پاکستان کی تخلیق کے مقاصد اور قائد اعظم کے بارے میں بہت سارے ایسے شکوک دانستہ پھیلائے گئے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔اب پچھتر سال بعد عام آدمی کیسے اس بکھیڑے میں پڑے کہ قائد اعظم کے دل اور ذہن میں پاکستان کی تشکیل کے کیا مقاصد تھے اور کیا خدوخال تھے جن پر قائد اس ملک کو استوار کرنا چاہتے تھے۔اب یہی سچ لگتا ہے کہ قائد یہاں ایسی اسلامی سلطنت بنانے کے خواہاں تھے جو محض ایک مذہب کے ماننے والوں کے لیے ہو۔ یا وہ ایسا دستور کا خاکہ ذہن میں رکھتے تھے جس کی رو سے پاکستان ایک خالص تھیوکریٹک مملکت بن جائے۔کبھی قائد کی اچکن شلوار کو طعنہ دیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ ظالموں نے انہیں اچکن شلوار پہنا دی۔ قائد اور اس کے ملک کے چاروں طرف ایک ایسا جال بْن دیا گیا جہاں سچ پر جھوٹ اور جھوٹ پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اصل حقیقت کیا ہے اور یہ اس کے بارے میں جاننے کے لیے کوئی تردد بھی نہیں کرتا اور کوئی متفکر بھی نہیں ہوتا۔ محمد سعید نے ایسے سوالات کا شافی جواب تلاش کیا ہے۔ وہ یوں کہ ان کی ترتیب دی ہوئی کتاب"پاکستان یکم اگست 1947 تا اکتیس دسمبر 1947"کی تاریخ کو چار ممتاز ترین پاکستانی اخبارات کی خبروں سے کیا مزین کیا ہے کہ حالات آئینہ ہو جاتے ہیں۔اس عرصہ میں درد ِزہ کے بعد تخلیق کی خوشی پھوٹی پڑتی ہے۔یوں لگتا ہے کہ ریاست کو ان بنیادوں پر استوار کیا جانے والا ہے، جس کا واحد مقصد فلاح ِعامہ ہے۔تعصب، تنگ نظری، سر پھٹول اور فضول بیان بازی کہیں موجود نہیں۔سیاسی جماعتوں کے رہنما دیش بھگت ہیں۔بے معنی بیانات جو آج کا روزمرہ ہے کہیں موجود نہیں۔ہمیں جو تاریخ پڑھائی گئی وہ ملک دشمنی پر مبنی تھی۔اس کتاب کو پڑھ کر ہمارے تعصب پر مبنی خیالات کی قلعی کھل جاتی ہے کہ جس دشمنی کو ہم نے پچھلے پچھتر برس سے پالا ہوا ہے، اس کا تو کہیں ذکر ہی نہیں۔ ہندومسلم دو شخصیات قائد اور گاندھی کے خیالات بشکل خبر ملتے ہیں تو اپنے عہد کے سیاسی رہنماؤں پر ترس آتا ہے۔آج کل کے سیاسی رہنماؤں کے بارے میں سعدی کا کہا سچ مان لینے میں ذرا تامل نہیں ہوتا اہل کاراں بوقت معذوری ہمہ شبلی و بایزید شوند چوں بیایند بعد بر سر کار شمر ذی الجوشن و یزید شوند یہ شبلی و بایزید اور شمر ذی الجوشن کی تفاوت ہے۔ اس عرصے کی خبریں خود مصنف و مولف کے الفاظ میں حیرت انگیز ، ناقابل یقین اور چونکا دینے والی ہیں۔ دو یار زیرک و از بادہ کہن دو منے فراغتے و کتابے و گوش چمنے مگر جب روزانہ چار پانچ کتب اور ادبی رسائل موصول ہوتے ہوں وہاں کتاب اور گوشہ ِچمن تو میسر ہو سکتا ہے فراغت ارزاں نہیں ہو سکتی۔پہلے مصرع میں مذکور دو چیزیں بھی محال سمجھیے کہ پہلے تو دو زیرک دوست میسر نہیں ہو سکتے پھر حافظ نے دو من شراب کی پابندی بھی لگا دی۔یہ جس حافظ کا ذکر ہے یہ زیرک ہے، شراب ِ زہد کا قائل ہے کسی اور حافظ کا ذکر مقصود نہیں۔شیراز والا حافظ، شعر والا حافظ۔مگر حافظ کے اشعار کی طرح کچھ کتب بھی اپنا وقت ساتھ لے آتی ہیں۔یہ کتابیں قسمت سے ملتی ہیں۔ہمارے استاد فرمایا کرتے تھے کتاب ایک دوست شے ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ میں نے کس کے پاس پہنچنا ہے اور کس کو صحبت مہیا کرنی ہے۔ محمد سعید نے یہ واقعات اس وقت کے چار قومی انگریزی اخباروں سے اٹھائے ہیں۔ یہ چاروں اخبارات پاکستان ٹائمز لاہور، ڈیلی گزٹ کراچی، سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور اور ڈیلی ڈان کراچی مستند ترین اخبار ہیں، ان میں اب ایک ڈان ہی باقی رہ گیا ہے کہ اب خبر خبر نہیں ایک خواہش کا روپ دھار چکی ہے۔ جس اخبار کی جو خواہش ہے وہ اپنی مرضی مطابق اس خبر کو پیش کر دیتا ہے اب خبر خبر نہیں ایک دھندہ ہے۔اْس زمانے کے رہنماؤں کے خیالات اور بیانات پڑھ کر موجودہ الم غلم قیادت کے ذہنی افلاس پر رونا آتا ہے۔کچھ خبریں بطور مشتے از خروارے درج ہیں۔ قائد نے کہا ہے کہ سندھ کے ایک وزیر جناب عبدالستار پیرزادہ نے کل مجھ سے ملاقات کی اور بتایا کہ میرا نام استعمال ہو رہا ہے اور یہ منسوب کیا جا رہا ہے کہ میں کسی کو سندھ کی مسلم لیگ اسمبلی پارٹی کا لیڈر بننے کو ترجیح دے رہا ہوں۔میں بالکل واضح کر چکا ہوں کہ یہ ذمہ داری اسمبلی پارٹی کی ہے کہ وہ اپنے لیڈر خود منتخب کرے۔حال ہی میں پنجاب اور بنگال کے معاملے میں اس بات کی پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں اور مجھے افسوس ہے کہ میرا نام استعمال ہوا یا کسی نے غلط استعمال کیا۔ہر صوبے کو جہاں مسلم لیگ اسمبلی پارٹی تشکیل دی جا چکی ہے یہ مشورہ دوں گا کہ خود مختارانہ آزادانہ اور منصفانہ طور پر اپنا لیڈر منتخب کریں۔ مسٹر عبدالجلیل صدر کان پور جمیعتہ العلمائے ہند نے کہا ہے کہ اگرچہ تقسیم ہند سے ہم سب دکھی ہیں تاہم یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ ایک عارضی فیصلہ ہے جو کہ برطانوی حکومت نے کیا ہے۔ایک دن انڈیا پھر United ہو جائے گا۔ مغربی بنگال انڈیا کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ یوم آزادی پر اپنا پرچم لہرائیں گے تا ہم چراغاں کا اہتمام نہیں ہو گا کیونکہ بنگال کی تقسیم سے آدھی بنگالی قوم دکھی ہے۔ قائد نے ہمارے لیے کس قسم کا ملک بنانے کا ذکر کیا تھا اس کے بارے میں اگلے کالم میں ذکر ہو گا۔ (جاری ہے)