پاکستان میں موسم کی حدت جوں جوں کم ہو رہی ہے۔سیاست کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق میاں نواز شریف نے اے، پی۔ سی میں قومی سلامتی کے اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد اپنی پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاسوں میں پارٹی کارکنوں سے انقلاب برپا کرنے کا حلف بھی لے لیا ہے۔اس انقلاب کی نوعیت کیوں آئی اب یہ راز نہیں رہا ۔تہذیب حافی نے کہا ہے نا کہ: وہ جس کی چھائوں میں پچیس سال گزرے ہیں وہ پیڑ مجھ سے کوئی بات کیوں نہیں کرتا میاں نواز شریف کے غم و غصہ کی وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس پیڑ کے سائے میں اپنی سیاسی زندگی کی آنکھ ہی نہیں کھولی بلکہ 25سال نہیں بلکہ35سال تپسیا بھی کی تھی۔ جب بار بار کی درخواستوں اور منتوں ترلوں کے بعد بھی سنائی نہ ہوئی تو میاں نواز شریف نے پارٹی کے سافٹ چہرے میاں شہباز شریف کے بجائے انقلابی بیٹی کو جنگی محاذ پر لانے کا فیصلہ کیا۔ سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت میاں شہباز شریف نے رضا کارانہ طور پر اپنی گرفتاری کا اہتمام کیا۔ رضا کارانہ اہتمام اس طرح کہ موصوف نے درخواست واپس لے کر عدالت کو ضمانت منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا جب ملزم خود ضمانت کی درخواست ہی واپس لے لے تو عدالت کے پاس ضمانت کی منسوخی کے سوا چارہ ہی کیا رہ جاتاہے۔ اب میاں شہباز شریف نیب کی حراست میں بقول ڈی جی نیب لاہور بہت خوش ہیں ۔بستر کتابیں گھر سے لائے ہیں۔ دوسری طرف میاں نواز شریف برادر خورد کی قید کو جواز بنا کر نظام عدل اور قومی سلامتی کے اداروں سے جواب مانگ رہے ہیں تو مریم نواز خود ساختہ گرفتاری کو جواز بن کر پارٹی کارکنوں کو سڑکوں پر لانے کے لئے متحرک ہو چکی ہیں ۔میاں نواز شریف کے اے پی سی میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کی یقین دہانی پر اے پی سی نے کوئٹہ میں پہلا احتجاجی جلسہ کرنے کے اعلان کیا ہی تھا کہ مریم نواز نے عین اسی روز گوجرانوالہ میں اپنی طاقت دکھانے کا اعلان کر کے کندھا الگ کر لیا۔ میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کو دوسرا جھٹکا خواجہ آصف سے سابق صدر آصف زرداری پر اعتماد نہ کرنے کی بات کروا کے دیا۔ خواجہ آصف کی بداعتمادی والی بات کو زبان کا پھسلنا اس لئے نہیں مانا جا سکتا کیونکہ موصوف اجلاس کے بعد بھی اپنے موقف پر قائم تھے۔جب بات بڑھتی محسوس ہوئی تو میاں نواز شریف کی مداخلت پر خواجہ آصف نے سابق صدر زرداری نے معافی مانگ کر اظہار محبت بھی کر دیا مگر سابق صدر کی سمجھ میں نادم ندیم کی اب یہ بات آئی گئی ہو گی کہ: ان سے امید نہ رکھ ہیں یہ سیاست والے یہ کسی سے بھی محبت نہیںکرنے والے یہ سیاست والے صرف آصف زرداری ہی نہیں خود عوام سے بھی محبت کرنے والے نہیں لگتے ۔سابق صدر زرداری اس بات سے بھی یقینا بے خبر نہیں کہ میاں نواز شریف نے ہی کشتیاں نہیں جلائیں مولانا نے بھی اقتدار کے لئے مذہبی کارڈ استعمال کرنے کا برملا اعلان بھی کر دیا ہے۔ موصوف کا ایک ویڈیو کلپ بھی سوشل میں گردش کر رہا ہے جس میں وہ فوج کوللکار رہے ہیں کہ اگر ہم بھٹک گئے تو پھر دیکھ لینا جو حال امریکی فوج کا افغانستان میں کیا وہی تمہارا بھی کر دیں گے۔ مولانا اور نواز شریف میں قدر مشترک یہ بھی ہے کہ دونوں ہی جس کے سائے میں بیٹھتے تھے اس کی بات نہ سننے کے بعد اس پیڑ ہی نہیں پورے گلشن کو برباد کرنے پر بضد ہیں۔ مذہبی کارڈ کے استعمال کی ایک جھلک ملک میں خفیہ اداروں کی فرقہ وارانہ فسادات کروانے کی سازش میں غیر ملکی اور اندرونی شرپسندوں کے گٹھ جوڑ کی رپورٹ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ شیخ رشید میڈیا پر کہہ چکے ہیں کہ مولانا ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کروانا چاہتے ہیں۔ مولانا نے مذہبی کارڈ کے ساتھ سیاست میں بھی گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنانے کی مخالفت کر کے اپنا ترت کا پتہ پھینک دیا ہے۔ مولانا کا گلگت بلتستان کے مسئلے کو کشمیر سے جوڑنا تاریخ سے انحراف اور پاکستان دشمنی کے مترادف اس لئے ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کے قیام سے پہلے ہی پاکستان سے الحاق کا اعلان کر چکے تھے۔ چار نومبر 1947ء کو گلگت سکائوٹس کے اصرار پر ہی میجر برائوں نے رسمی طور پر پاکستانی پرچم لہرا کر یہاں پولیٹیکل ایجنٹ کی تقرری کی تھی اسے اقتدار کی حوس اور قومی اداروں سے بغض کہا جائے کہ بھارت نوازی کہ مولانا ‘میاں اور بھارت ایک صفحہ پر ہیں ۔بھارت کی نظر بھی گلگت بلتستان پر ہے ۔بھارتی حکومت منظم طریقے سے بیرون ممالک گلگت بلتستان کے تارکین وطن پر سرمایہ کاری کر رہی ہے جن کو پاکستانی مخالفت میں میدان میں اتارا جا چکا ہے بھارت کشمیریوں کو بھی گلگت بلتستان کے حوالے سے اکسا رہا ہے مگر گلگت بلتستان ہو یا کشمیر کے عوام ان کی آرزو پاکستان سے الحاق ہے اگر یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تو وہ مولانا میاں اور بھارت ہیں۔ اقتدار کے لئے جائز ناجائز حربے استعمال کرنا سیا ست دانوں کا وطیرہ رہا ہے مگر جس ملک پر حکومت کرنی ہو اس سے محبت و وفاداری کا رشتہ ختم نہیں کیا جاتا۔ مگر لالہ ماد ھو رام جوہر نے کیا خوب کہا ہے: آ گیا ہے جوہرؔ عجب الٹا زمانہ کیا کہیں دوست وہ کرتے ہیں باتیں جو عدو کرتے ہیں