ایک بار پھر امریکہ بہادر گاجر اور چھڑی والی اپنی پرانی خو کے ساتھ پاکستان سے مخاطب ہو رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے کہا ہے کہ ہم آئی ایم ایف کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ پاکستان کو اس لیے قرضہ دے کہ پاکستان چینی کمپنیوں اور چینی حکومت کے قرضے اتارے۔ اسی سانس میں انٹرویو دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ ایسے تعلقات کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے جو دونوں ملکوں کے لیے سود مند ہوں۔ لگتا یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ان کے وزیر خارجہ نے بھی کسی غورو خوض کے بغیر آئی ایم ایف کے بارے میں دھمکی آمیز بیان جاری کر دیا۔ اس بیان پر چین نے اظہار ناراضی کیا ہے مگر بڑے سلجھے ہوئے انداز میں۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کینگ شوانگ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں اسے ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں۔ چین نے بڑے ہی شائستہ انداز میں امریکہ کو دعوت دی کہ وہ جنوبی ایشیا کے علاقائی امن‘ استحکام‘ ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے خطے میں سرمایہ کاری کرے اور تنازعات سے اجتناب کرے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ابھی تک پاکستان نے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج کے لیے کوئی درخواست کی ہی نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ اس سوال پر آتش زیر پا نظر آتے ہیں جو سوال ابھی ہم نے اُٹھایا ہی نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف معیشت کا حلیہ جس طرح بگاڑ کر گئے ہیں اور پاکستان کا بال بال قرضوں میں جکڑ کر گئے ہیں، اس صورت حال سے نمٹنا اور پاکستانی معیشت کو دلدل سے نکالنا کوئی آسان کام نہیں پاکستان کو بار بار کشکول گدائی لے کر آئی ایم ایف کے دروازے پر بھیک مانگنے یا جس کے لیے مہذب لفظ بیل آئوٹ پیکیج لینے کیوں جاتا ہے۔ کوئی بھی ملک اس امداد پیکیج کو، جو دراصل کڑی شرائط کا قرضہ ہے، لینے اس لیے جاتا ہے کہ اس کے داخلی و خارجی قرضے بہت بڑھ جاتے ہیں آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے زمانے میں پاکستان کے بیرونی قرضے 54بلین ڈالر تھے جو اب 89بلین ڈالر ہو گئے ہیں۔ اگلے چند ماہ میں یہ قرضے 90بلین ڈالر تک جا پہنچیں گے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ امدادی قرضے کی تب ضرورت پڑتی ہے کہ جب تجارتی خسارہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ ترقی کا راز تو یہ ہے کہ آپ کی برآمدات زیادہ اور درآمدات کم ہوں، مگر پاکستان میں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ اس وقت ہماری برآمدات صرف 20بلین ڈالر جب کہ درآمدات 50بلین ڈالر سالانہ تک بڑھ چکی ہیں، یوں ہمارا سالانہ تجارتی قرضہ 30بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان پر یہ ساری معاشی عنایات میاں نواز شریف کی شاہانہ اقتصادی پالیسیوں کی بنا پر ہوئی ہیں۔ میاں صاحب کے دور میں 35بلین ڈالر قرضہ لیا گیا جو زیادہ تر غیر ترقیاتی سکیموں پر خرچ ہوا۔ تیسرا سبب زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے۔ اس وقت ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اسی طرح خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں جیسے گزشتہ دنوں ہمارے ڈیموں کی آبی سطح بہت ہی تشویشناک حد تک نیچے چلی گئی تھی۔ آج ہمارے پاس زرمبادلہ کل ذخائر 9بلین ڈالر ہیں۔ یہاں اہل پاکستان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہ وہی 9بلین ڈالر ہیں جو اوورسیز پاکستانیز نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران اپنے پیارے وطن کو بھیجے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضوں کی ایک اور وجہ اپنی کرنسی کی قدر میں کمی ہے۔ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران روپے کی قیمت میں چار بار کمی کی گئی۔ پچھلے دنوں اوپن مارکیٹ میں ڈالر 130روپے کا ہو گیا تھا جو عام انتخابات کے بعد 122روپے تک نیچے آ گیا ہے۔ پاکستان نے کتنی بار آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لیا؟ پاکستان نے 12مرتبہ یہ پیکیج لیا۔ مگر اپنی معیشت کو سنوارنے کی بجائے ہم قرض کی مے بار بار پیتے رہے۔ ایسی ’’فاقہ مستی‘‘ یا حال مستی بالآخر رنگ لاتی ہے اور سرعام رسوا ہونا پڑتا ہے۔ یہی اس وقت پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پہلی بار ہم نے یہ پیکیج 1980ء میں لیا اور آخری بار 2013ء میں لیا۔2013ء میں میاں نواز شریف کی حکومت نے 6.6بلین ڈالر کا امدادی قرضہ یہ کہہ کر آئی ایم ایف سے لیا کہ ہم اپنی ٹیکس بیس کو وسیع تر کریں گے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ٹیکس وصول کر کے خزانے میں خاطر خواہ اضافہ کریں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب تک آئی ایم ایف سے سب سے بڑا امدادی پیکیج 2008ء میں لیا گیا جو 7.6بلین ڈالر تھا۔ اب مختلف اداروں کے حوالے سے یہی سننے میں آ رہا ہے کہ پاکستان کو 10سے 15بلین ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ امریکہ کی دھمکیاں اور بھبھکیاں کوئی نئی بات نہیں ایسا ہر بار ہوتا ہے۔ ذاتی‘ قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت کم ایسے قرض خواہ ہوتے ہیں کہ جو طالب قرض کی عزت نفس کا بھی خیال کریں،اسے بہت کچھ سننا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنی معیشت کو اپنے پائوں پر کیوں کھڑا نہیں کر سکے۔ہمارا برادر ملک ترکی بھی آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لیا کرتا تھا مگر پھر ترکی نے طیب اردوان کی قیادت میں وہ نسخہ دریافت کر لیا جس کے بعد اسے بیرونی قرضوں سے نجات مل گئی۔ جس کے بعد ترکی لیرا بہت مضبوط ہو گیا ان کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے اور پھر ترکی نے فخریہ آئی ایم ایف سے کہا کہ اب ہمیں تمہارے امدادی پیکجز کی ضرورت تمہیں اگر قرضہ چاہیے ہو تو ہم بخوشی دے سکتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستانیوں کے اربوں ڈالر بیرونی بنکوں میں پڑے ہوں اور حکومت در در امدادی قرضہ مانگتی پھر رہی ہو اور طرح طرح کے طعنے سن رہی ہو۔ ہمارے حکمرانوں نے قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگایا تو لوگوں نے بہت ڈالر بھیجے مگر پھر بھی کم تھے۔ کیا سبب ہے کہ یہ مہم بھی حسب ضرورت ڈالر ملک کے اندر نہ لاسکی۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جب آپ خود آگے بڑھ کر اپنے غیر ملکی خزانے کو واپس اپنے وطن نہ لائیں گے اور پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک لے جائیں گے تو پھر یہ جذباتی نعرہ زیادہ دیر تک کام نہیں دے سکتا۔ ان دنوں بہت سے کالم نگار قومی مصالحت اور معافی تلافی کی بات کر رہے ہیں اور سابق حکمرانوں کو راہ نجات دکھاتے ہوئے ان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ بیرون ملک پڑی دولت پاکستان لائیں تاکہ ہمیں غیروں سے قرض نہ لینا پڑے بعض حضرات نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی بات کی ہے۔ ایک بات واضح ہو جانی چاہیے کہ میاں نواز شریف اینڈ فیملی اس وقت جس افتاد سے دو چار ہے، وہ خالصتاً کرپشن کے مقدمات سے متعلقہ ہے۔ بلا شبہ ان کے دور حکومت کے آخری ایام میں سول اینڈ ملٹری ریلیشن شپ بھی کچھ مسائل و معاملات سے دوچار ہوئی مگر اس معاملے کو ہی تمام افتاد کا مرکزی سبب قرار دینا بہت بڑی ناانصافی ہو گی۔ جوں جوں لیلائے اقتدار سے وصل کی گھڑیاں قریب آ رہی ہیں توں توں عمران خان کو بھی اندازہ ہوتا جا رہا ہو گا کہ وزارت عظمیٰ صرف پھولوں کی سیج نہیں، اس سیج کے اردگرد وادی پرخار بھی ہیں۔ مسئلہ کوئی ایک نہیں بہت ہیں۔ علاقائی مسائل‘ بین الاقوایم تعلقات کے مسائل‘ داخلی سیاسی مسائل‘ آبی مسائل‘ تعلیمی مسائل مگر اس وقت ام المسائل وہی اقتصادی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک تو فوری بیل آئوٹ پیکیج لینا ہو گا اس پیکیج کے بغیر چارہ نہیں اس لیے دل میں یہ سوچ کر پیکیج کے لیے کوشش کی جائے کہ یہ آخری پیکیج ہو گا اس کے بعد ہم کبھی کشکول گدائی لے کر اس در پر دستک نہیں دیں گے اور اپنے لیے سامان صد رسوائی کا سبب نہیں بنیں گے۔ اس رسوائی سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟ طریقہ حاضر ہے۔ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے اس بار تو بالآخر ہمیں نیویں نیویں ہو کر یہ پیکیج لینا ہی پڑے گا البتہ اپنے ’’ہمدم دیرینہ ‘‘ امریکہ سے اتنی بات تو ضرور کہہ دیں کہ حضور! آپ ہمیں اس سوال پر دھمکیاں دے رہے کہ وہ سوال جو ابھی ہم نے کیا بھی نہیں