مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی موجودہ نیب سے دشمنی قابل فہم ہے کہ ان دنوں لاہور اور کراچی میں دونوں جماعتوں کے بڑے بڑے لیڈر اس قومی ادارے کی زد میں ہیں اور ایسے ایسوں کی طلبی ہو رہی ہے کہ جن کے روبرو نیب کے سربراہ کورنش بجا لاتے تھے۔ انہیں خود بھی یقین نہیں آ رہا کہ یہ کیا اور کیوں ہو رہا ہے ؎ ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں کتاب مبین میں اسے دنوں کا الٹ پھیر قرار دیا گیا ہے۔ نیب سے حسن سلوک احتساب کی علمبردار حکومت بھی نہیں کر رہی۔ میاں شہباز شریف گرفتار ہوئے تو حکومتی ترجمان کو اس پر بیان بازی کی ضرورت نہ تھی۔ خواہ مخواہ مخالفین کو نیب پر زبان طعن دراز کرنے کا موقع ملا نیب کے بارے میں موجودہ حکومت ہی نہیں انصاف پسند حلقوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک آزاد آئینی ادارہ ہے جو معاشرے کو لوٹ مار بے ضابطگی اور اختیارات کے ناجائز استعمال ایسی لعنتوں سے نجات دلانے کے لیے اپنے فرائض تندہی سے ادا کر رہا ہے۔ مگر حکومتی ترجمان جوش خطابت میں ایسی باتیں کہہ گزرتے ہیں جس سے ادارے کی ساکھ مجروح ہوتی اور مخالفین باتیں بناتے ہیں۔ ان بیانات پر نیب کے ارباب بست و کشاد اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں ع مجھ پہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا حکومت ناتجربہ کار ہے‘ اپوزیشن شاطر و ہوشیار اور میڈیا ضرورت سے فعال و بیدار‘ حکمرانوں کو ناتجربہ کاری کا الائونس مل سکتا ہے‘ فاش غلطیوں اور کہہ مکرنیوں کا نہیں۔وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ کو پنجاب کی حدود میں واقع جیل جا کر پوچھ گچھ کی کیا ضرورت تھی؟ اسے اپنے دائرہ کار کا علم ہونا چاہیے۔ موجودہ اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ کو صرف اقتدار سے محرومی کا دکھ نہیں‘ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کا صدمہ ہے اور کڑے احتساب کا خوف۔ میڈیا کو برتنے کا اُسے سلیقہ ہے اور بیورو کریسی میں اپنے ہمدردوں کے ذریعے حکومت کی ناکامی کا تاثر اجاگر کرنے میں وہ طاق۔ عمران خان کو اقتدار میں آئے صرف پچاس دن گزرے ہیں مگر اپوزیشن کی بے چینی دیکھ کر لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کم از کم پچاس سال سے پاکستان کے سیاہ و سفید کی مالک ہے اور اگر اس کا راستہ نہ روکا گیا تو اگلے چھ ماہ میں یہ پاکستان کو تباہ کر دے گی۔ اقتصادی اور معاشی شعبے میں حکومت کی گومگو پالیسی پر اعتراضات کا تو پھر بھی کوئی نہ کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے‘ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے میں تاخیر اور ڈالر کی قدر کے بارے میں بعض وزراء کے بیانات سے سٹاک مارکیٹ اور کرنسی مارکیٹ درہم برہم ہوئی۔ مخالفین کو تنقید کا موقع ملا مگر مسلم لیگ(ن) سے وابستہ معاشی ماہرین اور میڈیا میں اُن کے ہمنوا جب پاک چین تعلقات کے حوالے سے یہ درفنطنی چھوڑتے ہیں کہ موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ قومی مفاد کو دائو پر لگا کر سی پیک سے پیچھے ہٹ رہی ہے اور امریکی دبائو پر آزمودہ دوست چین سے فاصلہ پیدا کیا جا رہا ہے تو آدمی سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔ سی پیک ہو یا کوئی دوسرا مشترکہ منصوبہ قومی مفاد سے زیادہ مقدس اور اہم نہیں ‘اگر موجودہ حکومت کو شک ہے کہ ان منصوبوں میں پاکستان کو مالی نقصان پہنچا اور سابقہ حکمرانوں نے محض اپنی جیبیں بھرنے کے لیے چین کی بے ریا دوستی کا ناجائز فائدہ اٹھایا تو ان منصوبوں پر نظرثانی میں کیا حرج ہے ؟کیا ملائشیا نے بائیس ارب ڈالر کے منصوبوں کے آڈٹ کا حکم دے کر چین کو ناراض کر لیا؟ سری لنکا نے نظرثانی سے باہمی تعلقات خراب کئے۔؟ ہرگز نہیں۔ چند روز قبل نیوز ایجنسی رائٹرز یہ انکشاف کر چکی ہے کہ چینی حکومت بعض منصوبوں پر نظرثانی کے لیے تیار ہے جس کا مطلب ہے کہ دوست ملک کی قیادت پاکستان کے تحفظات سے متفق اور وہ ہماری اقتصادی و معاشی مشکلات کو کم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اگر چینی حکومت موجودہ حکومت کے انداز فکر سے رنجیدہ اور طریقہ کار سے پریشان ہوتی تو کسی نہ کسی سطح پر اس کا اظہار ضرور ہوتا۔ بجا کہ چینی حکومت سفارتی نزاکتوں کا لحاظ کرتی اور سخت سے سخت بات ملائم لہجے میں کرنے کی عادی ہے مگر اپنے ریاستی مفادات کے حوالے سے وہ بہت زیادہ حساس ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ تو ویسے ہی اس کی اقتصادی ‘ معاشی‘ دفاعی اور خارجہ پالیسی کا سنگ میل ہے پاکستان کی عدم دلچسپی‘ امریکی دبائو قبول کرنے کی اطلاعات اور رکاوٹوں پر وہ کیسے خاموش رہ سکتی ہے؟۔ اگلے ماہ عمران خان چین جا رہے ہیں اگر کوئی خدشہ‘ اندیشہ چینی حکمرانوں کو ہوا بھی تو وہ اظہار خیال میں تکلف سے کام نہیں لیں گے‘ مگر محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے بیان بازی‘ الزام تراشی اپوزیشن کو زیب دیتی ہے نہ دانشوروں اور تجزیہ کاروں کو کہ یہ دو آزاد وخود مختار اور آزمودہ کار ریاستوں کے مابین تعلقات اور مفادات کا معاملہ ہے ‘ مذاق نہیں۔ حکومت کے متنازعہ فیصلوں اور قابل اعتراض اقدامات کی گرفت اپوزیشن کا حق بلکہ فرض ہے اور اپنے وجود کا احساس دلانا اس کی ضرورت۔ مگر مخالفت برائے مخالفت اور اعتراض برائے اعتراض سے چند ہفتے قبل اقتدار سنبھالنے والی حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانا دانشمندی نہیں۔ حکومت بلند بانگ دعوئوں سے عوام کی توقعات بڑھا رہی ہے اور اپوزیشن کے لیے اپنی کارکردگی پر سوال اٹھانے کے مواقع خود پیدا کر رہی ہے‘ اگر موجودہ حکومت کے اقدامات سے مہنگائی بڑھتی ہے‘ روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوتے‘ غربت و ناخواندگی کم نہیں ہو پاتی تواپوزیشن کے لیے عوام کو متحرک کرنا آسان ہو گا لیکن اگر وہ غریب نادار اور نچلے متوسط طبقے کے عوام کو قابل برداشت اقساط پر گھروں کی فراہمی کا آغاز کرتی‘ مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہتی‘ اور قومی وسائل کی لوٹ مار پر قابو پانے میں کامیاب رہتی ہے تو کون اسے ہلا سکتا ہے۔ میڈیا کے محاذ پر البتہ اپوزیشن کا پلڑا اب تک بھاری ہے جس کی متعدد وجوہ ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت ابھی تک ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے اور میڈیا کو قرار واقعی اہمیت دینے اور گدھے گھوڑے میں تفریق کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اقتدار میں آتے ہی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے سرکاری اشتہارات میں کمی‘ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام اور وزیر اعظم کی میڈیا سے دوری وہ اسباب ہیں جو اس محاذ پر اپوزیشن کو آکسیجن فراہم کر رہے ہیں جبکہ عمران خان نے تحریک انصاف کو بھی حکومت اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے مخلص‘ متحرک اور فعال کارکنوں کا کوئی پرسان حال نہیں اور انہیں کم از پنجاب کی حد تک مایوسی اور بے یقینی کا سامنا ہے۔ ظاہر ہے یہ میڈیا کا کیا دھرا ہے نہ اپوزیشن کا کارنامہ۔ پارٹی کے جو عہدیدار صدر‘ وزیر‘ مشیر‘ گورنر معاون خصوصی بن چکے وہ تنظیمی کام کر سکتے ہیں نہ اُن کے پاس وقت اور نہ کوئی دلچسپی۔ متبادل انتظام نہ کیا گیا تو متوسط طبقے کی اُمیدوں کا مرکز تحریک انصاف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) سے کم عرصے میں بے وقعت ہو گی۔ اپوزیشن اوربیورو کریسی میں سابقہ حکمرانوں کے ہمدرد افسروں کو اسی وقت کا انتظار ہے۔ تجاوزات کے خلاف اتنی بڑی مہم چلا کر حکومت نے قبضہ گروپوں کو خلاف کر لیا مگر عوام کو اس کے فوائد و مضمرات سے آگاہ کرنا‘ کس کی ذمہ داری ہے؟ تحریک انصاف کے پرجوش کارکن ہی یہ کام کر سکتے ہیں مگر انہیں کسی نے اعتماد میں لیا؟ اپوزیشن تو ادھار کھائے بیٹھی ہے مگر حکومت؟