آج کل پولیو کے قطرے پلائے جانے کی حکومتی مہم چل رہی ہے، اس حوالے سے ایک اشتہار دیکھا تو دل میں چبھا۔ سادہ سا ایک جملہ تھا، پوری دنیا سے یہ ختم ہوگیا، صرف دو ملک رہ گئے ہیں، پاکستان اور افغانستان ،اپنے بچوں کو قطرے پلائیں تاکہ ہم بھی محفوظ ہوجائیں۔ صدمہ اس بات پر ہوا کہ افغانستان وہ ملک ہے جہاں بہت جگہ قبائلی سیٹ اپ چل رہا ہے، پچھلے چالیس برسوں سے وہاں وقفوں وقفوں سے خانہ جنگی ہی چل رہی ہے، خواندگی کی شرح بھی زیادہ نہیں۔ ایسے ملک کا موازنہ پاکستان کے ساتھ ، جہاں اچھا بھلا شہری کلچر پیدا ہوچکا ، خواندگی کی شرح بھی بری نہیں، ٹی وی ، انٹرنیٹ دیہات تک پہنچ چکا ہے، سماجی شعور بھی اچھا خاصا ہے۔ اس سب کے باوجو دہم ابھی تک پولیو کے مرض کا خاتمہ نہیں کر پائے۔ پولیو کے مرض کا خاتمہ نہ ہونے کی ایک ہی وجہ ہے۔ بطور قوم ہمارا سازشی نظریوں کو قبولیت بخشنا اور ایسی سازشی تھیوریز گھڑنے والوں کو برداشت کرنا۔ بات اتنی سادہ ہے کہ چند جملوں میں سمجھائی جا سکتی ہے۔ ’’پولیو ایک خطرناک مرض ہے، اس کے وائرس کسی بچے میں داخل ہوجائیں تو پھر علاج ممکن نہیں، وہ بچہ معذور ہو کر ہی رہے گا۔ اس کا واحد علاج ویکسین ہے، یعنی بیماری کو ہونے ہی نہ دیا جائے۔پولیو کے قطرے ہی وہ ویکسین ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں بچوں کو کامیابی سے پولیو کے قطرے پلا دئیے گئے ، وہاں سے یہ بیماری ختم ہوگئی۔ ہمارے ہاں بھی سوفی صد کامیاب مہم چلے تو یہ بیماری جڑ سے ختم ہوجائے گی۔ ‘‘ پولیو ویکسین کے حوالے سے چلائی جانے والی تمام افواہیں غلط اور بے بنیاد ہیں۔ ان سے بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ یہ تولیدی خصوصیات کو بالکل متاثر نہیں کرتی۔ جو ایسی فضولیات پھیلاتا ہے وہ یا تو احمق ہے یا پھر آپ کا دشمن ۔ دونوں صورتوں میں وہ اس قابل نہیں کہ اس کی (باقی صفحہ 5نمبر1) بات سنی جائے ۔ پولیو ویکسین کے خلاف فضول، احمقانہ تھیوریز پھیلانے والے کو شٹ اپ کال دینی چاہیے۔ اسے سختی سے اپنا منہ بند کرنے اور دور ہوجانے کا کہنا چاہیے کہ یہ آپ کے بچوں کے ساتھ دشمنی کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ دنیا کا کوئی بھی شخص اپنے بچوں کے دشمن سے تعلق نہیں رکھنا چاہیے گا۔ یہ پاکستان ہی ہے جہاں ایسے نام نہاد دانشور مل جائیں گے جو انٹرنیٹ پر پھیلے اربوں مضامین میں سے کسی مجہول سے مضمون کا حوالہ ڈھونڈ لائیں گے۔ ایسے خبطی، سنکی جنہیں گھر والے بھی نہیں سننا چاہتے ، ان کی سازشی تھیوریز بڑے فخر سے سوشل میڈیاپر چلائی جائیں گی۔آخر کیوں؟ ایسے فسادی عناصر سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔ جو کوئی ایسا پروپیگنڈہ کرے اس کی جگہ سلاخوں کے پیچھے ہونی چاہیے، جہاں وہ اپنے سنکی دماغ کے ساتھ رہے اور اپنے آپ کو کوسے۔ پچھلے کالم میں ڈپریشن کا ذکر کیا کہ اس سے گھبرانے یا شرمانے، چھپانے کے بجائے اس کا علاج کرانا چاہیے۔بہت سے لوگوں نے فیڈ بیک دیا کہ اس پر مزید لکھا جائے ، کئی لوگوں نے پوچھا کہ اس کا علاج کیا ہے؟خوش قسمتی سے مجھے کبھی زندگی میں ڈپریشن کا مسئلہ لاحق نہیں رہا۔پریشانی کے فیز آئے ، مگر اللہ کی مہربانی سے امید کی ڈور نہیں ٹوٹی، رحمت کی توقع رہی اور پھر سیاہ بادل چھٹ گئے۔ میرے بعض جاننے والے اس کا شکار رہے ، اس لئے کچھ اندازہ ہے۔ بہتر اور تفصیلی معلومات کے لئے کسی ڈاکٹر سے رجوع کریں، موٹی موٹی چند باتیں عرض کر دیتا ہوں۔ ڈپریشن کے مختلف اسباب بیان کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک بائیوکیمسٹری سے متعلق ہے۔ دماغ کے مختلف کیمیکلز میں کمی بیشی کی وجہ سے ڈپریشن پیدا ہوتا ہے۔ سائیکاٹرسٹ ادویات سے ان کیمیکلز کوبیلنس کر دیتا ہے ۔ مریضوں کو سمجھانے، مشورہ دینے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ ڈپریشن سے بچنا ان کے اپنے بس میں نہیں ۔ شخصیت کا بھی اثر پڑتا ہے۔بعض وگ فطرتاً کمزور، دبو ، جلد گھبرا جانے والے یا قنوطیت پسند ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ منفی رخ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ڈپریشن کا جلد شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک بہت بڑا فیکٹر ماحول یا خارجی اثرات ہیں۔ کوئی شخص زندگی میں مسلسل نظرانداز ہوتا رہے،اس کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی ہوئی ہو،وہ پر تشدد ماحول میں رہا ہو، اس کے ساتھ مارپیٹ، گالی گلوچ معمول ہو تو ڈپریشن کا شکار ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ہمارے ہاں گھریلو ماحول کی وجہ سے بھی اکثر خواتین ڈپریشن کی مریض بن جاتی ہیں۔غربت ، تنگدستی بھی وجہ بن جاتی یا ان وجوہات کو بڑھا دیتی ہے۔موروثی اثرات بھی اہم ہیں۔ بعض گھرانوں میں ڈپریشن کا مسئلہ نسل درنسل چلتاہے ۔ جڑواں بھائی بہنوں میں کسی ایک کو ڈپریشن ہوجائے تو دوسرے کو ہونے کے ستر فیصد امکانات ہیں۔ ڈپریشن کی ایک قسم بائی پولر ڈس آرڈر ہے۔ اس کے مریض گھڑی میں تولہ پل میں ماشہ رہتے ہیں۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ بعض لوگ ایک روز ملنے پر بڑی گرم جوشی سے پیش آ ئیں گے، چائے بسکٹ کھلائیںگے، اگلے روز یوں سرد مہری سے ملتے ہیں جیسا جانتے نہ ہوں۔ ایسے بھی صبح جن کا موڈ کچھ اور شام کو اور۔ بعض میں ایک خاص قسم کا موڈ کئی دن، ہفتوں تک چلتا ہے۔ کام کرنے کا جی نہیں تو بس نہیں کرنا، سڑا سا منہ بنا کر بیٹھے رہیں گے۔ممکن ہے کوئی ویسے ہی سڑیل مزاج ہو، مگر بعض اوقات ایسے سوئنگ موڈز والا بائی پولر کا مریض ہوسکتا ہے۔اس کا علاج ممکن ہے، صرف چند ماہ دوائی لینا پڑے گی۔ ڈپریشن کے علاج کرانے والے سائیکاٹرسٹ یعنی ڈاکٹر برائے ذہنی امراض سے رجوع کریں۔یہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور انہیں ذہنی امراض کے علاج کی تربیت ملی ہوتی ہے۔ بڑے سرکاری ہسپتالوں میںسائیکاٹری وارڈ موجود ہیں۔لاہورمیں فائونٹین ہائوس جیسے ادارے مفید ہیں۔بڑے شہروں میں نجی کلینک عام ہیں۔عام طور پر تفصیلی پروفیشنل انٹرویو، فزیکل چیک اپ اور بعض ضروری بلڈ ٹیسٹ جیسے تھائی رائیڈ ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹر فیصلہ کرتا ہے کہ مسئلہ ہے یا نہیں اور کس قدر سنگین ہے؟ پھر مریض کی حالت کے مطابق اسے اینٹی ڈپریسنٹ دی جاتی ہیں۔ یہ نیند والی گولیاں نہیں، اگرچہ ڈاکٹر ضرورت کے مطابق نیند کی گولی شامل بھی کر سکتا ہے۔ یہ اہم بات یا درکھی جائے کہ ڈپریشن کے خاتمے کی دوائی چھ سے آٹھ ہفتوں بعد جا کر جسم میں درست طریقے سے کام کرنا شروع کرتی ہے۔ڈاکٹر سے ملتے رہیں تاکہ ضرورت ہو تو دوائی تبدیل کی جا سکے۔ڈپریشن کے مریض کو چھ ماہ سے سال ڈیڈھ سال تک علاج کے لئے تیار رہنا چاہیے، یہ ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں بلکہ ٹیسٹ میچ ہے۔ ہلکے یا ماڈریٹ ڈپریشن کے لئے سائیکو تھراپی یا ٹاک تھراپی کی ضرورت پڑتی ہے۔ کبھی صرف اسی سے کام چل جاتا ہے ، کبھی یہ اینٹی ڈپریسنٹ دوائیوں کے ساتھ چلتی ہے۔ یہاں ایک اور بات سمجھ لی جائے کہ سائیکو تھراپی سائیکالوجسٹ یعنی ماہر نفسیات کرتا ہے۔ اس نے کلینکل سائیکالوجی وغیرہ میں ماسٹر کیا ہوتا ہے اور اسے سائیکو تھراپی یعنی گفتگو کے ذریعے ذہنی، نفسیاتی الجھنیں دور کرنے کی تربیت ملتی ہے۔ بعض مریضوں میں دماغی کیمیکلز کا مسئلہ نہیں بلکہ ان کے بچپن یا ماضی میں کوئی دکھ یا ناخوشگوار واقعہ چھپا ہوا مسلسل کانٹے کی طرح چبھتا رہتا ہے۔ جیسے خدانخواستہ کسی بچے کے ساتھ زیادتی، کسی محرم رشتے کی بدسلوکی یا کوئی اور حادثہ۔ سائیکو تھراپی کے ذریعے عام طور پر وہ الجھن تلاش کر لی جاتی ہے اور وہ منظر یا ناگوار یادذہن سے غائب( ڈیلیٹ )کر دی جاتی ہے۔این ایل پی (NLP)کے ماہرین بھی ایسا کر دیتے ہیں۔ مختلف گھریلو الجھنوں اور تنائو سے بے چین لوگ بھی سائیکالوجسٹ سے رجوع کر سکتے ہیں، کتھارسس ہونے اور اپنی بات سنانے سے کچھ بہتری آ جاتی ہے۔ ہمارے ہاںایسا بھی ہوتا ہے کہ مریض پہلے کسی سائیکالوجسٹ کے پاس چلا گیا، اس کا کیس تھراپی نہیں بلکہ دوائی سے ٹھیک ہونے والا ہے، مگر سائیکالوجسٹ مریض کو سائیکاٹرسٹ کے پاس بھیجنے کے بجائے خود ہی دوائی لکھ دیتا ہے۔ وہ کام جس میں اسے مطلوبہ مہارت نہیں ۔اسی طرح کبھی سائیکاٹرسٹ خود ہی سائیکاتھراپی شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ان کا کام نہیںہے۔مریض اور گھر والوں کو یہ باتیں ذہن میں رکھنی چاہئیں۔ بہترین علاج ان دونوں کا کمبی نیشن ہے۔ ڈپریشن کے علاج میں کچھ فی صد آپ خود بھی حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اچھی نیند، بھرپور ورزش، مناسب خوراک ، الکحل وغیرہ سے گریز ڈپریشن کم کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق جنگ فوڈ(برگر، پزا، بیکری آئٹم، کولا مشروبات) اور ہائی کیلوری فوڈ کھانے سے بھی ڈپریشن بڑھتا ہے جبکہ پھل ، سبزیوں ، مچھلی ، اولیو آئل وغیر ہ کا استعمال مریض کے لئے کچھ بہتری لاتا ہے۔ مذہب کا اہم کردار ہے۔ جب تک رب کی رحمت کی امید رہے، انسان تاریکی میں ڈوبتا نہیں۔ نماز، ذکر ازکار مثبت اثر ڈالتے ہیں۔ پروفیسر احمد رفیق اختر ڈپریشن کے لئے اپنی مخصو ص اسمائے ربانی کی تسبیح کے ساتھ لاحول ولا قوتہ الا بااللہ کی تسبیح بتاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسے ترجمہ کے ساتھ پڑھنے سے آدمی کو ڈھارس مل جاتی ہے۔ یہ بات مگر یاد رہے کہ دعا کے ساتھ دوا بہت ضروری ہے۔ ڈپریشن کا شکار لوگوں کوبن مانگے مشورے دینا،لعن طعن یا مذہب سے دور سمجھنا بے وقوفی ہوگی۔ اگر برین کیمیکلز کا معاملہ ہے تو جب تک مطلوبہ دوائی سے وہ ٹھیک نہ کیا جائے ، مریض کیسے صحت یاب ہوگا؟