نفرت کے سوداگروں نے 2019ء میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کی نئی تاریخ رقم کی ۔ 15 مارچ 2019ء کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مسجدوں پر ایک جنونی حملہ آور نے فائرنگ کرتے ہوئے 49 نمازی شہید اور 50 زخمی کر دیئے ۔ اس ظلم اور بربریت کیخلاف پوری دنیا میں احتجاج ہوا۔ خصوصاً نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے مسلمانوں نے معافی طلب کرتے ہوئے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھا ۔ اسی سال بھارتی عدالت کی طرف سے بابری مسجد کا فیصلہ مسلمانوں کو بہت دکھ دے گیا ۔ قومی سطح پر ہر دل عزیز فنکارہ روہی بانو کی 25 جنوری ، معروف افسانہ نگار خالد حسین 11 جنوری ، معروف اداکار گلاب چانڈیو 18 جنوری ، معروف ماہر تعلیم اور محقق ڈاکٹر جمیل جالبی کی 18 اپریل کو وفات ،سندھ کے سابق وزیراعلیٰ علی محمد مہر 21مئی ، معروف صحافی ادریس بختیار 29 مئی ، ڈرامہ نگار ڈاکٹر انور سجاد 6جون ، دل دل پاکستان کے خالق نثار ناسق 2 جولائی ، حمایت علی شاعر 16 جولائی ، معروف اداکار عابد علی 5 ستمبر ، معروف براڈ کاسٹر ثریا شہاب 14 ستمبر ، عارفہ شمسہ 14 نومبر ، معروف کرکٹر عبدالقادر 6 ستمبر داغ مفارقت دے گئے ۔ ایک سرائیکی شاعر نے کہا ہے کہ ’’ جانی جُدا تھی ویندن ، ارمان بہہ کریندوں ، پہلے پَہر کہیں دا ، پچھلے پَہر کہیں دا ‘‘ ۔ اگر ہم سرائیکی وسیب کی طرف آئیں تو2019ء میں بہت سی شخصیات جہان فانی کو سدھار گئیں ، ان میں قادر پور راواں خانیوال کے ایم پی اے ملک مظہر عباس راں 16 جنوری ، ہڑپہ کے ارشد لودھی 29 جنوری ، شجاع آباد کے سابق ایم این اے رانا ممتاز احمد نون 12 فروری ، ہارون آباد کے سینیٹر عالم علی لالیکا 17 فروری ، بھیرہ سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر احسان الحق پراچہ 3 فروری ، وائس چیئرمین ضلع کونسل رحیم یارخان مخدوم علمبردار ہاشمی المعروف مخدوم پنوں شاہ یکم مارچ ،بہاولپور سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج شاہد اسلام صدیقی 9 جولائی ، لیہ کے سابق ایم پی اے ملک اللہ بخش سانٹیہ 28 ستمبر ، سابق ایم پی اے مرحوم شیخ خلیل کے جواں سال بیٹے شیخ عامر خلیل 24 اکتوبر ، جھنگ سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر اختر عباس بھروانہ 13نومبر ، اسی طرح دائرہ دین پناہ سے تعلق رکھنے والے سرائیکی کے بہت بڑے ادیب پروفیسر اودے ہنس 27 فروری کو بھارت میں انتقال کر گئے ۔ تونسہ کی علمی و ادبی شخصیت مولانا عبداللطیف 11 اگست ، خانقاہ سراجیہ کالا باغ کے معروف افسانہ نگار محمد حامد سراج 4 دسمبر ، کوٹ سمابہ کے شاعر حکیم شیر محمد خیال 4 دسمبر ، ملتان کے صحافی فردوس ندیم 17 اپریل ، ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر نور الدین جامی 12 جولائی ، معروف نعت خواں محمد یوسف میمن 8 ستمبر ، سرائیکی وسیب کے بہت بڑے سنگر طالب حسین درد 16 مارچ ، معروف فوک سنگر نسیم سیمی 18 مارچ ، ملتان کے معروف براڈ کاسٹر اور شاعر کیپٹن اختر جعفری 25 جنوری ، طارق علوی 23 دسمبر ، ملتان کے معروف پہلوان ماکھا پہلوان 19 جنوری ، بہاولپور میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر جلال حیدر رضوی 24 اکتوبر ، ملتانی سوہن حلوہ کے مالک وحیدالرحمن 11 ستمبر ، رستم ملتان اچھی پہلوان 7 جون ، ملتان کے معروف جھومری عامر گوگی 24 نومبر کو انتقال کر گئے ۔ خانیوال کے معروف عالم دین مولانا عباس اختر 16 جنوری ، مولانا عبداللہ درخواستی کے داماد علامہ عبدالجبار درخواستی 22 جنوری ، تبلیغی جماعت کے مولانا عبدالوہاب 26 جنوری ، دربار حقانیہ اوچ شریف کے سید امان اللہ شاہ حقانی 2 فروری ، دربار مولانا حامد علی خان ملتان کے سجادہ نشین صاحبزادہ قاری احمد میاں نقشبندی 3 فروری ، سابق امیر جمعیت العلمائے اسلام ڈی جی خان حاجی محمد رمضان بھٹی 6 فروری ، ملتان کے عالم دین علامہ رشید احمد چشتی 12 فروری ، میانوالی کی علمی شخصیت محمد نور الزمان شاہ 10 مارچ ، ملتان کے خلیفہ الطاف حسین 21 مارچ ، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما و سابق ایم پی اے بہاولپور سید وسیم اختر 3 جون ، ملتان کے پیر منظور حسین رضوی 20 اکتوبر ، راجن پور میں مقیم خانپور سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین مولانا سیف الرحمن درخواستی 8 نومبر ، وسیب سے تعلق رکھنے والے سابق خطیب بادشاہی مسجد مولانا عبدالقادر آزاد کے داماد مولانا جمیل احمد نقشبندی 11 نومبر ، اسی روز رحیم یارخان کے عالم دین مولانا اللہ وسایا نے بھی وفات پائی ۔ سرائیکی رہنما پرویز مغل 9اپریل اور ملک اکبر 26 ستمبر کو انتقال کر گئے۔ 22 جولائی کو ڈیرہ اسماعیل خان چوک پر فائرنگ، ہسپتال میں خود کش حملہ 10 افراد شہید ہو گئے ۔ 12 جولائی، صادق آباد ، مسافر ٹرین کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی، 21 افراد جاں بحق، 95 زخمی ہوئے۔ہزار دعوئوں کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ جب سے وزیر ریلوے شیخ رشید نے وزارت سنبھالی ہے حادثات میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ یکم نومبر، رحیم یار خان ، تیز گام ایکسپریس میں آتشزدگی 85 مسافر زندہ جل گئے۔ اتنے حادثات کے باوجود وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ یا کابینہ کا کوئی رکن جائے حادثہ پر نہ پہنچا جس پر وسیب کے لوگوں نے کہا کہ کہ آج اگر ہمارا صوبہ ہوتا تو اس طرح کی بے چارگی اور لاچارگی دیکھنے میں نہ آتی۔ نئے سال کا آغاز سرائیکی وسیب کے لئے مبارک ثابت نہ ہوا ۔ پہلی جنوری کو معروف ریسرچ اسکالر ڈاکٹر طاہر تونسوی اور خانپور کی علمی شخصیت فدا الرحمن درخواستی انتقال کر گئے ۔ اگر سال 2019ء میں خواتین کے استحصال کی بات کریں تو اس سال بھی خواتین کے خلاف جرائم کی شرح میں کمی دیکھنے میں نہ آئی ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری تا جون 2019ء تک سندھ کے مختلف حصوں میں 78افراد قتل ہوئے ، جن میں کاروکاری کے 65 کیسز رجسٹر ہوئے ۔ ان ہلاک شدگان میں 50 خواتین شامل ہیں ۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں بھی خواتین کا قتل اور استحصال جاری رہا ، سرائیکی وسیب میں بھی بہت سی خواتین کو قتل کیا گیا اور خودکشی کے واقعات بھی ہوئے ،سب سے زیادہ کاروکاری کے نام پر بلوچستان میں خواتین قتل ہوئیں ۔ ایک سوال یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین کی آبادی نصف سے زیادہ ہے ، مرد مرنے والوں کے نام شخصیات کے طور پر آتے ہیں مگر خواتین کے لئے ایسا کیوں نہیں؟ حالانکہ خواتین صلاحیتوں کے اعتبار سے مرد حضرات سے کسی طور پر کم نہیں۔ امتیازی سلوک کے حوالے سے یہ ایک سوال ہے جسے نئے سال 2020ء کا آغاز خواتین سے امتیازی سلوک کے خاتمے کے طور پر ہونا چاہئے ۔