وہ کچھ سنتا تو میں کہتا‘مجھے کچھ اور کہنا تھا وہ پل بھر کو جو رک جاتا مجھے کچھ اور کہنا تھا غلط فہمی نے باتوں کو بڑھا ڈالا یونہی ورنہ کہا کچھ تھا وہ کچھ سمجھا مجھے کچھ اور کہنا تھا بعض اوقات یہ غلط فہمی ٹھیک فہمی ثابت ہوتی ہے اسی لئے ہمارے دوست تیمور حسن نے کہا تھا غلط فہمی میں مت رہنا۔ دیکھا جائے تو سبھی کی غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں۔ اب تو سب تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں کہ لیڈران بھی بیماری کے بہانے سستا رہے ہیں اور بے چارے اینکر چینلز کا پیٹ بھرنے کے لئے پانی میں مدھانی ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ لسی بھی تو لڑائی کی طرح ہے کہ جتنی مرضی بڑھا لو۔ دو چیزیں اور بھی اس کیٹیگری میں آتی ہیں کہ جن کا کوئی انت نہیں ہوتا‘وہ ہیں بھوک اور نیند ۔ آپ اب مثال مانگیں گے تو بھوک کی مثال ہمارے سیاستدان اور مقدس لوگ ہیں جن کی بھوک مٹتی ہی نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ سلام کا واقعہ یاد آ جاتا ہے کہ جب سمندر سے ایک جانور نکلا تھا اور سب کچھ ہڑپ کر گیا تھا۔ انگریزی محاورے کے مطابق کچھ لوگوں کے معدے ان کے جسم سے بڑے ہوتے ہیں۔نیند بڑھانے والی بات تو پوری قوم پر صادق آتی ہے کہ وہ بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لیتی: ٹھیک کہتے ہو مری بات گراں ہے تم پر سونے والوں کو برے ہیں یہ جگانے والے حکومت پھر بھی کچھ نہ کچھ کرنے میں مصروف ہے اور کچھ نہیں تو حفیظ شیخ کو فارغ کر دیا گیا۔ان پر بھی برا وقت آیا اور یہ برا وقت اکیلا نہیں آتا۔حفیظ شیخ کی جگہ حماد اظہر کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا ہے۔اس پر سب حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ حماد اظہر کے تو فرشتوں کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی عزت افزائی ہونے والی ہے۔ ویسے کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اس حکومت میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ کس کی لاٹری نکل آئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مہنگائی کے باعث حفیظ شیخ کو ہٹایا گیا۔ جتنی مہنگائی ہوئی ہے اس حساب سے تو پانچ دس وزیروں کو ہٹانا بھی ناکافی تھا۔ میری دست بستہ ایک عرض ہے کہ خدا کے لئے ریلیف کا لفظ استعمال کرنا بند کر دیں کہ یہ قوم آپ کی ریلیفوں کی ماری ہوئی ہے اور اگر اس پر وزیر اعظم نوٹس بھی لے لیں تو سمجھو پکے پکے مارے گئے۔ ایک چھوٹی مثال ہی قوم کی آنکھیں کھول دیتی ہے کہ وزیر اعظم کے انٹرٹینمنٹ کی مد میں اکاون کروڑ رکھا جاتا تھا جسے خان صاحب نے سختی سے بند کر دیا تھا پھر تیرہ کروڑکیا گیا اور مزید ڈیمانڈ رکھ دی: خاکساری اپنی کام آئی بہت ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا ایک عجیب سی مضحکہ خیز صورت حال ہے جہاں بیان خبریں اور باتیں اپنے مفہوم سے الگ ہوئی جاتی ہیں ۔مثلا وزیر جیل خانہ جات بیان داغتے ہیں کہ بزدار صاحب کے دور میںمیں مثالی ترقی ہو رہی ہے۔ جیل خانہ جات کے ایک سابقہ وزیر نے کہا تھا کہ وہ اپنے ملک کو جیلوں کے حوالے سے ایسے ترقی دیں گے کہ ملک بھر میں جیلوں کا جال بچھا دیں گے۔باقی رہی بات مثالی ترقی کی۔یوسف مثالی کا شعر ضرور یاد آ جاتا ہے کہ: لوٹنے والے کاش میری سچائی لوٹ کے لے جائیں بچے بھوکے سو جائیں تو کیا کرنا اعزازوں کا ایک بہت ہی گھسا پٹا فقرہ ہے کہ وہ عوامی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑیںگے ۔مکھی پر مکھی مارے چلے جا رہے ہیں۔ یا تو کوئی شعیب بن عزیز جیسا ترجمان ہو یا عرفان صدیقی جیسا تقریر نویس۔ ایسے ہی بار بار کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم مہنگائی کے خلاف جہاد کریں گے اور اس جہاد میں عوام میں سے لوگ شہید ہو جاتے ہیں حکومت کی کارکردگی ٹرانسفرز میں ایسے نظر آتی ہے کہ جیسے یہ نظام دوڑ رہا ہے اور سوائے سرکاری تبادلوں کے اور کچھ نہیں ہو پاتا۔مجھے بہت ہی حیرت ہوتی ہے کہ بچے بچے کو سیاسی شعور مل چکا ہے۔ چودہ پندرہ سال کا میرا سب سے چھوٹا بیٹا کہہ رہا تھا ابو کیا آپ کو واقعتاً کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی؟آپ اچھی بری کو چھوڑیں۔ خان صاحب نے وعدہ صرف تبدیلی کا کیا تھا۔بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے: میری آنکھ میں جو سما گیا سرِ آب نقش بنا گیا کہاں چاند باقی بچے گا پھر جو کسی نے پانی ہلا دیا حکومت کے لئے سب سے بڑا مسئلہ کورونا ہے۔ عوام کو بچنا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے اب شیر نے کرنا ہے آپ بلی تو نہیں کہ درخت پر چڑھ جائو گے۔ آپ سراج الحق صاحب کوجتنا مرضی درویش سمجھیے مگر ان کے بیان میں تلخ سچائی ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کورونا کے دوران حکمران خوشحال ہو گئے اور عوام کنگال۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس وبا کو ختم کر دے ۔ سٹیٹ بنک والا معاملہ معمولی نہیں کہ گویا اپنے ہاتھ کاٹ کر اپنی بقا کو دائو پر لگا رہے ہیں۔کیا آپ نے بھی کچھ لکھ کر دے رکھا ہے اس پر عوام باہر بھی نکل سکتے ہیں۔ ویسے حکومت کی چالاکی پر ہنسی آتی ہے۔ غالب نے کہا تھا: غیر پھرتا ہے لئے یوں ترے خط کو کہ اگر کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے ایک اور بات پر حیرت ہوتی ہے کہ جب بھی مہنگائی کی خبر آتی ہے تو یہ ضرور کہتے ہیں کہ ٹماٹر کو آگ لگ گئی۔ ٹھیک ہے مگر صرف ٹماٹر ہی تو مسئلہ نہیں۔چلیے ٹماٹروں کے مہنگا ہونے سے حکمران محفوظ رہیں گے۔ہر شے مہنگی ہو چکی ہے اور ابھی بجلی کے جھٹکے پھر سے لگنے والے ہیں۔ موجودہ مہنگائی سابقہ حکومت کی کرپشن کے باعث ہے موجودہ لوگوں کی کرپشن کے باعث کیا ہو رہا ہے؟ ابھی ایک فضول سا اینکر پروگرام کر رہا تھا کہ بلوچستان حب میں شراب کی فیکٹری لگانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس سے پہلے حکومت پنجاب نے ایک ہوٹل والے کو شراب کا پرمٹ بھی دیا تھا۔ وہ ہوٹل جو ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا۔ یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے اس پرمٹ پر محمد علی خاں حیرت کا اظہار کر رہے تھے کہ شراب کی فیکٹری کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔کابینہ میں تو کوئی ایسی بات نہیں آئی۔حسن عباس رضا کا ایک شعر: وہ میرے خواب تھے دشمن کی کشتیاں تو نہ تھیں کسی کو دھیان نہ آیا انہیں ڈبوتے ہوئے