اے پی سی کے مشترکہ اعلامیہ پر شریک جماعتوں کے مابین اختلافات ایک نئی تقسیم کا باعث بنتے دکھائی دئیے ہیں۔ ۔پیپلزپارٹی کی طرف سے اپوزیشن جماعتوں کی بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں حکومتی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے حکومت کے خلاف مشترکہ جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا گیا ،تاہم مولانا فضل الرحمان کی جانب سے اسمبلیوں سے استعفے،سندھ اسمبلی کی تحلیل،سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کرنے ، اپوزیشن کی تحریک کا نام رکھنے اور تمام یقین دہانیوں کواحاطئہ تحریر میں لانے کی ضمانت مانگی گئی جس سے اپوزیشن میں پھوٹ پڑنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ آصف زرداری اور لندن میں مقیم نوازشریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا جبکہ بلاول بھٹو زرداری‘ شہبازشریف‘ مولانا فضل الرحمن‘ عبدالمالک بلوچ‘ محسن داوڑ اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار براہ راست کیا۔ اپوزیشن رہنمائوں نے گفتگو میں ملک کے محافظ اداروں پر الزامات عائد کئے۔ لگ بھگ سبھی رہنمائوں نے ملکی معیشت تباہ ہونے اور قرضوں کا بوجھ بڑھنے کی بات کی۔ الزام عائد کیا گیا کہ عدالتیں اور محافظ ادارے سیاستدانوں کے خلاف ناروا مقدمات بناتے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ بتایا گیا۔ کہا گیا کہ حکومت سی پیک کے خلاف ہے‘ خارجہ پالیسی کے ضمن میں سعودی عرب سے تعلقات خراب ہونے کی بات کی گئی ‘ نیب کو سیاسی انتقام لینے کا آلہ کار کہا گیا‘ یہی نہیں بلکہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ اور چیئرمین نیب پر جمہوریت دشمنی کے الزامات لگائے گئے۔میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں شفاف انتخابات ،شفاف احتساب اور اداروں کی عدم مداخلت کا معاملہ اٹھایا ۔امید کی جارہی تھی کہ وہ اپنی تقریر میں جب تہتر برس کی قومی تاریخ پر بات کریں گے تو یہ بھی بتائیں گے کہ وہ خود کس طرح تین بار اقتدار مین آئے۔انہوں نے یہ بھی نہ بتایا کہ اپنے ادوار حکومت میں بھاری مینڈیٹ کے باوجود انہوں نے نظام کو پائیدار استحکام کیوں نہ دیا ۔عدم مداخلت اگر اس قدر عزیز ہے تو پھر مشاہداللہ اور طارق فاطمی کو برطرف کرتے وقت انہوں نے خود کوئی اعلیٰ مثال کیوں پیش نہ کی، نواز شریف کو بتانا چاہئے کہ انہیں سارے مثالی اصول اس وقت کیوں یاد آتے ہیں جب اقتدار سے باہر ہوں؟ سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا یہ تمام رہنما پہلی بار اس طرح کے جمہوریت دوست خیالات کا اظہار کر رہے ہیں یا پہلے بھی کسی سیاسی موڑ پر وہ ایسا ہی کچھ کہہ چکے ہیں 2006ء میں لندن میں دونوں جماعتوں کی قیادت میں رابطے ہوئے۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف دونوں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ میثاق جمہوریت میں طے کیا گیا کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حکومت کو ہٹانے کے لیے کسی غیر جمہوری قوت سے مدد نہیں لیں گی۔ قومی تعمیر و ترقی کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق ہوا لیکن پھر پیپلزپارٹی کی حکومت کا میمو گیٹ سکینڈل سامنے آیا۔ میاں نوازشریف بھی اپنے وعدے فراموش کرکے کالا کوٹ پہنے گیلانی حکومت کے خلاف عدالت میں پیش ہوئے اس بات پر اب کوئی یقیں کرنے کو تیار نہیں کہ یہ جماعتیں ملک میں جمہوری اقدار کو مضبوط کرنا چاہتی ہیں۔ یہ آن ریکارڈ ہے کہ شہبازشریف رات کے اندھیرے میں طاقتور حلقوں سے ملاقاتیں کیا کرتے۔ اے پی سی میں کل غیر منتخب قوتیں قرار دے کر جن اداروں پر تنقید کی گئی ان سے ایک بار پھر سیاسی معاملات میں مدد کا کہا جاتا رہا۔یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ اس وقت عمران خان کی حکومت کسی سیاسی اور آئینی بحران کی زد میں نہیں۔عوامی سطح پر حکومت کو ہٹانے کی رائے مقبول نہیں۔ کورونا کی وبا اور سابق حکومتوں کی جانب سے لیے گئے غیر ضروری غیر ملکی قرضوں سے عام آدمی کی زندگی ضرور متاثر ہوئی ہے لیکن عوامی سطح پر آج بھی یہ احساس موجود ہے کہ سابق حکومتوں نے کسی ایک معاملے میں دور اندیشی اور تدبر کا مظاہرہ نہیں کیا۔ آئی پی پیز سے معاہدے‘ میٹرو سے لے کر موٹر ویز منصوبوں میں عدم شفافیت‘ منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات اگر بروقت ہو جاتیں تو ریاستی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان نہ ہوتا۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں نے اپنی پسند کے افراد کو نیب کا چیئرمین بنایا۔ دونوں نے نیب کو اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکے رکھا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ جن منصوبوں میں بدعنوانی کی شکایات تھیں ان کے لیے کوئی انکوائری تک شروع نہ کی گئی۔ سرکاری ریکارڈ کو شارٹ سرکٹ کا واقعہ بنا کر جلایا جاتا رہا۔ آج جو لوگ جمہوری اقدار کی بات کر رہے ہیں انہوں نے سی پیک منصوبوں کے متعلق تفصیلات کو سابق اسمبلی سے بھی چھپایا۔ چھوٹی جماعتوں کا علاقائی سطح پر کردار ہوتا ہے‘ ان جماعتوں کا وفاقی پارٹیوں کیساتھ اتحاد انہیں قومی سطح پر متعارف کراتا ہے۔ افسوسناک امر ہے کہ پاکستان میں چھوٹی جماعتوں نے اپنی سیاسی حمایت کے بدلے مرکز سے ناواجب مراعات حاصل کیں۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت نے جو کچھ حاصل کیا وہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اے این پی‘ محمود اچکزئی اور دیگر رہنمائوں کی بابت عوامی رائے تسلی بخش نہیں۔ قبل ازیں مولانا فضل الرحمن کا حکومت ہٹائو دھرنا ناکامی کا منہ دیکھ چکا۔ پارلیمنٹ میں اہم معاملات پر اپوزیشن نے جو غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ ان حالات میں اے پی سی کا مقصد احتساب کے عمل کو روکنے کے سوا کچھ نہیں۔ جمہوریت پر لیکچر دینے کیساتھ ضروری ہے کہ سیاسی رہنما گورنس ،خارجہ امور ،دفاعی امور اور معاشی معاملات سے متعلق اپنی استعداد بڑھائیں ۔صرف اداروں پر تنقید کافی نہیں جمہوری جوابدہی کو بھی اہمیت دیں۔