دنیا جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گری ہوئی تھی۔ عقل اور خِرد کے ہوتے ہوئے انسانیت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی اور روحانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں تھی۔ بالخصوص دنیائے عرب تو اس تھرڈ کلاس کی سوسائٹی کا منظر پیش کر رہی تھی جہاں کمزوروں کو انسان کے نام سے پکارنا عار اور طاقت سب کچھ سمجھا جاتا تھا۔ جب ہر حد سے تجاوز فخر ٹھہرا اور خوئے ابلیسی انسانیت کی طرف منتقل ہونے لگی۔جب اشرف المخلوقات کا حسین لقب بھی انسان کے لئے نامناسب ٹھہرا تو رب کائنات کی حکیم ذات کو اس بیمار معاشرے اور قابل رحم سماج پر ترس آیا اور ایک ایسے مسیحا کو مبعوث فرمایا جسے دنیا مسیحائے اعظم ﷺکے نام سے جانتی ہے۔ہاں اس مسیحائے اعظم کا نامہ مبارک محمد ﷺہے جو چودہ سو اڑتالیس برس قبل آج ہی کے دن حضرت عبداللہ اور اماں حضرت آمنہ کے گھر پیدا ہوئے۔ لاریب، آپ ﷺ کی بعثت اس نیست جہاں کے لئے ایک ایسی ہستی ثابت ہوئی جس کے طفیل اللہ تعالی نے انسان کو ایک مرتبہ پھر ذلت سے نجات دے کر شرف اور کرامت سے نوازا۔ آپ ﷺ ایک ایسے شہنشاہ تھے جن کی پہچان درویشی اور عاجزی تھی اور ایک ایسے ناز پرور تھے جن کا حلقہ خدام اور غلاموں سے ہر وقت خالی رہتا تھا۔ جو شکم مبارک کو غذا سے سیر کرنے کی بجائے پتھر باندھنے سے بہلاتے۔ جو یتیموں کا مولیٰ تھا، غریبوں کی مرادیں بر لانے والا تھا اور جو خطاکاروں سے درگرز کرتے تھے۔جن کے وعظ سے مس خام کندن بنے اور جن کے شفقت بھرے رویے نے پکے دشمنوں کو دوست بنا دیا۔ مس خام کو جس نے کندن بنایا کھرا اورکھوٹا الگ کر دکھا یا (حالی) اعلی اخلاق اور حمیدہ اوصاف کی رفعتوں پر متمکن اس بشر اطہر کے بارے میں کلام اللہ خود گواہی دیتا ہے کہ انک لعلی خلق عظیم بلاشبہ، آپ اخلاق کے بلند مرتبے پر فائز ہیں - خود آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں ۔ قرآن کی گواہی سے قطع نظر آپ ﷺ کی تریسٹھ سال پر مشتمل مکی اور مدنی زندگی یہ گواہی دیتی ہے کہ سردار مرسلین کی ذات شریفہ وفا کا پیکر ، صبر کا کوہسار، بردباری اور درگزر کا پتلا ، استغنا و قناعت کا بحر بیکراں اور شرم وحیا کا ایک بے مثل نمونہ تھی۔دین متین کی تبلیغ و ترسیل کے بارگراں کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے آنجناب ﷺ نے ایسے دلربا اور نفیس طریقے کو اپنا وطیرہ بنایا جس سے بلا کے شقی القلب اور غضب کے ہٹ دھرم انسانوں کے دل بھی دفعتا مسخر ہو جاتے۔ آپ ﷺ کے اعلی اخلاق ہی کا کرشمہ تھا کہ لوگ گروہ درگروہ اسلام کے حلقہ بگوش ہوتے رہے اور اس مکمل ضابطہ حیات کو آگے لے جانے میں آپ ﷺ کے ہم سفر بن جاتے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آقائے دوجہاں ﷺ کے لائے ہوئے دین کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی بنیادی وجہ ہی یہی تھی کہ آپ ﷺ نے اس کا خود بھی عملی نمونہ پیش کرکے بتادیا کہ ’’ یوں ‘‘۔ اسی لئے آج مائیکل ہارٹ، ولیم مور، تھامس کارلائل، کیرن آرمسٹرانگ، جان گلب اور پرنگل کینیڈی وغیرہ جیسے غیر مسلم لکھاری بھی اس بات کی گواہی دینے سے نہیں کتراتے کہ انسانیت کے اس بلند قامت رہنما اور پاکیزہ کردار پیامبر نے دین اسلام کا وہ عملی نمونہ پیش کیا ہے جن کا اعتراف کرنا ہمارا فرض اور اس سے آنکھیں چرانا سراسر زیادتی ہے۔ اسلام پر مشہور محقق کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں کہ محمد ﷺ کو حقیقی معنوں میں صفر یا نقطہ آغاز سے بنیادی اور روحانی نظریے کے لئے کام کرنا پڑا۔ جب آپ نے اپنا مقدس مشن شروع کیا تو کوئی بھی مورخ انہیں یہ مقام نہیں دے سکتاتھا۔عرب دنیا توحید کے تصور کوتسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھی، اس قسم کی وحشی سوسائٹی اور جارح قوم میں ایک ایسی کوشش بہت خطرناک تھی، اور محمد ﷺ خوش نصیب تھے جو ایسے ماحول میں زندہ رہے اور اپنے وصال سے قبل ہی عصبیت کے ریشوں کو کاٹ دیا ۔ مائیکل ہارٹ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو سب سے اونچے مقام پر دیکھا اور اس کا اعتراف کیا اور آپ کو انسانی تاریخ کی عظیم ترین اور سب سے متاثر کن شخصیت مانا ۔سر ولیم اپنی کتاب لائف آف محمد میں آقائے دوعالم ﷺ کے جمال کا خدوخال پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کی گہری کالی آنکھوں کی گہرائی میں جو احساسات تھے اور ان کے چہرے پر جو مسکراہٹ تھی، وہ انتہائی مقناطیسی کشش کے حامل تھے جنہیں دیکھ کر پہلی نظر میں کوئی اجنبی شخص ان کا گرویدہ ہوجاتاتھا۔ ان کا روشن چہرہ ایسا لگتاتھا جیسے سورج کی شعاعیں ان کے چہرے سے پھوٹ رہی ہوں ۔میجر اے لیونارڈ اسلام اور اس کی اخلاقی وروحانی اقدار نامی کتاب میں آپ ﷺ کے بارے میں کچھ اس طرح معترف ہیں کہ اگر کبھی کسی شخص نے اس صفحہ ہستی پر خدا کو پایا ہے، اگر کبھی کسی شخص نے اپنی تمام زندگی کی خالصتا اور پاک جذبے سے خدا کی راہ میں وقف کردی ہے تو وہ بلاشبہ عرب کے پیغامبرِخدا محمدﷺ ہی ہیں ۔مہندر سنگھ بیدی جیسے شعرا تو آپﷺ کی قابل رشک زندگی سے اتنے متاثر ہوئے ہیں کہ یہ دعوی کیے بغیر نہیں رہ سکتے، عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں صرف مسلم کا محمدﷺ پہ اجارہ تو نہیں افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ آج ہم صرف بارہ ربیع الاول جیسے مخصوص ایام میں اپنے دلوں کو اس ذات پاک ﷺ کی یاد سے بہلاتے ہیں جو حقیقت میں عملی وفا کا تقاضا کررہی ہے۔ آج مراکش سے لے کر مصراور سوڈان تک، ترکی سے جزیرہ نما عرب اور فلسطین، شام، عراق، یمن اور ایران تک اور پاکستان سے ڈھاکہ تک مسلم امہ جس زبوں حالی اور گوناگوں مصائب سے گزر رہی ہے، کی بنیادی علت آپ ﷺکے مجرب طریقوں سے روگردانی ہے۔حیف، جس عشق کی آگ کے طفیل ہمارے اسلاف کو قرون اولی میں دنیا کی امامت نصیب ہوئی تھی، وہی آگ آج ہمارے سینوں میں بجھ گئی ہے اور وہاں پر حرص وہوس اور حب ِ دنیا انگڑائیاں لے رہی ہیں۔ جس خودی نے ہمارے اسلاف کو سب کچھ سے استغنا بخشی تھی، وہی خودی اب ہمارے اندر بانجھ ہوچکی ہے اور احتیاج، درماندگی اور مادہ پرستی نے اس کی جگہ لی ہے۔ بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے (اقبال)