امریکی محکمہ انصاف نے تقریباً سولہ سال بعد سزائے موت بحال کردی ہے اور پانچ قیدیوں کے لئے سزائے موت کی تاریخ کا اعلان بھی کردیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مامور کردہ امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار کے مطابق سزائے موت کے قانون کی سولہ سال بعد بحالی صدر ٹرمپ کے خصوصی حکم پہ کی گئی ہے جس میں انہوں نے پرتشدداور غیر انسانی جرائم جیسے قتل، اغوا، آبروریزی کے مرتکبین کو سزائے موت کا حق دار قرار دیا ہے۔ اس سے قبل امریکہ کی بیس ریاستوں کے علاوہ باقی ریاستوں میں سزائے موت کا قانون موجود تھا تاہم نیا قانون منظورہونے کے بعد اس کا اطلاق وفاقی سطح پہ کردیا جائے گا۔ امریکی ریاستوں میں جہاں یہ قانون موجود نہیں ،وہاں اس کا اطلاق نہیں ہوگا البتہ وفاق کی حدو د میں ہونے والے ان جرائم پہ سزائے موت دی جائے گی جن کا ذکر صدارتی حکم میں موجود ہے۔در حقیقت آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت سزائے موت معطل کردی گئی تھی، اس کے باوجود 14 ریاستوں میں 2010 ء سے لے کر اب تک 200 قیدیوں کو سزائے موت دی جاچکی ہے۔اس وقت وفاق کے 62 جبکہ ریاستوں کے 2600 مجرم سزائے موت کے منتظر ہیں۔آخری بار سزائے موت 2003 میں دی گئی تھی۔ نئے قانون یعنی سزائے موت کی بحالی کا اطلاق صرف وفاقی مجرموں پہ ہوگا۔ دراصل سزائے موت کی معطلی بھی اس بنیاد پہ ہوئی تھی کہ امریکہ میں اس کا اطلاق نہایت دردناک اور بہیمانہ طریقے سے پینٹورباربیٹل نامی زہر کے یکے بعد دیگرے تین انجیکشن لگا کر کیا جاتا تھا جس پہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو تحفظات تھے۔ اب یہ انجیکشن تین نہیں ایک ہی بار لگائے جائیں گے جس سے مجرم کی تکلیف تو شاید کم ہوجائے لیکن حقوق انسانی کی تنظیموں کی تکلیف کم نہیں ہورہی اور وہ سزائے موت کی بحالی پہ سراپا احتجاج ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ میں قتل و غارت گری کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی سرپھرا کسی نہ کسی اسکول یا سپر مارکیٹ میں گھس کر کئی معصوم شہریوں کو ہلاک کر دینا ہے ۔ بعد ازاں عدالت اسے نفسیاتی مریض قرار دے کرذہنی بحالی مرکز بھیج دیا کرتی یا سات سال وہ مزے سے جیل کی روٹیاں توڑتا اور سزا پوری ہونے پہ فاتحانہ باہر آتا اور اس نظام انصاف کو دعائیں دیتا جس نے اس کی جان بچائی۔صورتحال یہ ہے کہ 1968 ء اور 2011 ء کے درمیان امریکہ میں بندوق اور پستول کا نشانہ بننے والے افراد کی تعداد تمام جنگوں میں ہلاک ہونے والے امریکیوں سے تجاوز کر گئی ۔صرف 2019 ء میں جو ابھی اپنے نصف کو پہنچا ہے،امریکہ میں اجتماعی قتل یا ماس شوٹنگ کے 196 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں اتنے ہی افراد قتل کئے گئے۔ ان میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی کیونکہ یہ واقعات زیادہ تر اسکولوں اور سپر مارکیٹوں میں ہوئے۔ بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات تو سرخیوں میں جگہ بنا لیتے ہیں، لیکن امریکہ میں چھوٹے پیمانے پر فائرنگ سے بھی ہلاکتوں کے واقعات بہت زیادہ ہیں اور اکثر یہ رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ صرف 2016 ء میں آتشیں ہتھیاروں سے تقریباً 12 ہزار 223 افراد ہلاک اور 24 ہزار 722 زخمی ہوئے ہیں۔یہ تعدادبڑھتی ہی جارہی ہے۔ امریکہ میں گن کلچر بھی ایک عرصے سے زیر بحث ہے اور اسے چھیڑنا امریکی سوسائٹی کے غیض و غضب کو آواز دینا ہے۔1971 ء میں کی جانے والی امریکی آئین کی دوسری ترمیم کے تحت ہر امریکی شہری کو اسلحہ رکھنے کا آئینی حق حاصل ہے۔جب بھی اس آئینی حق کو تبدیل کرنے کی بات کی جاتی ہے، امریکہ میں ایک طوفان کھڑا ہواجاتا ہے۔ اس سارے ہنگامے کے پیچھے این آر اے یا نیشنل رائفل ایسو سی ایشن نامی تنظیم ہے جس کے پچاس لاکھ سے زائد ممبر ہیں۔ یہی تنظیم امریکی صدور کے لئے پی اے سی یا پولیٹیکل ایکشن کمیٹی کے طور پہ بھی کام کرتی ہے جو صدارتی امیدوارو ں کے لئے بھاری فنڈنگ کا انتظام کرتی ہیں۔نیشنل رائفل ایسو سی ایشن نے صدر ٹرمپ کی صدارتی مہم کے لئے خطیر سرمایہ فراہم کیا تھا۔ صدر اوباما اگرچہ گن کلچر کے خلاف رہے لیکن وہ اس سلسلے میں جذباتی تقریروں سے زیادہ کچھ نہ کرسکے۔ ایک موقع پہ انہوں نے اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ گن کلچر امریکی سماج کا حصہ بن گیا ہے۔امریکہ نہ ہوا علاقہ غیر ہوگیا۔2012 میں عین اس وقت جب صدر اوباما اپنی صدارتی مہم چلارہے تھے، امریکی شہر ارورا میں سینما پہ فائرنگ کے واقعہ میں بارہ افراد ہلاک ہوگئے۔صدر اوباما اور ری پبلکن امیدوار مٹ رومنی نے تعزیت کے طور پہ اپنی انتخابی مہم معطل کردی لیکن حیرت انگیز طور پہ دونوں بھلے مانس گن کلچر پہ ایک لفظ نہ بولے۔یہ اپنی ہی عوام کے جان و مال کے تحفظ کے مہذب علمبرداروں کا منافقانہ طرز عمل تھا۔مغربی جمہوریت کو رواں دواں رکھنے کے لئے سرمائے کی ضرورت تھی ۔وہ سرمائے کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے لہذہ عوام کے آئے روز بہنے والے خون ناحق پہ ان کی مجرمانہ خاموشی اور گلوگیر منافقانہ بیانات بیک وقت جاری تھے۔ اس بار صدر ٹرمپ نے بھی اپنی فنڈ ریزر نیشنل رائفل ایسی سوایشن کو ناراض کرنے کا رسک تو نہیں لیا لیکن کم سے کم ایسے واقعات کے مرتکبین کیلئے سزائے موت کی بحالی کا قدم ضرور اٹھایا ہے۔یعنی آپ شوق سے اسلحہ رکھیں لیکن اسے معصوم لوگوں پہ استعمال کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ پینٹورباربیٹل کا زہریلا انجکشن آپ کا مقدر ہو سکتا ہے۔اس طرح سرمایہ مہیا کرنے والی تنظیم تو محفوظ و مامون رہے گی البتہ اسلحہ استعمال کرنے والا عام شخص اپنے کئے کی سزا ضرور بھگتے گا۔اس سے امریکی معاشرے میں سزا کا خوف تو جنم لے گا لیکن سرمائے پہ آنچ بھی نہیں آئے گی۔ شرعی تعزیرات حقوق انسانی کی تنظیموں اور مغرب کی مہذب دنیا کی آنکھ میں کسی کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں۔ کسی لالچ اور خوف کے بغیر حدود الہی کا نفاذ ہی ایک محفوظ و مامون معاشرے کی ضمانت ہے جہاں حکومت سازی کے لئے جائز یا ناجائز سرمائے کے حصول کی فکر نہ کرنی پڑے۔ تعزیرات شریعہ میں ہی ایک قصاص بھی ہے۔ جان کے بدلے جان،دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ کا بے دھڑک اور دوٹوک قانون ہی ایک عام شہری کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد الہی ہے کہ اے اہل دانش وخرد!تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔سورۃمائدہ میں ارشادہوا۔ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے، پھر جو شخص اس کو معاف کردے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے فرمان کے مطابق حکم نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں۔ ظالموں کی قسمت میں بدامنی ہی لکھی ہے جنہیں بعد از خرابی بسیار سزائے موت بحال کرنی پڑی ہے۔