کیا کہیں ان سے جو خوشبو سے شناساہی نہیں حیرت ہے ان لوگوں پر جو اس بات پر شور مچا رہے ہیں کہ محمد بن سلمان کے آنے پر اتنا اہتمام کیوں کیا جارہا ہے۔ وہ تو سعودی عرب کا ولی عہد ہے، ہم تو اس کے بھی صدقے واری جاتے ہیں جو وہاں سے ہو آئے جن لوگوں کے پیارے وہاں گئے ہوتے ہیں اور وہ زرمبادلہ بھیج رہے ہیں۔ آپ ان سے پوچھیے کہ وہ کتنے خوش ہیں اور اتنے خوش کہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہاں جانے والے کبھی واپس نہ آئیں۔ محمد بن سلمان خود تھوڑا آ رہا ہے، اسے بھیجا جارہا ہے۔ یہ کوئی راز نہیں بلکہ اس آمد کے مقاصد خوشبو کی طرح پھیلے ہوئے ہیں: اس کو خوشبو کی طرح ساتھ بھی رکھوں اپنے اور پھر اس کو زمانے سے چھپانا چاہوں یہ تو کشف و انکشاف کی بات بھی نہیں ہے۔ ہم سب اس وقت شعور کی آخری منزلوں پر پہنچ چکے ہیں کہ میڈیا کی آنکھ سے اب کچھ نہیں چھپتا۔ اگر حکومت ولی عہد کو اتنا بڑا پروٹوکول دینے جا رہی ہے کہ سینکڑوں بڑی گاڑیاں دستیاب کی جا رہی ہیں یا ان کی رہائش کا بڑے پیمانے پر بندوبست کیا جارہا ہے تو یہ متوقع تھا اور عین ضروری ہے کہ جہاز میں ڈالر آ رہے ہیں، سرمایہ کاری ہوگی۔ نئے عہد کا آغاز ہوگا۔ یعنی نیا عہد بھی انہی کے ساتھ طے پا چکا ہے جن کے ساتھ پرانا عہد تھا۔ راحیل شریف پہلے ہی پاکستان میں ہیں۔ یہ سب نوازشات وعنایات یونہی تو نہیں ہیں۔ ٹرمپ کو احمق سمجھنے والے خود مغالطے میں ہیں۔ ہاں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کو کسی کا دید لحاظ نہیں کہ کسی کابھرم ہی رکھ لے۔ جو اس کے منہ میں آتا کہہ دیتا ہے۔ مثلاً جب اس سے سوال کیا گیا کہ امریکہ پر جو اتنا قرضہ بڑھ گیا ہے تو وہ کیسے ادا ہوگا۔ اس پر ٹرمپ نے بڑے وسان سے کہا ’’خود ہی خلیجی ریاستیں ادا کریں گی۔‘‘ اب پتہ نہیں اس فقرے میں پیغام تھا یا اعلان۔ یہ بات تو طے ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسا ہی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اس کے متاثرین ہی میں سے ہیں۔ عراق اور کویت والا معاملہ کوئی اتنا پرانا نہیں ہے۔ قطر اور سعودیہ کی رنجش کے پیچھے کیا ہے اور کون فائدہ اٹھارہا ہے۔ سب جانتے ہیں۔ یمن کا معاملہ بھی تو درپیش ہے۔ ہم کچھ چاہیں یا نہ چاہیں، سب کچھ ہمارے سامنے ہورہا ہے۔ سکرپٹ بڑا مضبوط اور منطقی ہے۔ ہمارے اپنی اقتصادیات اور معاشیات اسی پر انحصار کر رہی ہے: محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے میں اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کا فرپہ دم نکلے جو بھی ہے موسم بڑا خوشگوار ہوتا جارہا ہے، بہار کے موسم میں بارش کتنی اچھی لگتی ہے۔ سب کام بھی سیدھے ہوتے جارہے ہیں یا ایسا لگ رہا ہے اور تو اور محکمہ موسمیات کی پیش گوئیاں بھی شاید پہلی دفعہ درست ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ سب نشانیاں آنے والے اچھے دنوں کی نوید ہیں۔ سب درد دور ہو جائیں گے۔ ایجاب و قبول ہونے جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معاملات ہمارے لیے جیسے آسان کردیئے ہیں۔ ساڈے حال دی خبر اوہ رکھ دا سی پہلوں پہل جیہڑا انجان دسیا اس نے دیکھا کہ یہ ڈرایا اور دھمکایا بلکہ دھتکارا ہوا تو کسی اور طرف ہی چل نکلا ہے۔ اسے روکنا چاہیے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ کسی غریب کی اخیر نہیں دیکھنی چاہیے تو اس نے اپنے دست نگر کی طرف دوبارہ دھیان دیا اور اسے ایسی ترغیب دی کہ ہم کچے دھاگے سے بندھے چلے آئے ہیں۔ یہ سوال ستاتا ضرور ہے کہ واقعتاً یہ سارا سی پیک کا جھگڑا تھا، گوادر کا معاملہ تھا۔ افغانستان کا قضیہ۔ اب ہم کہاں کہاں کام آئیں گے۔ اچانک نکھٹوئوں کی لاٹری نکل آئی۔ سب وفادار یکجا کئے جا رہے ہیں۔ دبئی میں ایک بڑا میلہ بھی تو لگ رہا ہے۔ میلے کے تو ہم پرانے شوقین ہیں۔ شاید ہم کبھی سوچ سکیں کہ ’’ایہہ میلہ چار دناں دا‘‘ اور ’’ایہہ پانی دا بلبلہ۔‘‘ ویسے ہمیں دوسروں سے بھی جو کچھ مل رہا ہے وہ ہمارے چین کے باعث ہی ہے۔ چین کی مجبوری ہے کہ وہ ہمارا دشمن نہیں ہوسکتا۔ کسی حد تک امریکہ کی بھی یہی مجبوری ہے کہ وہ یکسر ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا کیونکہ ایک بات امریکہ بھی جانتا ہے بھارت اس کے ہاتھ استعمال نہیں ہوسکتا۔ یہ شرف صرف ہمیں حاصل ہے۔ ایک شعر خضر یاسین نے محسن بوپھالی کا سنایا تھا: آئے دن آتش و آہن سے گزرتا ہے مگر دل میں وہ کافر ہے کہ پتھر نہیں ہو پاتا ہے تھوڑی سی بات ادب کی بھی ہو جائے کہ ہمارے دوست پروفیسر فرخ محمود نے یوکے سے آئے ہوئے ہمارے مہمان ڈاکٹر یونس امین شیخ کے اعزاز میں ایک پرتکلف عشائیے کا اور مشاعرہ کا اہتمام کیا تھا۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے یونس امین شیخ جو ان دنوں یوکے میں تدریس اور سوشل ورک میں مصروف ہیں بڑے بھلے مانس آدمی ہیں۔ مخلص اور محبت کرنے والے انہوں نے پاک برٹش آرٹس آرگنائزیشن بنا رکھی ہے جس کے تحت فنون لطیفہ کی آبیاری اپنی جگہ مگر ان کا اصل مقصد مغربی ممالک میں آباد لوگوں کی نئی نسل کو اپنی اصل روایا ت اور شناخت کے ساتھ جوڑنا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے کئی خدشات بتائے کہ نوجوان اپنا مذہب تک بدل جاتے ہیں یا کم از کم اس سے دور چلے جاتے ہیں۔ اردوزبان سے بھی وہ اجنبی ہوتے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے شیخ صاحب نے باقاعدہ انہیں پڑھانے کے لیے سکول کا بندوبست بھی کیا ہے۔ پاک برٹش آرٹس کونسل کی شاخیں مختلف ملکوں میں ہیں۔ وہ اپنی بنیادیں اخلاقیات اور اساسی اقدار کو نئی نسل میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر یونس امین کی پرمغز گفتگو کے بعد مشاعرے کی صورت حال پیدا ہوگئی۔ اس کی صدارت عارف والا سے آئے ہوئے معروف شاعر یونس متین نے کی اور مہمان خصوصی ہمارے مہمان یونس امین تھے۔ مشاعرے کا حال بیان کرنے کی بجائے کچھ شعرا کے شعر لکھ دیتا ہوں: اس نے دریا کو غور سے دیکھا صاف ہوتا چلا گیا پانی (طارق چغتائی) سب مفادات کی خاطر ہیں اکٹھے فرہاد ایک دھوکہ ہے یہ ایوانوں میں جمہور کی بات (فرہاد ترابی) یہ نعت گوئی، یہ میرا سلام، یہ آنسو تمہارے سامنے ہی سارا حال رکھا ہے (محمد عباس مرزا)