ہماری اب تو باقاعدہ کوشش ہوتی ہے کہ سارا وقت اس چوں چوں کا مربہ قسم کی اپوزیشن پہ نہ ضائع کیا جائے، جس کے اندر پہلے ہی بہت سے لطیفے، حریفے، ظریفے اور کثیفے جنم لے چکے ہیں، جس میں کہیں کوئی مولانا نون لیگ کے خرچے سے بنے پلیٹ فارم پہ ’گو نواز گو‘ کے نعرے لگوا رہے ہیں۔ کہیں نواز شریف کی جمبو سائز تصویر کے نیچے پاکستان پیپلز پارٹی لکھا ہے۔کہیں اس اکٹھ کے سرغنہ کسی دوسرے کے حصے کی تقریر اٹھا کے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ کہیں آلو ٹماٹر درجنوں کے حساب سے اور انڈے کلو کی صورت فروخت ہوتے پھر رہے ہیں۔ جہاں ایک صاحب کے پیٹ میں سُول اٹھا اور وہ اصل موضوع چھوڑ کے قومی زبان اُردو پہ چڑھ دوڑتے ہیں۔ اس ٹولے کی بد نیتی ملاحظہ ہو کہ گیارہ میں سے کسی پارٹی یا مُہرے کو اس فضول بیان کی مذمت کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ قومی بغض سے ہمہ تن بھرے اور ہرملک دشمن کے لیے ہمہ وقت موافق اس پرزے کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کسی زبان کا ایک وسیع خِطے کی لنگوا فرانکا ہونا نقص کی نہیں بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ یہی اُردو زبان دو قومی نظریے کی بنیاد ہے۔ اُردو ہندی تنازعہ پاکستان بننے کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس زبان کے نفاذ میں تاخیر ہی آپ جیسے نہلوں کے ہمارے اوپر مسلط ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اگر آج ہی ہمارا تعلیمی ڈھانچہ اس زبان کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو ہم دن دوگنی ، رات چوگنی ترقی کر سکتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ سچ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ انگریزی کے شوق میں نہیں ، متوسط طبقے کے بر سرِ اقتدار آ جانے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ رئیس امروہوی مرحوم کہا کرتے تھے: ؎ کیوں نہ ہم لوگ پڑھیں ڈٹ کے قصیدے ان کے پانچویں پُشت ہے انگریز کی مدّاحی میں اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کا ایجنڈا قومی مفاد ہے ہی نہیں۔ یہ ذاتی منفعت سے ایک انچ آگے سوچنے کی صلاحیت سے محروم لوگ ہیں۔ ان کی کسی قومی پارٹی، ملکی اتحاد تو کیا اس ملک میں بھی جگہ نہیں بنتی۔ خوب صورت شاعر شاہین عباس نے کیا خوب کہا ہے کہ: ؎ پانیوں پہ مذاق بن گئے ہم کشتی میں نہ تھی جگہ ہماری ہمیں تو آج تک اس پارٹی داماد کی بھی سمجھ نہیں آئی۔ شادی سے لے کے آج تک اس کی زندگی کا سرسری سا جائزہ لے کے دیکھ لیں اُس کی ہر ادا پہلے سے عجیب اور بے ڈھنگی ہوتی ہے۔ لفظ ’داماد‘ کے بارے میں تو ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اُردو ہندی کا وہ مشترکہ دُکھ ہے جسے جس طرف سے بھی پڑھ لیں یہ داماد ہی رہتا ہے۔ لگتا ہے اس کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اب مَیں ان لوگوں کے ساتھ دائیں بائیں، آگے پیچھے سے اور کیا حرکت کروں جس سے پارٹی کم از کم از مائنڈ کرنا تو سیکھ لے! لیکن پارٹی کے نمک خواروں، بریانی خوروں اور غلام صحافیوں کو اسے ہیرو بنانے سے فرصت ہی نہیں مل رہی حالانکہ اس کی حیثیت پارٹی میں اس پھوہڑ پھوپھا کی سی ہے ، جس کا کام ہر اہم فنکشن میں روٹھنے کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی ایسی اوچھی حرکت کرنا ہوتا ہے، جس سے خاندان کی ناک نہ بھی کٹے تو کم از کم تضحیک کا ٹھیک ٹھاک پہلو ضرور نکلتا ہو۔ اسے دیکھ کے ہمیں عطا الحق قاسمی کے ایک ڈرامے کا وہ کردار شدت سے یاد آتاہے، جو ہر بھونڈی بات اور فضول حرکت پہ کسی کے شرم دلانے پر نادم ہونے کی بجائے دھڑلے سے کہتا ہے:’’ آفٹر آل داماد ہوں کوئی مذاق تھوڑی ہوں۔‘‘ لگتا ہے قتیل شفائی نے کسی ایسی ہی صورتِ حال میں یہ شعر کہا تھا: ؎ وہ مِرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم دغا کرے وہ کسی سے شرم آئے مجھے اصل حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں قومی و اخلاقی ترجیحات وترغیبات بھی ریاست کی بجائے سیاسی ہمدردیوں کے ساتھ متعین ہوتی ہیں۔ جب ایک بندے کو کسی بھی ضرورت یا مجبوری کی بنا پر ایک بار ہم نے لیڈر مان لیا، پھر وہ یا اس کا خانوادہ اپنی نادانی، ہوس یا چالاکی کی وجہ سے پو رے ملک کا وقار داؤ پہ لگا دے، سب سے بڑے اور بُرے ملک دشمن کی زبان بولنا شروع کر دے۔ قومی و اجتماعی مفادات کا جنازہ نکال دے، وہ ہر حالت میں ہمارا ہیرو ہی رہے گا کہ اس کے لیے ہمارے ذاتی مفادات و احتیاج نے غیر محسوس انداز میں ایک نرم گوشہ پیدا کر رکھا ہے، جس طرح ہم گاؤں کے گونگلو کو شہر میں شلجم اور چِبڑ کو کچری کہہ کے اس کا کھارا اور دیسی پن ختم کر لیتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اگرسنگھاڑے،مرونڈے، کھکھر بورے اور ٹانگری کا بھی کوئی بہتر سا نام رکھ کے ساتھ کسی پارٹی کا دُم چھلّا لگا دیں تو ان کے ذائقے اور تاثیر میں بھی بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اصل میں تو لوگوں کی ذاتی ترجیحات ہوتی ہیں جو رفتہ رفتہ معقولیت پہ غالب آتی چلی جاتی ہیں۔ شرم تو اس وقت آتی ہے جب کچھ لوگ اسی تعصب و ترجیح کے تحت، رذیل سیاست دانوں کے ہوسِ اقتدار یا جرم سے فرار میں دیے گئے گھٹیا بیانات کا بھی دفاع کرنے لگتے ہیں۔ یہ ترجیحات ہمارے ذہنوں میں کس طرح جگہ بناتی ہیں، اس حوالے سے ذرا اسلام آباد سے محترمہ ناہید اختر کا جناب تنویر فاروقی کی کتاب ’’زندگی تیرے تماشے‘‘ سے منتخب کردہ یہ مزے دار اقتباس ملاحظہ کیجیے: ’’یہاں کینیڈا میں اب ہندوستانیوںاور پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد رہتی ہے کہ انگلش سٹوروں نے بھی وہ تمام اشیا اپنے ہاں رکھنا شروع کر دی ہیں، جو پہلے کبھی نظر نہ آتی تھیں۔ مثلاً آٹے ہی کو لیجیے، مختلف ناموں سے بِک رہا ہے… ایک دن دفتر میں دوستوں سے اس موضوع پر بات ہو رہی تھی تو مَیں نے کہا کہ بھئی مَیں تو شروع سے ہی مدینہ آٹا خریدتا ہوں، کیونکہ میری بیوی کہتی ہے کہ ’’مدینہ آٹا‘‘ بہت اعلیٰ درجے کا ہوتا ہے اور اس سے بہت اچھی روٹی پکتی ہے۔ دوسرے کسی برانڈ میں وہ مزا نہیں۔… مہندر سنگھ بولا: سر جی! اگر آپ نے ودھیا روٹی کھانی ہے تو ’’گولڈن ٹیمپل آٹا‘‘ کھا کے دیکھو… سچ مجا آ جائے گا۔ مَیں تو صرف ’’گولڈن ٹیمپل آٹا‘‘ ہی خریدتا ہوں … ساتھ بیٹھی دِپتی نے کہا: ارے بھیا! اصل بات تو روٹی بنانے کی ہے۔روٹی صحیح نہ بنانا آتی ہو اور کچی پکی بنے تو بھلا کیسے مزے دار ہو سکتی ہے؟ آٹے سے اتنا فرق نہیں پڑتا ۔ مہندر نے پوچھا: بہنا جی! پھر بھی تُسی کون سے آٹے دی روٹی بناندی او؟؟ ’’ مَیں کسی خاص وجہ سے نہیں ، بس ویسے ہی ’’نانک آٹا‘‘ خریدتی ہوں۔ تھوڑی دیر ادھر اُدھر کی کچھ اور گفتگو ہوئی اور بات ختم ہو گئی… سودا سلف لینے انگلش سٹور پہنچا تو آٹے کے حوالے سے دفتر میں کی گئی بات یاد آ گئی۔ سوچا آٹے کے دیگر برانڈز پر بھی نظر ڈالوں تو مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ’’مدینہ آٹا‘‘ ، ’’گولڈن ٹیمپل آٹا‘‘ اور ’’نانک آٹا‘‘تینوں ایک ہی کمپنی کے تیار کردہ ہیں اور یہ وہی مقامی کمپنی ہے، جس کا مالک ایک یہودی ہے۔‘‘