میرا بیٹا‘چوتھی جماعت میں 18ویں صدی کے انگلش کلاسیک جوناتھن سوئفٹ کا شاہکار ناول پڑھ رہا ہے۔ اصل کلاسیک ناول کو انتہائی مختصر اور آسان ترین زبان میں منتقل کر کے یہ بچوں کے لئے خاص طور پر Condensed Versionبنایا گیا ہے۔ جوناتھن سوئفٹ کو میں نے ایم اے میں پڑھا تھا۔ مگر انگریزی میڈیم سکولوں میں یہ جونیئر کلاسوں میں مختصر اور آسان صورت میں نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس اردو زبان کا کوئی کلاسیک ناول‘ لکھاری شاعر ان بچوں کے نصاب کا حصہ نہیں۔ یہ بچے جوناتھن سوئفٹ اور شیکسپیئر کو تو جانتے ہیں لیکن انہیں حالی‘ ڈپٹی نذیر احمد‘میر و غالب ‘ انتظار حسین کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کیونکہ ہمارے ہاں اس حوالے سے شعوری کوشش نہیں کی گئی ۔ کہ آغاز ہی میں بچوں کو اردو ادب کے عظیم لکھاریوں سے کسی نہ کسی حد تک متعارف کروایا جائے۔ بلکہ شعوری کوششیں اس کے خلاف ہوتی رہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم اس کو نصاب سے بے دخل کر چکے ہیں۔پھر وہی بات کہ ہم احساس کمتری سے ادھ موئے‘ لوگ ہیں۔ اپنی وراثت پر شرمندہ ہیں۔ اپنے ماضی کو ڈس اون کرنے والے غلامانہ سوچ کے مارے لوگ ہیں۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ پاکستانی بچہ جس کے ملک کی قومی زبان اردو ہو، وہ اردو کے ادبی سرمائے سے تو نابلد رہے مگر انگریزی زبان کے کلاسیک لکھاریوں سے کسی نہ کسی سطح پر متعارف ہو جائے۔ وہ جوناتھن سوئفٹ کو تو جانتا ہوں مگر اسے انتظار حسین کا پتہ نہ ہو۔انگریزی کے کسی بھی بڑے سے بڑے کلاسیک لکھاری کا نام لیں‘ اس کا کام‘ بچوں کے لئے بھی ان کی عمر کے مطابق آسان اور مختصر ترین انداز کے شارٹ ورژن میں موجود ہو گا۔جبکہ ہمارے ہاں بچوں کے لئے اس طرح کا کوئی کام کبھی نہیں ہوا۔ یہ کام کس کے کرنے کا تھا۔؟ ظاہر ہے اردو ادب کی ترویج کے نام پر جو مختلف ادارے ملک میں موجود ہیں، یہ ان کا کام تھا کہ وہ اردو کے ادبی سرمائے کو اگلی نسل تک منتقل کرنے کا بندوبست کرتے۔مختلف کلاسیکی ناولوں کو مختصر اور آسان زبان میں بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق تیار کروایا جاتا۔ پھر سکولوں سے رابطے کئے جاتے۔ نصاب ترتیب دینے والے متعلقہ اداروں سے رابطہ کر کے ان کتابوں کو مختلف جماعتوں کے نصاب کا حصہ بنایا جاتا، تاکہ بچے اپنی سمجھ اور شعور کے ابتدائی تروتازہ سالوں میں اردو زبان کے بڑے ناموں سے بھی آشنا ہوتے۔ وہ اٹھارویں صدی کے انگریزی لکھاریوں کو تو مانتے ہیں مگر انیسویں یا بیسویں صدی کے اردو لکھاریوں سے نا آشنا ہیں اور ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ بچے اس ملک کے باسی ہیں جہاں کی قومی زبان اردو ہے اگرچہ اس ملک میں اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لئے کئی ادارے کام کر رہے ہیں۔مگر افسوس کہ یہ ادارے ایسے کئی بڑے خواب اور ویژن سے سدا عاری ہیں۔ محترمہ شبانہ عنبرین ایک انگریزی اسکول کی ہیڈمسٹریس ہیں انہوں نے بتایا کہ: اسکول کے تعلیمی نصاب کو طے کرنے والی اتھاریٹیز کے ساتھ آکسفورڈ پریس رابطے میں رہتا ہے اور مختلف کتابوں اور نصاب کے مواد کو تجویز کرتا ہے،جبکہ اردو کیلیے کام کرنے والے ایسے کسی ادارے نے کبھی اس سطح پر بچوں کے لیے نصاب طے کرنے والی اتھاریٹیز سے اس سطح پر کوآرڈنیٹ نہیں کیا۔حالانکہ یہ ان کی اہم ترین ذمہ داری ہونی چاہیے۔یہی وجہ ہے اردو زبان وادب ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسے انداز میں نہیں پڑھایا جارہا ،جیسے ہم انگریزی زبان وادب پڑھاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے آج کے انگریزی سکولوں میں پڑھنے والے بچے اردو کے آؤٹ ڈیٹڈ زبان سمجھتے ہیں۔اردو زبان کی ترویج کے لیے کام کرنے والے سرکاری اداروں نے تو آج تک اتنا کام بھی نہیں کیا کہ انگلشphenology کی طرز پر اردو کے حروف تہجی کی آوازوں کے نظام ڈویلپ کرنے پر ہی کچھ کام کرتے۔تاکہ انگلش میڈیم سکول کے بچوں کواردو پڑھانا آسان ہو جاتا۔ اردو سائنس بورڈ اور اس جیسے دوسرے اداروں نے اردو کے ادبی سرمائے کو اگلی نسل تک منتقل کرنے کے لئے کیا کیا؟ حالی‘ شبلی نعمانی‘ سرسید احمد خان جیسے مشاہیر کتابیں ضرور ری پرنٹ ہوئی ہیں مگر ان کتابوں کی رسائی علمی اور ادبی حلقے تک محدود ہے۔ان مشاہیر کے حوالے سے بچوں کی سطح کے آسان اور مختصر ورژن شائع نہیں کئے گئے۔ جیسے کہ مغرب میں کلاسیک لکھاریوں کے کام کے کئے جاتے ہیں اور انہیں Abridged VersionیاCondensed Versionکہا جاتا ہے۔ اردو کی ترویج کے لئے مختص کروڑوں کے فنڈز کتابوں کو ری پرنٹ کر کے الماریوں میں رکھنے پر خرچ ہو رہے ہیں۔اردو کی ترویج اور ترقی تو یہ ہوتی کہ آج میرا بیٹا کلاس فور میں جوناتھن سوئفٹ کے ساتھ ساتھ انتظار حسین کو بھی پڑھ رہا ہوتا۔ دراصل ایسے ادارے اپنی روح میں کسی بڑے خواب اور ویژن سے عاری رہے ہیں۔ اردو ادب کا قائم ہے، مسلسل یہاں اردو کی ترویج کا کام ہو رہا ہے مگر حالت یہ ہے کہ کسی نویں دسویں کے طالب علم کو پکڑ کر اسے غالب یا میر کے دو شعر سنانے کا کہہ دیں وہ نہیں سنا پائے گا۔ حالی اور شبلی نعمانی کا پوچھ لیں کہ کون تھے تو جو جواب آئے گا‘ بس وہی اس ادارے کی کارکردگی ہے۔