پونے تین سال گزر گئے ہیں اور وزیراعظم عمران خان کو اندازہ ہی نہیں ہو پارہا کہ کون سا وزیر خزانے کی چابی سنبھال سکتا ہے۔ کون سا وزیر اطلاعات و نشریات کو سنبھال سکتا ہے۔ کون توانائی کے شعبے کو چلانے کی سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔ حیرانگی ہے کہ ان پونے تین سالوں میں چوتھا وزیرخزانہ لگایا گیا ہے۔ نئے وزیرخزانہ شوکت ترین نا صرف آصف علی زرداری کی کابینہ میں وزیرخزانہ رہ چکے ہیں ،بلکہ زرداری صاحب کے قریبی ساتھی ‘‘انورمجید’’جنہیں زرداری صاحب کا فرنٹ مین کہا جاتا ہے، آپس میں رشتے دار بھی ہیں۔یاد رہے کہ این ایف سی ایوارڈ جس کے ذریعے صوبوں اور وفاق کے درمیان ایک مالیاتی فارمولا طے کیا گیا۔ شوکت ترین اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ شوکت ترین مختلف پرائیویٹ بینکوں کے مختلف عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ اسکے علاوہ ایک پرائیویٹ بینک میں 86فیصد کے مالک بھی تھے۔ لہذاخزانے کی وزارت کو چلانے کی اہلیت تو رکھتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ شوکت ترین صاحب ایک ایسی معیشت جس کے بارے میں دو ہفتے پہلے وہ کہہ چکے ہیں کہ معیشت درست سمت میں نہیں چل رہی تو شوکت ترین صاحب کیسے معیشت کی سمت کو درست کریں گے ؟ اب سوال یہ ہے کہ شوکت ترین کو کیا حالات پہلے سے بہتر ملے ہیں ؟ تو اس کا جواب ہے ہاں۔ وہ اس لحاظ سے کہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ وہ گروتھ فوکس پر کام کریں گے۔ اوروہ اس کو 6سے 7فیصد تک لے کر جائیں گے۔ ہم جانتے ہیں حکومت اور آئی ایم ایف نے اس سال تخمینہ لگایاتھا کہ ڈیڑھ فیصد گروتھ ہوگی ، لیکن جیسے یہ مالی سال ختم ہو رہا ہے ، اسٹیٹ بینک اور حکومت نے یہ شرح 3فیصد تک کر دی ہے۔ اور ماہرین بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ گروتھ 4سے 5فیصد تک ہو سکتی ہے، کیونکہ گندم کی بمپر فصل ہوئی ہے۔ تو مطلب یہ ہوا کہ مشکل اور برا وقت گزر گیاہے۔غیر ملکی ذخائر بھی بہتر ہورہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے بھی شرح نمو چار فیصد ہونے کی بات کر دی ہے اور اگر اپنی صلاحیتوں اور پالیسیوں سے شوکت ترین صاحب اس شرح کو 6فیصد تک لے جاتے ہیں تو یقیناً یہ ان کی کامیابی ہو گی۔لیکن دوسری طرف ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہیں۔ یہ ایک سخت پروگرام ہے۔ شوکت ترین صاحب ایسا کیا فارمولا پیش کریں گے کہ مہنگائی بھی کم ہو لوگوں کو روزگار بھی ملے۔ اور آئے روز بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی نہ بڑھیں۔ اور ہم اب ایک بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ معیشت کی ڈرائیونگ سیٹ کو کپتان کا اپنا کوئی ڈرائیور نہیں چلا سکتا۔ بھلا ہو زرداری صاحب کے کھلاڑیوں کا، جو عمران خان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ تو کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان ،زرداری صاحب پر ہر وقت تنقید کرنے کے بجائے کھلاڑیوں کو جم کر کھلانے کا گرْ ہی سیکھ لیں۔ یہ بار بار کی وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں عمران خان کی ناکامی کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ ان تبدیلوں میں مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا ہے کہ ایک سردار سے شدید بو آرہی تھی۔ اس کے ایک دوست نے کہا کہ یہ بد بو جرابوں سے آرہی ہے۔اس نے مشورہ دیا کہ سردار جی تسی کدی کدی جراباں بدل لیا کرو۔ پھر دو دن بعد ایسی ہی بد بو دوبارہ آنے پر اسی دوست نے کہا سردار جی ! میں توانوں آکھیا سی کہ جراباں بدل لیا کرو۔سردار جی بولے،یار میں جراباں بدلیاں نے ،سجی کھبے پاسے ،تے کھبی سجے پاسے پا لئی اے۔ بالکل ایسے ہی ہمارے بیچارے وزراء کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ ان کی وزارتیں بھی ایسے ہی بدلی جارہی ہیں۔ مطلب جناب کبھی سوچیں کہ جو وزیر ایک وزارت نہیں چلاپارہا ، وہ دوسری وزارت میں کیا پرفار م کرے گا ؟ چند روز پہلے فرانس کے سفیر کو نکالنے کے حوالے سے وزیراعظم نے جن تحفظات کا اظہار کیا اور اس کے اثرات کے حوالے سے آگاہ کیا کہ فرانس کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔تمام یورپی ممالک ہمارا بائیکاٹ کردیں گے۔ تو جناب وزیراعظم صاحب جب آپ یہ جانتے ہیں کہ یورپی یونین پاکستان کے لئے ایک بڑی تجارتی مارکیٹ ہے۔ یورپی ممالک سے پاکستانی زرمبادلہ بھی بھیجتے ہیں، ان ممالک سے تعلقات خراب کر کے نتائج بھگتنے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے توآپ نے تحریک لبیک کے ساتھ ایسا معاہدہ کیوں کیا ؟ اس معاملے کو اور طریقے سے بھی سلجھایا جاسکتا تھا۔ وزیراعظم کی تقریر سے ایک نقصان ضرورہوا کہ آپ نے یورپی دنیا کو اپنی کمزوری ضرور ظاہر کر دی ہے کہ ہماری معیشت آپ کے بغیر نہیں چل سکتی۔ آپ نے یورپی ممالک کو موقع فراہم کر دیا ہے کہ کل کو کسی بھی ایشو کو جواز بنا کر وہ آپ کے ساتھ تجارت بند کرنے کی دھمکی دے سکتے ہیں، تو آپ کیا کریں گے ؟ کرکٹ کے میدان میں عمران خان سے بہتر کون جانتا ہے کہ گیم پلان اچھا نہ ہو تو آ پ میچ نہیں جیت سکتے۔کپتان جب اپوزیشن میں تھے تو دعوے کیا کرتے تھے کہ ہر شعبے کے ماہرین پر مشتمل ٹیم ہمارے پاس تیار ہے۔ تو جب ٹیم سامنے آئی تو پتہ چلا کہ زیادہ کھلاڑی تو مشرف الیون اور زرداری الیون سے اٹھائے گئے ہیں ،جب تنقید ہوئی تو ہمیں بتایا گیا کہ جب اوپر لیڈر کرپٹ ہو تو نیچے کی ٹیم پرفارم نہیں کرتی، لہذااب ایک ایماندار لیڈر کے نیچے یہ لوگ کام کررہے ہیں تو جناب ہمیں وزیراعظم عمران خان کی نیت،محنت،لگن پر رتی برابر بھی شک نہیں ،لیکن ہاں اگر کمی ہے تو آپ کے کھلاڑیوں میں صلاحیت کی ،اور کارکردگی کی۔آپ اکیلے کچھ نہیں کرسکتے۔ ان پونے تین سالوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ 5سالوں کے بعد آپ کی ناکامی کے ذمہ دار آپ کے ہی سلیکٹ کئے ہوئے لوگ ہوں گے ،لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ اب کی بار تبدیلیوں کے بعد ٹیم فائنل ہو چکی ہے اور کابینہ کے نئے مہمان شوکت ترین امیدوں پر پورا اترتے ہوئے عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوں گے۔ جی آیاں نوں شوکت ترین صاحب!