ہمارے بچپن میں پہلیاں بْوجھنے اور بیت بازی کھیلنے کا بہت رواج تھا۔ آج ایک پہیلی یاد آ رہی ہے۔ ’’تْو چل میں آیا‘‘۔ اس کا جواب ہوتا تھا ’’دروازہ‘‘۔ چونکہ دروازہ کے دو پٹ ہوتے ہیں۔ پہلے ایک پَٹ بند ہوتا ہے پھردوسرا۔ یاد رکھیے دروازہ ہمیشہ اند رسے کْھلتا ہے۔ چاہے محبت کا ہو یا عداوت کا۔ ایک گرما گرم خبر ہے کہ سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار صاحب بالآخر کمر درد سے نجات پانے کے بعد واپس وطن عزیز میں تشریف لا چکے ہیں۔ آئیے! حضور، قدم رنجہ فرمائیے! عوام آپ کو پخیر راغلے کہتے ہیں۔ دیدہ و دل فرشِ راہ کیے بیٹھے ہے۔ عوام ایک مرتبہ پھر؎ آپ کے آنے تک یہ گیت گا رہے ہوں گے! ’’جو بچا تھا وہ لْٹانے کے لیے آئے ہیں‘‘۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک اور مسالے دار خبر ہے کہ اسحاق ڈار کے پیچھے پیچھے میاں نواز شریف بھی پہنچنے ہی والے ہیں۔ پس ثابت ہوا کے دروازے کا ایک پَٹ اسحاق ڈار ہیں اور دوسرا نواز شریف! بھئی کیوں نہ ہوں سمدھی جو ٹھہرے۔ بلکہ لندن کے ایک صحافی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اسحاق ڈار صاحب میاں صاحب کا ہر اول دستہ ہیں۔ چلو جی! عوام کے سانس تو پہلے ہی نکال لیے اب تراہ بھی نکال لیں۔ مگر اب ہر صورت پر فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ ’’تْو چل میں آیا‘‘ والی آج کی پہلی میں یہ دروازہ کون سا ہے؟ محبت کا، نفرت کا، عداوت کا، کرپشن کا یا پھر سے بھولے عوام کو تھکا تھکا کر مارنے کا۔ اسحاق ڈار موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ تشریف لا چکے ہیں۔ دوست ہوں تو ایسے ایک وزیر اعظم کے ساتھ گئے اور دوسرے وزیر اعظم کے ساتھ واپس آ ئے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ پاکستان سے کابینہ کے اہم ممبران اْٹھ کرکے ولایت گئے اور معصوم سے مفتاح اسماعیل نے وہاں ظلِ الٰہی کی خدمتِ عظمٰی میں اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ ویسے ایک بات تو طے ہے کہ سیاست کی بساط پر بچھی شطرنج کے مہرے ہیں بڑے تابعدار۔ پٹنے کے لیے بھی سات سمندر پار تک چلے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے ’’جس کی ڈفلی اس کا راگ‘‘۔ اسحاق ڈار پانچ سال کی مدت کے بعد خود ساختہ جلا وطنی کے بعد واپس خزانے کے سنگھا سن پر براجمان ہو جائیں گے۔ کہا جا رہا ہے نواز شریف اور مریم نواز مفتاح اسماعیل سے خوش نہیں تھے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسحاق ڈار کے زرداری صاحب سے بھی خوش گوار تعلقات ہیں اور وہ منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ کس کو آؤٹ کرتے ہیں۔ عوام کویا پھر ڈالر کی اْڑان کو۔ معیشت کی کارکردگی ڈالر کو خریدنے اور بیچنے کے درست فیصلوں پر منحصر ہوتی ہے۔ ایک مضبوط معیشت دنیا بھر سے سرمایہ کاری کے لیے کشش رکھتی ہے۔ بالآخر مفتاح اسماعیل سنگھا سن سے ہٹ ہی گئے۔ دراصل ایک روز جب وہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے رونے لگے تو اسحاق ڈار نے انہیں یہ غزل سنائی: ’’تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو۔‘‘ اس پریشانی کو وہ عوام کے لیے استعمال کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ ویسے فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ان کے پاس جادو کی چھڑی گھمانے والی فیئری گاڈ مدر موجود ہیں مریم نواز کی شکل میں۔ دیکھیے یہ پانچ سال بعد آنیوالے جادوگر سیاں کیا کارکردگی دکھاتے ہیں۔ ویسے اگر ماضی کے پنوں کو کھنگالا جائے تو اسحاق ڈار کی واپسی مزید مشکلات کا باعث ہو سکتی ہے۔ اگر پاکستان بننے کے 75سالوں کے بعد بھی ہمارے فیصلے لندن میں ہی ہونے ہیں تو پھر فرنگیوں سے آزادی کے لیے اتنی جدوجہد کیوں کی گئی تھی۔ کیا ماضی میں اسحاق ڈار کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان پر قرضے بڑھے نہیں تھے؟ وطن سے علاج کے بہانے ولایت روانہ ہونے سے پہلے اسحاق ڈار پر آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمے تھے جنہیں وہ غلط قرار دیتے ہوئے یہاں سے چلے گئے۔ اب خوش حالی کا طبل بج چکا ہے۔ ستم رسیدہ عوام کو چاہیے اپنے گھر کے تمام برتن وغیرہ نکال لیں کیونکہ اب دودھ اور شہد کی نہریں بہنے والی ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب اپنی پارٹی کے اس سربراہ کے کہنے پر پہنچے جو اس وقت پاکستان کے کسی عہدے پر بھی فائز نہیں۔ وزیرِ اعظم کا عہدہ تو میاں شہباز شریف کے پاس ہے فیصلہ تو وزیرِ اعظم کو کرنا چاہیے تھا مگر بڑے بھائی کا احترام زیادہ اہم ہے۔ وطن کا کیا ہے؟ وہ ہچکولے کھاتا ہی رہے گا! عوام بھی اس کے عادی ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب پر متعدد مقدمات ہیں دوسرے اس وقت دو صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے تو معیشت کو سنبھالنا شاید اب ان کے لیے بھی مشکل ہو گا لیکن پھر بھی عوام کہتے ہیں:’’آئیے مہرباں شوق سے لیجیے جی عشق کے امتحاں۔‘‘ بحیثیت عوام ہم باتیں بھول جاتیں ہیں۔ اسحاق ڈار نے اپنے پرانے دوست سعید احمد کو پاکستان میں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک اور پھر صدر نیشنل بینک لگایا تھا۔ یاد رہے سعید احمد لندن میں اولڈ ہوم چلاتے ہیں اور برطانیہ میں بیشتر اولڈ ہوم چلانے والے بینک ڈیفالٹرہوتے ہیں۔ سعید احمد کو ماہانہ 50لاکھ تنخواہ پر ملازم رکھا گیا تھا۔ نون لیگ کی خفیہ میٹنگز سعید احمد کے گھر پر ہی ہوتی ہیں کہ وہ میاں نواز شریف کے بھی یارِ غار ہیں۔ پہلے بھی مصنوعی طریقے سے ڈالر کی اْڑان کو روکا جاتا تھا لیکن اب راستے میں بہت رکاوٹیں ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ سب سیاست دان جن پر منی لانڈرنگ کے کیسز ہوتے ہیں وہ ان کے جواب کبھی نہیں دے پاتے۔بجائے کٹہرے میں جواب دینے کے حالات اپنے موافق بنواتے ہیں۔ پھر سے عوام کو کولہو کے بیلوں کی طرح اپنے اختیارات کے نئے بیج بونے کے لیے کھیتاں تیار کی جاتی ہیں۔ ٭٭٭٭٭