ہم اسے اپنی خوش قسمتی کے علاوہ بھلا اور کیا نام دے سکتے ہیں کہ اس وقت ملک کے کچھ متعدد مقبول و معروف اخبارات و رسائل ہمارے سامنے رکھے ہیں۔ ہم ان میں دی گئی سنہری پیشکشوں اور اپنے نوجوانوں کو میسر سہولیات پر زارو قطار مسکرا بلکہ باغ باغ ہوئے جا رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا، جسے ظاہر ہے جہالت اور بے خبری کا زمانہ ہی کہا جا سکتا ہے، جب لوگوں کو اپنی حاجت روائی کے لیے سَنتوں، سادھوؤں کی تلاش میں جنگل بیلے چھاننا پڑتے تھے۔ معمولی معمولی امراض کے ازالے کے لیے ساٹھ ساٹھ ستر ستر سالہ سنیاسی بابوں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے مارا مارا پھرنا پڑتا تھا۔ بادشاہوں کی ذرا ذرا سی خواہشوں کی تکمیل کی خاطر وزرا، سفرا جانوں پر کھیل جایا کرتے تھے، ورنہ ان کا گھان بچہ کوہلو میں پیڑ دیا جاتا تھا۔ شاہی محلوں میں پلے نازک اندام شہزادے محض خواب میں دکھائی دے جانے والی فرضی شہزادی کی تلاش میں نگر نگر کی خاک چھانتے پھرتے تھے اور اسی حسرتِ موہوم کی بار آوری کے لیے اکثر کسی ظالم جادو گر کے ہتھے چڑھ جاتے، جو اُن کے ماتھے میں سوئی چبھو کر انھیںطوطا بناکے پنجرے میں بند کر لیتا، ہماری کلاسیکی داستانوں کے مطابق اکثر شہزادے زندگی کے بقیہ دن اسی’ پرو بالی‘ کے عالم میں کاٹا کرتے۔ تا وقتے کہ کوئی وزیرِ با تدبیر اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر انھیں اس طوطا چشمی سے نجات دلا دے۔ ہماری اساطیری دنیا کی کتنی ہی سندر شہزادیاں ہیبت ناک پہاڑوں کے درمیان بسنے والے مکروہ کالے دیووں کی اندھیر کوٹھڑیوں میں پڑی ملتی ہیں، جن کا کام محض اپنے دیس ملک کے کسی فرد کو دیکھ کر پہلے ہنسنا اور پھر رونا ہوتا تھا۔ قصور اُن کا صرف اتنا ہوتا کہ وہ کسی پالتو طوطے یا سوتیلی ماں کے طعنے سن کے خیالات کے تانے اور قیاسات کے بانے بُنتی کسی خیالی شہزادے کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتیں۔ اپنے حاتم طائی کا حال ہی دیکھ لیجیے، جو فضول فضول سوالات کے جوابات ڈھونڈتا در بدر ہوا پھرتا تھا۔ آج ہم اپنی قسمت پہ کیوں نہ اِترائیں کہ ہماری زندگی کے بڑے سے بڑے مسئلے کا حل، ناز پان مسالے کی طرح ہماری مٹھی میں بند ہے۔ کیسے کیسے ماہر عامل و کامل خواتین و حضرات ہماری ہر طرح کی مشکلات دور کرنے کے لیے خدمت گار اور رضا کار بنے قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ نہ صرف کھڑے ہیں بلکہ دیدہ زیب دفتر اور سہولت کاری کے ٹھکانے بنائے بیٹھے ہیں۔ نہ صرف ٹھکانے بنائے بیٹھے ہیں بلکہ ہماری خدمت کے لیے ٹونٹی فور سیون حاضر ہیں۔ نہ صرف حاضر ہیں بلکہ ہمارے مسائل کی نوعیت و کیفیت کا ہم سے بھی بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ انھیں بہ خوبی علم ہے کہ ہماری نوجوان نسل کا سب سے اہم معاملہ سنگ دل سے سنگ دل محبوب کو اپنے قدموں میں لا بٹھانا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بے روزگار نوجوانوں کے ادھار یا گھر سے چرائے پیسوں سے خریدے انعامی بانڈز کا من مرضی کا نمبر کیسے لگوانا ہے؟ ہمارے یہ علماء اور عملاء چونکہ اسی معاشرے کے ذمہ دار فرد بھی ہیں، اس لیے جانتے ہیں کہ ہمارے سکولوں کالجوں کے طلبہ و طالبات کسی نہ کسی مجبوری یا مصروفیت کی بنا پر امتحانی معاملات پہ توجہ نہیں دے پاتے، اس لیے ان کی امتحان میں کامیابی کا خاطر خواہ بندوبست بھی ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ پھر ان کی دور اندیشی کا اندازہ لگائیے کہ انھیں یہ بھی پیشگی علم ہے کہ اگر بچہ بلا محنت منھ مانگے نمبروں سے پاس ہو گیا تو وہ اس ملک کے دیسی ماحول میں کہاں خاک چھانتا پھرے گا؟ وہ لازماً ان کی فیسوں کی تاب لانے کے لیے کسی ترقی یافتہ اور کھاتے پیتے بلکہ کھلاتے پلاتے لبرل ملک کا رخ کرے گا، اس لیے ایسے لوگوں کے لیے باہر کے سفر کے لیے بھی انتظامات پہلے سے موجود ہیں۔ اسی طرح کسی کا ٹوٹا ہوا دل جوڑنا ہو، من پسند شادی کا ارادہ ہو، کسی بیری دشمن کو سبق سکھانا ہو، روٹھے ہوئے خاوند، بیوی یا رشتے دار کو منانا ہو، گرتے ہوئے کو اٹھانا ہو، ڈوبتے ہوئے کو بچانا ہو، بِچھڑے ہوئے کو پاس بلانا ہو، ناممکن کو ممکن بنانا ہو، طلاق لینی ہو یا ہوتی ہوئی طلاق کو رکوانا ہو، مدت سے بند رستوں کو کھلوانا ہو،مایوسیوں کو دور بھگانا ہو،ساس بہو کا جھگڑا نمٹانا ہو،مقدمے اور ہر طرح کی بیماری کو ختم کرانا ہو،جھگڑالو اور بد فطرت سوتن سے نجات پانا ہو،رکے ہوئے کاروبار کو دوبارہ چلوانا ہو،دو دلوں کو ملوانا ہو تو آپ کے لیے خوش خبری ہے کہ اب ان چھوٹے چھوٹے جھنجھٹوں کے لیے کسی جنگل، پہاڑ یا ویرانے کا پیدل رُخ کرنے کی ہر گز ہرگز ضرورت نہیںبلکہ خوش ہو جائیے کہ ان سب مسائل کا تسلی بخش حل ایک کال کی دوری پر موجود ہے… کر اشارہ، دیکھ نظارہ!! آج چودہ فروری کے اس اہم دن کے موقع پر ہمارے نوجوانوں کو شادہو جانا چاہیے کہ اب انھیں کافروں کے بنائے ہوئے ویلنٹائن ڈے جیسے خرخشوں میں پڑ کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں مہنگے مہنگے کمرے بک کرانے کی قطعاً ضرورت نہیں ، اسی طرح دو روپے کی گلاب کی ٹہنی دو سو میں خریدنے سے بھی پرہیز کرنا ہوگا ۔ دل کی شکل میں بنے سرخ غباروں کو تو آنکھ بھر کے دیکھنے سے بھی احتراز برتیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے موقعوں پر ہمارے نوجوان لڑکیاں لڑکے، گھر سے لڑ کے یہودیوں کے بہکاوے میں پڑ کے مہنگے مہنگے تحائف دینے کے بھی مقابلے کرتے ہیں، جن سے غیر مسلموں کے رسم و رواج عام ہونے کے ساتھ ساتھ وقت اور روپے پیسے کا بھی زیاں ہوتا ہے۔لہذا اس سے دوری میں عافیت ہے۔