ماہ و سال کی برق رفتاری۔۔۔ منزلوں پہ منزلیں سَر کئے جا رہی ہے، ابھی نیا سال شروع ہوا تھا اور آج ختم ہونے کو ہے، اسی کیفیت اور صورت حال کی نبی اکرم ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے نشاندہی فرماتے ہوئے ، اسے قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دے کر، فرمایا تھا کہ دنوں ، ساعتوں اور لحظوں میں برکت اتنی کم اور وقت اس قدر تیزی سے گزرے گا کہ سال ۔مہینے کی طرح ، مہینہ۔ ہفتہ کی طرح، ہفتہ ۔دن اور دن۔ گھنٹے کی طرح۔۔۔۔ اور گھنٹہ اتنا مختصر جیسے آگ کا شعلہ۔۔۔۔۔ جو فوراً ہی جَل کر بُجھ جاتا ہے۔ ؎ رَو میں ہے رَخش عمر، کہا دیکھیے تھمے نَے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں آج جو سال اختتام پذیر ہونے کو ہے ، وہ سنِ عیسوی ہے ، جو شمسی سال بھی کہلاتا ہے، جس کا آغازجنوری اور اختتام دسمبر پہ ہوتا ہے۔ سن عیسوی کی نسبت حضرت عیسیٰ ؑکی ولادت سے ہے، موجودہ سنِ عیسوی کی باقاعدہ ترتیب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے کئی سال بعد ، عمل میں آئی ۔بہر حال اس وقت پاکستان سمیت ، دنیا کے غالب حصے میں یہی کیلنڈر مروج، اور اسی کے مطابق آج شب، دنیا نئے سال کے جشن میں مستغرق ہوگی۔ ہمارے ہاں کا دیسی کیلنڈر "بکرمی"ہے، جس کے آغازکا عہد "زمانہ قبل ازمسیح"ہے ۔معروف ہے کہ یہ کیلنڈر یہاں کے قدیم بادشاہ "وکرم"سے موسوم ہے، جو بعد میں "بکرم"، اورپھر اسی سے "بکرمی"ہوا۔ سکھ مذہب چونکہ ہمارے اسی خطہ کی پرداخت ہے، اس لیے ان کی ساری مذہبی رسومات اسی کیلنڈر کے مطابق ہیں۔ہمارے دیہاتی کلچر میں، آج بھی موسموں کی خوشبو ان مہینوں سے بندھی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل برصغیر میں یہی کیلنڈر رائج تھا۔ ازاں بعد ہجری کیلنڈر اور پھر عیسوی تقویم مروج ہوگئی، جو تاحال جاری ہے۔ حُسنِ اتفاق کہ یہ تمام کیلنڈر بارہ مہینوں ہی پر مشتمل ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے بھی مہینوں کی تعداد قرآن پاک میں بارہ ہی بیان فرمائی ہے۔ سورۃ التوبہ کی آیت 35 میں ارشاد ہے: اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اﷲِ۔۔۔۔ "بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعدادبارہ ہے، کتاب الہٰی میں۔۔۔" شمسی اور بکرمی کیلنڈر ۔۔۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ، ایک دوسرے سے وابستہ رہتے ہیں، پوہ ہمیشہ دسمبر ہی میں آتا ہے اور ساون بھادوں، جولائی اگست میں ، لیکن قمری اور اسلامی کیلنڈر میں اللہ تعالیٰ نے یہ تنوّع رکھا ہے کہ اس میں ماہِ رمضان۔۔۔ مئی، جون کے تپتے ایام میں اور کبھی یہ نومبر، دسمبر کے ٹھنڈے موسم میں آجاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ، نئے سال اور ماہ کی آمد کے موقع پر جو دُعا تعلیم فرمائی، وہ امن ، حفاظت ، اللہ کی رضا ، سلامتیٔ ایمان کے جذبوں سے مامور اور شیطان اور شیطانی کاموں سے محفوظ رہنے کی ہے۔ "اَللّٰہُمَّ أَدْخِلْہُ عَلَیْنَا بِالأَمْنِ وَالإِیْمَانِ وَالْسَّلَامَۃِ وَالإِسْلَامِ وَرِضْوَانِ مِّنَ الْرَّحْمٰنِ وَجِوَارِ مِّنَ الشَّیْطَان" کل کا طلوع ہونے والا سورج۔۔۔ جو نئے سال کا سورج ہوگا، نئی امنگوں ، جذبوں اور ولولوں کے ساتھ طلوع ہوگا، خدا کرے اس آنے والے سال میں ہماری سوسائٹی کے دردوں کا درمان ہو، کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہمارا معاشرہ ، سماجی ، سیاسی اور اقتصادی سطح پر شدید دباؤ کا شکار ہے، جس سے نکلنے کی تمنا ہر دردمند پاکستانی کے دل میں بَسی ہوئی ہے ۔ حکیم الامت حضرت اقبال نے نکلسن کے نام اپنے خط میں بھی یہی لکھا تھا کہ میرے فکر وفلسفہ کا بنیادی مقصد بھی صرف یہی ہے کہ میں اپنے معاشرے کی ایسی سماجی تنظیم نو (Social Reconstruction) چاہتا ہوں، جس میں ہم مادیت کی بجائے روحانیت کو ترجیح دینے کی استعداد کے حامل ہو سکیں۔ اس کا مطلب ترکِ دنیا یا خانقاہ نشینی نہیں، بلکہ اس سے مراد اپنے مفاد پر سوسائٹی اورقوم کے مفاد کو ترجیح دینا ہے۔ ہمارا ہر عمل مادی مقاصد کی بجائے اعلیٰ تر انسانی اقدار کی ترویج اور سربلندی کے لیے ہو۔ ہمارے سماجی اور معاشی بحران کا اصل سبب بھی دراصل اخلاقی تنزل ، بدا نتظامی اور بدعنوانی ہے، جس کے سبب ایک طرف ہماری معیشت اور دوسری طرف ہمارا مجموعی وجود ہے۔۔۔۔جو کھوکھلا ہو کر رہ گیا۔ جان ایف کینڈی نے 1963ء میں امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا : "ہمیں زندگی میں سال جمع نہیں کرنے چاہئیں، بلکہ مہ وسال میں زندگی جمع کرنی چاہیے"۔ امریکہ ہی سے یاد آیا کہ دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح ہمارے ملک کی اقتصادی ترقی اور استحکام کا انحصار بھی ڈالر کے مضبوط اور مستحکم ہونے پر ہے ۔ گذشتہ چند مہینوں میں ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی کی ارزانی یقینا تشویشناک ہے، یہ درست ہے کہ کشکول دراز کرنے ، ہاتھ پھیلانے ، قرض لینے یا امداد مانگنے سے ڈالر کی قیمت نیچے آسکتی ہے، لیکن ایسے امور کی انجام دہی اور جلد بازی سود مندنہ ہوگی۔ وطن عزیز کے فارن کرنسی کے ریزور کسی کی امداد یا قرضوں سے نہیں بلکہ بیرون ملک پاکستانیوں کی ان رقوم سے حاصل ہوتے ہیں جو وہ اپنے پیاروں کو پاکستان بھیجتے ہیں ۔ یہ وہ حقیقت ہے جو One Time Grantیا قرضہ نہیں، اس پر انحصار کیا جاسکتا ہے۔ رواں سال میں ، ارسطو کا یہ قول وقتی طور پر موقوف ہوتا محسوس ہوا، جس میں اس نے لکھا تھا کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات یعنی چھوٹے مَوٹے کیڑے مکوڑے ہی پھنستے ہیں ،جبکہ طاقتور جانور اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ پسِ پردہ محرکات سے غرض نہیں، البتہ اس امر پر یقین ہونے لگا کہ اگر ادارے مضبوط ہوں، تو ان کے آگے بڑے سے بڑامقتدر اور معتبر بھی بے بس ہو سکتا ہے۔ قانون کی حکمرانی اور عدل اجتماعی ۔۔۔ یہ وہ خواب ہے جس کی سچی اور صحیح تعبیر ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ سال 2019ء سے بہت سی امیدیں ہیں کہ اللہ کرے یہ سال وطن عزیز میں امن و آشتی کا امین اور روادارانہ فلاحی معاشرے کی تشکیل کا پیغامبر ہو، میرا دیس معاشی اور اقتصادی بد حالی سے نکل کر ترقی ، ارتقا اور عروج کی منزلوں سے آشنا ہو۔ "سی پیک" کے ذریعے جس سرمایہ کاری اور خوشحالی کی نوید اور امید ہے، اس کی شروعات ۔۔۔بلکہ اس کے ثمرات اس دھرتی کے سینے کو منور کریں، یہاں کا کسان خوشحال ہو، مزدور کے چہرے سے بھی آسودگی کی کرن پھوٹے ، ہمارے محراب ومنبر سے "سَلَامٌ قَولاً مِّنْ رَّبِّ رّحِیْم"کی آوازیں گونجیں،نفرتوں کی جگہ محبتیں پروان چڑھیں ، مذہب کے نام پر تشدد اور بلیک میلنگ کا خاتمہ ہو ،رشتے مضبوط اور محبتوں میں ایفا اور وفا مستحکم ہو، دعائیں پایۂ قبول کو پہنچیں ۔اور یقینا ۔۔۔ایک نہ ایک دن میری ارض پاک پر وہ فصلِ گل اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ ضرور اُترے گی ، جس میں کمال ہی کمال ہو اور عروج ہی عروج ۔ شیلے نے کہا تھا : "جب خزاں آتی ہے۔۔۔ تو بہار بھی دور نہیں ہوتی"