افغانستان میں آج طالبان حکمران ہیں‘انہوں نے یہ حق حکمرانی حامد کرزئی اور اشرف غنی کی طرح اپنی قوم سے غداری کے صلے میں نہیں پایا‘نہ ہی وہ نور محمد ترکئی اور ببرک کارمل کی طرح روس کے ٹینکوں پر بیٹھ کر آئے‘حکمرانی کا یہ حق انہوں نے دور دیس سے آئے حملہ آوروں کے خلاف طویل جنگ آزادی جیت کر حاصل کیا گروہ طالبان کا سچ پوچھو تو وہ صرف اپنے وطن اور قوم کے محسن ہی نہیں ہیں بلکہ وہ پاکستان‘ایران اور وسطی ایشیا کے بھی محسن ہیں‘جن کے سروں پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی متوقع جارحیت کی تلوار لٹکتی رہتی تھی‘وہ روس کے محسن ہیں کہ انہوں نے اسے برباد کرنے والے دیرینہ حریف کو بیس برس تک ایسی خوفناک جنگ میں الجھائے رکھا کہ اسے آنکھ اٹھا کر دوسری طرف دیکھنے کی فرصت نہ ملی‘ان کا سب سے بڑا احسان چین پر ہے اگر وہ 2001ء میں اپنی معاشی حالت کا امریکہ کے ساتھ موازنہ کرے اور آج کے نتائج کا ازسر نو موازنہ دیکھے‘افغانوں نے بیس برس تک ان گوری چمڑے والے اور ان کے بے دام غلاموں کے ساتھ وہ کیا کہ دنیا میں جس کی کوئی نظیر نہیں اور شاید رہتی دنیا تک کبھی ایسا بے جوڑ مقابلہ دیکھنے کو نہیں ملے گا‘جس میں ایک ممولے نے شہبازوں کے لشکر اور تھڑی سی چیونٹیوں نے غول در غول ہاتھیوں کو کچل ڈالا ہو‘ان بیس برسوں میں ان جفا کش بہادر اور غیور افغانوں نے حملہ آوروں کی وہ دھلائی کی اور انہیں دو دہائیوں تک ایسی جنگ میں الجھائے رکھا کہ روس کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا موقع ملا اور چین دنیا کی سپر پاور بن گیا‘امریکہ جو واحد اکیلی سپر پاور ہوا کرتا تھا آج وہ بے چارا ’’سہیوں میں نہ شمایوں می‘‘تین میں نہ تیرہ میں۔ طالبان نے حق حکمرانی اپنے زور بازو سے حاصل کیا ہے‘دشمنوں کے خلاف لڑ کر‘حملہ آوروں کو شکست دے کر‘اپنی قوم کو دائمی غلامی کے خطرے سے نجات دلا کر‘انہوں نے اپنی قوم کی آبرو کو بچایا‘اجداد کی اعلیٰ روایات ‘آزادی کی تجدید کی‘اسلام کی بے بدل اقدار کو زندہ کیا‘جس وسعت قلبی سے انہوں نے وطن کے اندر سے پیدا شدہ غداروں اور دور دیس سے آئے ظالم و سفاک حملہ آوروں کو بے بس کرنے کے بعد معاف کیا نہ صرف انہیں عام معافی دی بلکہ بھاگ نکلنے کے لئے محفوظ راستہ دیا۔اس قدر اعلیٰ حسن اخلاق فاتحین مکہ کے بعد انہی کا حصہ ہے۔ طالبان افغانستان کے حکمران بن گئے ہیں لیکن وہ اور ان کی قوم چالیس برس سے خوفناک‘سفاک اور حریص حملہ آوروں کی زد میں تھے۔قوم کے بہادر جوانوں نے خوفناک عفریت کے پنجے کاٹ اور جبڑے چیر کر انہیں خطرے سے نکالا ہے اس جدوجہد کے زمانے میں ان کا معاش تباہ ہو گیا‘ان کے ذرائع پیداواربنجر پڑے رہے‘آبادیاں دربدر ہوئیں، معززین خواتین‘پھول سے بچے دور دیس میں بھٹکتے رہے۔اب ان کی آبادیوں کی ذمہ داری معاش کاانتظام، ذرائع پیداوار کی بحالی سب انہی کی ذمہ داری ہے‘اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے انہیں وقت کے ساتھ اپنے دوستوں اور ہمسایوں کی مدد درکار ہے‘یہ کسی بے خانماں بھکاری کی مدد کرنے جیسا نہیں‘بلکہ ایک غیور‘جفا کش‘جوان اور بہادر کی حوصلہ افزائی بلکہ قدر افزائی کرنا ہے، جو نہ صرف اپنی قوم کی آنکھوں کا تارا بلکہ مدد کرنے والوں کا محسن و غم خوار بھی ہے‘یہ وقت مفت کے مشوروں میں ضائع کرنے کا نہیں بلکہ انہیں بھوک مٹانے کے لئے روٹی اور ٹوٹی چھت کی مرمت کرنے کا ہے‘بس تھوڑے ہی وقت کے لئے‘یقینا وہ دوستوں کی مدد اور کوشش کا احسان مانیں گے اور جلد ہی ان کا ادھار چکتا کر دیں گے۔ہمسایہ دوستوں کو چاہیے کہ بھوک میں روٹی اور ٹپکتی چھت کی مرمت کے لئے انہیں بلیک میل نہ کریں‘اپنی وہ شرائط ان سے منوانے کی کوشش نہ کریں جو آپ خود پوری نہیں کر سکتے: یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا مسلمانوں بھائیوں اور ہمسایہ دوستوں کیلئے اپنی قیمت بڑھانے کا یہ کوئی موقع نہیں ان کی ضرورتوں کو بلیک میل کر کے کسی کا بھلا نہیں ہو گا۔ سب کو خبر ہے کہ طالبان ایک غیور‘بہادر‘ جفا کش قوم کی نمائندگی کرتے ہیں ۔چار کروڑ جن کی تعداد ہے‘ان کے وسائل کا کوئی شمار نہیں‘وہ مشرق و مغرب ‘شمال اور جنوب کی گزرگاہوں کے امین ہیں‘انہی کی رضا اور اجازت سے روس گرم پانیوں تک وسط ایشیائی ریاستیں گوادر کے راستے سمندر کے ساحلوں تک اور چین وسط ایشیا سے یورپ تک پہنچ سکتا۔ان سارے ملکوں کی خوشگوار خوابوں کی تعبیر افغانستان میں ہے‘ خصوصاً ایران اور پاکستان کو تو چالیس برس میں دو مرتبہ دشمنوں کے ٹڈی دل سے انہوں نے بچایا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ کوئی جوان رعنا بدقسمتی کے چکر میں پھنس کر مفلس و بدحال ہو یا اس کی آبرو پر حرف آئے تو اس کے پاس تین راستے ہیں۔اگر اس پر مایوسی اور بے بسی کا غلبہ ہو تو خودکشی کرے گا۔اگر وہ تر دماغ اور چالاک ہے تو چوری چکاری ٹھگی سے اپنی ضرورت پوری گا اگر وہ بہادر ہے تو چاقو‘چھری لے کر شکار کو نکل کھڑا ہو گا۔ ازبک‘ تاجک‘ ہزارہ اور افغان خواتین کیا ہمیشہ سے اسی معاشرے کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ بھارت کی اقلیتوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں‘انکی عورتیں ‘ہندوئوں کی طرح بے بس ہیں یا نام نہاد لبرل انسان دوست امریکہ و یورپ کی عورتوں کی طرح دن رات روٹی کی فکر میں رسوا و دربدر ہیں۔تاجک‘ ازبک‘ہزارہ اور افغان ہزاروی لاکھوں برس سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتے اور بانٹ کر کھاتے ہیں۔ دوسری نسلوںکے نہیں؟ان کے وزراء اور کمانڈروں کی فہرست اٹھا کر پڑھیں تو اعلیٰ عہدوں پر کیا صرف پختون براجمان ہیں یا ان کے دوست اور دست و بازو دیگر ہم وطن بھی برابر شریک نظر آتے ہیں؟افغان خواتین کی فکر انہیں لاحق ہے‘جو نہیں جانتے عورت کی عزت‘حرمت‘ حیا کی قدر کیا ہے‘قیمت کیا ہے۔افغان نازک آبگینوں کی حفاظت کرتے ہیں‘ان کی عزت و حرمت پر مرمٹتے ہیں‘وہ خواتین کی آبرو کے لئے اپنی جان کو کم قیمت جانتے ہیں۔یہی خواتین ان جانباز مجاہدوں کی مائیں ہیں‘بہنیں ہیں‘بیٹیاں ہیں‘انہی میں سے چندان کی بیویاں بھی ہیں جو ان کے بچوں کی مائیں اور گھر آنگن کی رونق ہی نہیں مالک و مختار بھی ہیں۔وہ مائیں جوایسے بہادر ’’جنا ‘‘ کرتی ہیں جو برطانیہ‘روس ‘امریکہ کے ساتھ پوری دنیا کے وسائل افواج اور ٹیکنالوجی کو ریت کے ذروں میں بدل دیں‘یہ ان عورتوں کی لوریاں‘سن‘ دودھ پی کر جواں ہوئے وہ عورتیں کیا خود بزدل اور بے بس ہیں کہ انہیں جنگ کے میدانوں سے بھاگ نکلنے والے بھگوڑوں کی مدد اور ہمدردی کی ضرورت ہے۔جو معصوم بچوں کی طرح ’’پیمبر‘‘ باندھ کر سڑکوں پرنکلتے ہیں کہ پٹاخے کے چھوٹنے پر پیشاب خطا ہو کے ان کی پتلونوں کو گیلا نہ کردے‘یہ بزدل ان بہادر مائوں کی آزادی کا نام لیتے ہیں۔کچھ شرم ہوتی ہے حیا ہوتی ہے مگر وہ بے شرم بے حیائوں کے لئے نہیں ہوتی۔طالبان کے ترجمان نے کہا: عورتیں ہماری عزت و ناموس ہیں، ہم اپنی حرمت کو جنگ کے میدانوں میں نہیں بھیجتے‘نہ بازار کی رونق بناتے ہیں‘ہم انکی حفاظت کرتے ہیں ان عصمت و عفت پر مرنے کو تیار ہیں‘وہ ہماری آقا ہیں‘ہم غلاموں کی طرح ان کی خدمت و حفاظت پر مامور ہیں اور کچھ نہیں۔اگر اعتبار نہ ہو تو برطانیہ کی مشہور اخبار نویس’’ریڈلی‘‘ سے پوچھئے۔