک کی خواہش ہوتی ہے کہ دنیا میں اس کا وقار و دبدبہ بڑھے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ آزاد خارجہ پالیسی اپنائے۔ جغرافیے کا جبر اپنی جگہ کہ بقول حنا ربانی ، مشکل ہمسائیگی ، ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ بھارت نے تین دریا اور ان کا مبع، کشمیر ، ہتھیا لیا ۔ اب اسے ہم سے کوئی غرض ہی نہیں۔ ہمارے ہاں کوئی معدنیا ت کے ذخائر تو ہیں نہیں کہ اسے بیچ کر امور ریاست چلائیں اور صنعت و حرفت کو بھی ترقی دے لیں۔ انگریز بہاد ر جانے سے پہلے ایک اور باریک کام کرگئے تھے کہ دریاوں پر بیراج بنائے، نہریں نکالیں ، جنگلات کاٹ کر رقبے نیلام کر گئے یا پھر اپنے حواری خاندانوں کوانعام کر گئے۔ ان کے جانے کے بعد ان کے جانشینوں نے ڈیم بنائے ، دریا وں کا رقبہ مزید سکڑا ،مزید رقبے واگزار ہوگئے۔ وہ جن کا گزارہ مویشی بانی اور مچھلی پر ہوتا تھا یا اناج اور دالوں کی کاشت پر ، وہ در بدر ہوگئے۔ آبادی بڑھ گئی ہے ۔ بھوک اور بیماری ایک عفریت ہے ، جسے تب تک قابو میں نہیں لایا جاسکتا جب تک ماضی کی غلطیوں کا ازالہ نہیں کیا جاتا۔ ہماری اشرافیہ کا خواب اب یہ ہے کہ باہر سے سرمایہ آئے ، ہمارے ہاں صنعتیں لگیں،ماضی کی پالیسیوں کی وجہ سے دربدر ہوئے لوگوں کو روزگا ر ملے اور ملک کے اقتصادی اعشاریوں میں بہتری ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکس کی شرح ملکی پیداوار کا دس فیصد بھی نہیں جبکہ اسکا آٹھ فیصد مراعات یافتہ طبقے پر خرچ ہوجاتا ہے، چار سے پانچ فیصد دفاع پر اور تین اشاریہ پانچ فیصد عوام الناس پر، یعنی تعلیم وصحت پر۔ محصولات میں بھی غیر لچکدار طلب کی حامل اشیائے ضروریہ پر ٹیکس کا حصہ ساٹھ فیصد سے اوپر ہے۔ یعنی وہ جنہیں سرکار کی سرپرستی کی ضرورت ہے انہیں ہی تختہ مشق بنا یا جاتا ہے۔ ا ب لوگوں کے پاس قوت خرید ہی نہ ہو تو اس ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری تو کیا ملکی سرمایہ کاری بھی نہیں ہوسکتی۔ وہ حکومت جو مہنگائی کے خاتمے کے لیے اقتدار میں آئی تھی، اس نے کیا کیا ہے اس جن پر قابو پانے کے لیے؟ فرق تو تب پڑے گا کہ بالواسطہ ٹیکسوں (جو عام آدمی پر لگتے ہیں ) انکا محصولات میں حصہ کم ہو، امیر طبقے کی مراعات کم ہوں اور انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے ، درآمدی محصولات کم ہوں تاکہ باہر سے ملک میں لائی گئی اشیائے ضروریہ سستی ہوں اور لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہو۔ ملک میں سرمایہ تب آئے گا جب عام لوگوں کی قوت خرید بڑھے، سرکاری خرچے پر پلنے والے افراد اور گروہوں کی تعد کم ہو، معاشرے میں اجارہ داریوں کا خاتمہ ہو اور سب سے بڑھ کر قانون کی حکمرانی اور احتساب ہو۔ ہم ہمسائے نہیں بدل سکتے ہیں لیکن اپنی قسمت بدلنا ہمارے ہاتھ میں ہے اور یہ تب ہوسکتا ہے جب اشرافیہ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی قابل ہو، ترقی کا مطلب لوگوں کے معیار زندگی میں اضافہ ہو۔ صورتحال یہ ہے کہ صوبائی خودمختاری تو لے لی گئی ہے لیکن وسائل کی مختلف خطوں اور علاقوں میں منصفانہ تقسیم کے لیے ضروری آئینی طور پر تسلیم شدہ مقامی حکومتوں کا نظام لانے میں رکاوٹیںکھڑی کر دی گئیں جو ختم ہی نہیں ہوتیں، انصاف لوگوں کی دہلیز پر پہنچانے میں دقت ہے۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ صرف علاقائی اور عالمی صورتحال ہماری دشمن نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہیں جو نشیمن پر بجلیاں گرارہے ہیں۔