مدعا عرض کرنے سے پہلے اس سرخی پر ایک نظر ڈالنے کی زحمت کیجئے گا۔ ’’جب سنہ 1967ء میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں انڈین سفارتخانے کا محاصرہ ہوا‘‘ نفس مضمون پڑھنے سے پہلے ہی سرخی میں لفظ ’’محاصرہ‘‘ قاری پر جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوتا ہے او ر پھر پوری تحریر میں لکھاری یہ حملے جاری رکھتا ہے اگر پڑھنے والا حالات حاضرہ سے بے خبر اور جرائد و رسائل سے فاصلے پر رہنے والا ہو تو تحریر ختم ہونے سے پہلے ہی وہ چاروں شانے چت ہو کر اسکی منشاء کے مطابق رائے بنا چکا ہوگا ۔۔۔یہ تحریر ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی اردو سروس ویب سائٹ پر دو اگست کوشائع ہوئی ہے جس میں انڈین فارن سروس کے ایک افسر کرشنن رگھو ناتھ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ چار جون 1967کو اپنے دوست کے ساتھ ’’سلیپنگ بدھا‘‘کامندر دیکھنے بیجنگ کے مغربی پہاڑوں کی طرف گیا جہاںوہ تصاویر لینا چاہ رہا تھا کہ اسے ممنوعہ علاقے میں تصاویرلینے پر دھر لیا گیا اور جاسوسی کے الزام میں مقدمہ چلا کرہتک آمیز سلوک کے بعددیس نکالابھی دے دیا گیا ۔۔۔یہ تحریرکیا ہے چین کے خلاف ایک تریپن سال پرانی چارج شیٹ جسے آج جھاڑ جھوڑ کر نکال لایا گیا ہے سوال پید ا ہوتا ہے کہ کیا اس تحریر کا مقصد محض کشیدہ تعلقات رکھنے والے ممالک میں سفارتکاروں کی مشکلا ت بیان کرنا ہے؟ آپ کا جواب اثبات میں ہے تو پھرآپکی سادگی پر قربان جایئے ،جناب !یہ چین کے خلاف اس وقت ایک عالمی مہم کا حصہ ہے اور اس مہم میںامریکی نشریاتی اداروں کے ساتھ اسکے حواریوں کے نشریاتی ادارے بھی پیش پیش ہیں،یہ ادارہ بھی ایک بڑامعتبر گردانا جانے والا بین الاقوامی نشریاتی ادارہ ہے جس کی ویب سائٹ پریہ پروپیگنڈہ تحریر ٹنگی ملے گی۔ یہ بین الاقوامی نشریاتی ادارہ 1922ء سے نشریات کے میدان میں ہے اوراس دور میں قائم ہوا جب کہاجاتا تھا کہ گورا راج میں سورج نہیں ڈوبتا برطانوی سامراج میں قائم ہونے والا یہ ادارہ اپنی ریاست کے لئے قابل قبول’’ سچ‘‘ بولتا رہاپھر وقت کے ساتھ ساتھ سلطنت برطانیہ توسمٹ سکڑ کردریائے ٹیمز کے کنارے پر آپڑی لیکن اس اہم ادارے کو پھلنے پھولنے دیا گیاکہ اسکی بحرحال ضرورت بڑھ چکی تھی اب یہ ادارہ اپنے ہزاروں ملازمین اور سیٹلائٹ چینلز کے ذریعے چوبیس گھنٹے اپنا سچ قارئین کے سماعتوں میں انڈیلتا اور آنکھوں میںجھونکتا رہتا ہے ،کچھ عرصے سے اسے چین میں’’ مذہبی امتیاز‘‘ کے شکار مسلمانوں کی فکر ستانے لگی ہے اسکی چین کے بارے میں ایک کے بعد ایک رپورٹ آرہی ہے پہلے پہل تو میں نے بھی اتفاق جانا لیکن چین کے خلاف اچانک رپورٹوں کا تسلسل اور ایغور مسلمانوں کے لئے چھاتیوں میں دودھ اتار لینا محض اتفاق نہ تھا،اس ادارے کی مخصوص انداز میں کی جانے والی ’’اینگلنگ ‘‘ ایسی نہ تھی کہ اسکا نوٹس نہ لیاجاتا زرا سا غور کرنے پر عقدہ کھل جاتا ہے کہ یہ ادارہ بھی چین کے خلاف چلنے والی مہم میں اپنے حصے کا کام کر رہا ہے ۔ اب اسی نشریاتی ادارے نے مقبوضہ کشمیر کے بھارتی انضمام کے سیاہ فیصلے سے صرف چار روز پہلے یکم اگست کو بلوچستان کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے اسکا وقت اشاعت بہت معنی خیز ہے ’’بلوچستان کے مڈل کلاس طلبہ جو پاکستان میں آزادی کی خاطر لڑ رہے ہیں‘‘اس عنوان سے شائع کی گئی رپورٹ میں صحافتی اور تحقیق کے اصولوں کا خیال رکھا گیا نہ پروپیگنڈے میں ملفوف حقائق کو پرکھا گیا بلکہ اپنی مرضی کا بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ رپورٹ کی ’’ضرورت‘‘ کے مطابق سچ لے کر بدترین رنگ آمیزی کی گئی اور پاکستان کے خلاف چارج شیٹ تیار کرکے چھاپ دی گئی رپورٹ پڑ ھ کر تو یوں لگتا ہے کہ بلوچستان کا بچہ بچہ بلوچ لبریشن آرمی کا ’’حریت پسند‘‘ ہے جس کے ہاتھ میں کلاشن کوف ہے یا پتھر ۔۔۔ ایک بڑ ے معتبر گردانے جانے والے عالمی نشریاتی ادارے کی اس رپورٹ سے شائد میں بھی متاثر ہوتا اگر مجھے بلوچستان کے معروضی حالات سے واقفیت نہ ہوتی میں بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں بھی جاتا رہا ہوں اور بلوچ بیلٹ میں بھی آناجانا رہا ہے میں آواران میں بھی گھومتا پھرا ہوں بجلی سے محروم اسکولوں میں بچوں سے بھی ملا ہوں اوربازاروں میں لوگوں سے بھی بات چیت کی ہے ایسے نوجوانوں سے بھی ملا ہوں جو ریاست سے شدید ناراض ہیں لیکن جو ’’سچ‘‘ اس رپورٹ میں دکھایا گیا ہے اسکا سامنا کہیں نہیں ہوا ،ایسا نہیں کہ بلوچستان میں علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں یایہ صرف دیوار پر لکھے نعروں تک محدود ہے ۔ رپورٹ میں دونوجوانوں کا ذکر ہے ان میں ایک شاہداد بلوچ نامی نوجوان بھی ہے جو ایک علیحدگی پسند تحریک کا رکن تھا یہ نوجوان کچھ عرصہ پہلے ایک جھڑپ میں مارا بھی جاچکا ہے رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ نوجوان انسانی حقوق کی تنظیم (HRCP) کا علاقائی کوآرڈینیٹر بھی رہا جو تنظیم کو لاپتہ ہونے والوں کی اطلاع دیتا تھا اب یہ اطلاعات کس حد تک درست اور قابل بھروسہ رہی ہوں گی اس پر سوالیہ نشان رپورٹ میں شاہ داد کی تنظیمی وابستگی سے خود ہی لگا دیاگیاہے رپورٹ میں اسی ایچ آر سی پی بلوچستان کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیاگیا ہے کہ بیس ہزار بلوچوں کا اٹھایا جاچکا ہے جن میں سے سات ہزار مارے جاچکے ہیں لیکن ان مارے جانے والوں میں سے سات مڈل کلاس نوجوانوں کے نام بھی نہیں لکھے گئے جس سے رپورٹ پر ’’ٹیبل اسٹوری ‘‘ نہ ہونے اور قدرے مستند ہونے کے لئے سوچا جاسکتا تھااس رپورٹ کے سامنے سات سو لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے متحرک ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مطالبہ رکھ کرپوچھا جا سکتا ہے کہ ایمنسٹی کے مطابق اقوام متحدہ کے پاس جمع درخواستوں میں سات سو لاپتہ افراد ہیں باقی انیس ہزار تین سو کہاں ہیں ؟ اس کا ایک جواب سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے جانے والے ان نوجوانوں کی صورت میںملتا ہے جنکے نام لاپتہ افراد کی فہرست میں درج ہوتے ہیں اور جو افغانستان کا بارڈر عبور کرکے تخریبی کارروائیوں کے لئے یہاںآتے ہیں لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کی تعداد بھی اقوام متحدہ نے گزشتہ ماہ اپنی رپورٹ میں ساڑھے چھ ہزار سے زائد نہیں بتائی اور ان کا تعلق ٹی ٹی پی سے بتاتی ہے اگر ان ساڑھے چھ ہزار میں سے چار پانچ سو بھی بلوچ علیحدگی پسند مان بھی لئے جائیں تو رپورٹ میں مذکورباقی کہ اٹھارہ ہزار آٹھ سو لاپتہ نوجوانوں کی وضاحت کیسے ہوگی۔۔۔کتابوں میں پڑھا تھا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اب دیکھ بھی رہے ہیں!!