لوٹ مار اور چور بازاری اور کسے کہتے ہیں! گیس کا بل میرے سامنے ہے۔ توبہ توبہ 7000سات ہزار روپے کا بل اتنا تو سالانہ بل بھی نہیں ہوتا تھا۔ میں کافی دیر تک اسے گھورتا رہا۔900روپے اس میں سیل چارجز ہیں، بقایا جات میں 400روپے دیکھ کر حیرت کیوں نہ ہو کہ پچھلے ماہ تو پورا بل ادا کیا تو پھر یہ بقایا جات کہاں سے آ گئے۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی وی فیس اچانک 34روپے سے بڑھا کر 100روپے کرنے کا رونا رویا جا رہا ہے: اک بات کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے ہر بات پہ رونے کو کہاں سے جگر آئے خان صاحب! آپ لوگوں کو زندہ بھی رہنے دیں گے یا نہیں ۔ ہر طرف ہاہا کار مچی ہے کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں۔ کل میرا چھوٹا بیٹا سائیکل لے کر بازار گیا اور واپس پیدل آیا کہ کسی نے اڑا لی۔ بظاہر یہ عام سی بات ہے۔ مگر غور کریں تو بہت تشویش ناک ہے‘ بے روزگاری اور غربت لوگوں کو ایسے کاموں پراکساتی ہے۔ وہی کہ مرتا کیا نہ کرتا۔ تنخواہ دار طبقے کو آپ نے دیوار سے لگا دیا ہے۔ مافیاز آپ کے قابو میں نہیں آ رہے ہیں تو پھر آپ اپنا منصب چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ اب تو یہ کوئی راز نہیں رہ گیا کہ کچھ چہیتوں نے پہلے گندم باہر برآمد کی اور کچھ نے سمگل کی اور کال پڑا ہے تو وہ گندم مہنگے داموں واپس درآمد کی جائے گی۔ ایک زرعی ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ چینی کے حوالے سے ساری معلومات میڈیا پر چل رہی ہے کہ ملک کی پیداوار کا 50فیصد سے زیادہ حکومت کے خاص حواری پیدا کرتے ہیں اور اب ان کی پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے۔ آج ان کے ثمر بار ہونے کا وقت آگیا جو آپ کی حکومت کے لئے جہاز پر متعلقہ یا مطلوبہ ممبران کو اٹھاتے پھرتے تھے۔ لوگ سب جانتے ہیں کہ عوام کا رس نچوڑ نچوڑ کر کس کو پلایا جا رہا ہے۔ یہ کوئی مسئلہ فیثا غورث نہیں کہ سمجھ میں نہ آ سکے کہ اب نہ تو ڈاکو اور چور ان معاملات میں ملوث نہیں کہ سب کو آپ نے چند یوم جیل میں رکھ کر باہر نکال دیا۔ پھر جو اربوں روپے باہر جا رہے تھے وہ بھی آپ نے آتے ہی روک لئے۔ ضروریات زندگی کو بھی آپ نے مشکل بنا دیا کہ یوٹیلیٹی بلز ہی میں لوگوں کی آمدنی صرف ہونے لگی۔ ٹیکسوں کی بھر مار اور بے تحاشا قرض الگ رہے کہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ اتنا ریونیو اکٹھا ہونے کے بعد بھی عوام کی جان شکنجے میں کیوں؟ غریب دو وقت کی روٹی کو کیسے ترس گیا؟ یہ سارا پیسا کہاں جا رہا ہے۔ میں نے جب لکھا کہ ’’دس کی روٹی پندرہ کا نان تو میں سوشل میڈیا پر لوگوں کا ردعمل دیکھ کر حیران رہ گیا۔ آپ سے محبت کرنے والے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ اس مہنگائی کا جواز پیش کرنے والوں کے الفاظ بھی ان کو ملامت کرتے ہیں بلکہ ان کو بددعا دیتے ہیں۔ ایسے برے حال کبھی نہ تھے۔ میں ننھے بچوں کو جاتے ہوئے دیکھا اور ان کے شعور پر ششدر رہ گیا کہ وہ بسکٹ کے پیکٹوں پر ہنستے ہوئے کہہ رہے تھے ’’تبدیلی آئی رے‘‘ یہ بات سمجھنے کے لئے آپ بچوں کے ٹکی پیک بسکٹ دیکھنا پڑیں گے۔ یقین جانیے انہیں دیکھ کر شرم آتی ہے۔ پہلے ان میں چار بسکٹ ہوتے تھے ‘ پھر تین ہوئے اور اب دو عدد بسکٹ اس پیکٹ میں ہیں۔ سائز بھی ان کا کم ہو کر ٹافی کے برابر رہ گیا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ ان پر بسکٹ ہونے کا الزام ہی ہے۔ باقی معاملات رہنے دیتے ہیں۔ معاً مجھے یاد آیا کہ دوست فون کر کے پوچھتے ہیں کہ قبلہ آپ ہی باتیں کیا کرتے تھے کہ عافیہ صدیقی پر عمران خاں بہت سنجیدگی سے بات کرتے ہیں۔ ٹرمپ سے تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں مگر عافیہ صدیقی پر بات کیا ہوئی ۔ امریکہ کی ثالثی بھی ایک مضحکہ خیز بات ہے کشمیر کے معاملے میں تو یہ ثالثی ہو چکی باقی اللہ خیر کرے۔ ہم چلے ہیں امریکہ اور ایران کی صلح کروانے۔ اپنے ملک کے مسائل تو شاید آپ کسی قابل ہی نہیں سمجھتے۔ آئی ایم ایف اپنے بھڑولے بھر رہی ہے۔ اتحادی اپنا حصہ لینے کے جتن کر رہے ہیں اور اب انہیں ترقیاتی فنڈز کے نام پر کروڑوں روپے دے کر خاموش کروا دیا جائے گا۔ مگر عوام چیخ چیخ کر خود ہی چپ ہو جائیں گے۔ تنخواہ داروں کی تنخواہیں گرانی نے آدھی کر دی ہیں۔ ہر طرف بھوک ناچتی پھر رہی ہے’’بھوک ایسی ہے کہ اعضا کہیں اعضا کو نہ کھا لیں‘‘: کب کہا ہے کہ مجھے فخر ہے اس جینے پر روز اک زخم چمکتا ہے مرے سینے پر ابھی میں رائو جلیل صاحب کی پوسٹ پڑھ رہا تو مسکرا رہا تھا۔ لکھتے ہیں وزیر اعظم نے انکشاف کیا ہے کہ سابقہ حکومتیں امریکہ سے جھوٹے وعدے کرتی رہی ہیں‘ عمومی رائے بھی یہی ہے گویا موجودہ حکومت امریکہ سے سچے وعدے کر رہی ہے۔حسن والوں کی سادگی نہ گئی۔ کرپٹ لوگوں کو تو ملک بدر کر دیا، اب کرپشن پیچھے رہ گئی ہے تو کس کا قصور۔ لوگ اصل میں عادی ہو چکے ہیں کہ اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں۔ سراج الحق نے دلچسپ بات کی ہے کہ ’’ہڑپشن کرپشن سے زیادہ خطرناک ہے‘‘ یقینا کہ غور طلب بات ہے کہ خان صاحب ان ساتھیوں کی طرف نظر کریں جو غیر محسوس انداز میں فائدے اٹھا رہے ہیں اور پالیسیاں اپنے منافع کے مطابق بنا رہے ہیں۔ مثلاً مجھے سوشل سکیورٹی کے حوالے سے معلوم ہوا کہ اس کو بھی کچھ لوگ اپنے حوالے سے چلانا چاہتے ہیں کہ فنڈ تو سوشل سکیورٹی والے پیدا کریں جبکہ اس کا انتظام اور اخراجات متعلقہ لوگ چلائیں گے۔ اورنج ٹرین کا معاملہ بھی سب کے سامنے اور پشاور کی میٹرو کا حال بھی کسی سے چھپا نہیں ہوا ان ساری باتوں کے باوجود ہم حکومت کی بات پر یقین کر لیتے ہیں ۔ آخری گیند تک کھیلیں گے اور تنقید سے بھی نہیں گھبراتے: رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے غم مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں چلیے، آخری بات یہ پاکستان کرکٹ ٹیم سری لنکا کے خلاف اپنا ٹونٹی ٹونٹی کھیلنے جا رہی ہے اور اس خوشی میں یا اس مجبوری میں لاہور کے تعلیمی ادارے بند ہیں بلکہ سب کچھ ہی بند ہو جائے گا۔ آخر کرکٹ بحال ہونے جا رہی ہے چھٹیوں کا کیا ہے وہ تو سردی پڑنے پر بھی پندرہ پندرہ ہو جاتی ہیں۔ یہ زمانہ چھٹیوں کا زمانہ ہے ہمارے زمانے میں تو پہلی چھٹی بھی بند کر دی جاتی تھی۔ یاد آیا کہ ایک این سی سی ہوتی تھی یعنی بچوں یک فوجی تربیت۔ بہرحال کرکٹ میچ ہو اور کسی کو کان و کان خبر نہ ہو یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ وہ لوگ کس قدر فضول ہیں جو کہتے یں کہ ٹیم کو سٹیڈیم میں ہیلی کاپٹر سے اتارا جائے اور دیکھنے والے بھی وہاں پہنچ جائیں۔ میچ کا مقصد لوگوں کو باور کروانا ہے کہ حکومت فارغ نہیں بیٹھی ایک شعر کے ساتھ اجازت: تجھ سے ملنا بھی بہت کام ہوا کرتا تھا روز ہوتی تھیں ترے ساتھ ضروری باتیں