صدر ٹرمپ کا اپنا ہی مزاج ہے۔ وہ کیا کریں گے اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو ان کے ہم مزاج ہوں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو انہوں نے کس دباو ٔپہ اچانک ختم کیا یہ میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا اور یہ بھی کہ ضروری نہیں کہ اب انہوں نے یہ باب بند ہی کردیا ہو چاہے وہ کہتے رہیں کہ بات ختم ہوچکی۔اب کوئی مذاکرات نہیں ہونگے۔ انہوں نے کیمپ ڈیوڈ میں متوقع طالبان رہنماوں کے ساتھ مذاکرات کو پینٹا گون کے دبا ؤپہ اچانک ختم تو کردیا لیکن اس کے ساتھ ہی اپنے نیشنل سیکوریٹی ایڈوائزر جان بولٹن کو بھی بیک جنبش ٹوئٹر فارغ خطی پکڑا دی اور اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں ایک نئی ہلچل مچا دی۔ کہا تو یہی جارہا ہے کہ سارا مسئلہ طالبان رہنماؤں کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کا تھا۔ یعنی ذرا سوچئے کہ مذاکرات کے بعدامریکہ کا صدر اور طالبان رہنما کیمپ ڈیوڈ میں دنیا بھر کے میڈیا کو بریفنگ دے رہے ہیں اور وہ بھی عین اس دن جب امریکہ میں نائن الیون کی اٹھارویں برسی منائی جارہی ہوگی۔وہ نائن الیون جس کے بعد دنیا بدل گئی تھی اور صدر بش نے کہا تھا کہ ہم ایک صلیبی جنگ کا آغاز کرنے جارہے ہیں۔وہی نائن الیون جس کے بعد وہ حد فاصل کھینچ دی گئی تھی جس کے ایک طرف ساری دنیا تھی اور دوسری طرف کہساروں کے دامن میں سمٹی تہی داماں اور درماندہ امارات شریعہ افغانستان جس کی قیادت یک چشم ملا عمر کرتا تھا۔تب تک کل کے مجاہدین جن پہ ہالی ووڈ فلمیں بنایا کرتا تھا ، دہشت گرد قرار دیئے جاچکے تھے اور خدا کی زمین ان پہ تنگ کردی گئی تھی۔طرفہ تماشا یہ تھا کہ بپھرے اور زخمائے ہوئے امریکہ کا نشانہ نہ سعودی عرب تھا نہ ایران نہ پاکستان۔اس کا نشانہ وہ افغانستان تھا جس سے کسی کو خطرہ نہیں تھا۔نہ ان کے پاس ایٹمی ہتھیار تھے نہ ہی ان کی معیشت اس کا بوجھ سہارنے کے قابل تھی۔آج اٹھارہ برس اپنی طاقت اور جبروت کا ہر حربہ آزمانے کے بعد امریکی صدر طالبان کو وائٹ ہاوس نہیں کیمپ ڈیوڈ مدعو کررہا تھا۔۔ چشم فلک کو تو یہ نظارہ منظور ہوگا لیکن وائٹ ہاوس میں بیٹھے پینٹاگون کے سفید عقابوں کو یہ ہرگز منظور نہ تھا۔یہ تو صاف صاف طالبان کو صف اول کے عالمی رہنماؤں کا درجہ دینے کی جسارت تھی۔یہ تو حد ہی ہوگئی تھی۔ صدر ٹرمپ اس وقت دباو ٔمیں ہیں۔ میں نے پہلے کئی بار لکھا ہے کہ وہ دنیا بھر سے امریکی افواج کی واپسی چاہتے ہیں اور ان کی تمام تر توجہ امریکہ کی اقتصادی حالت بہتر بنانے پہ مرکوز ہے۔ یہی ان کی انتخابی مہم کا سب سے پہلا نکتہ بھی رہا ہے یعنی انہوں نے اسی پہ اپنی عوام سے ووٹ لئے ہیں۔ پینٹا گون لیکن اس پہ راضی نہیں ہے۔ ظاہر ہے دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونکنے سے اس کے پیٹ کا دوزخ چلتا ہے۔جس وقت صدر ٹرمپ برسر اقتدار آئے یہی سفید عقاب ان کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھے تھے اور صدر ٹرمپ ان سے کس طرح نمٹ رہے تھے یہ آپ ان کے فارغ کردہ معززین کی فہرست اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں۔جنوری 2017 ء سے ، یعنی جس د ن سے صدر ٹرمپ نے حلف اٹھایا، وائٹ ہاوس انتظامیہ کے اڑتیس کے قریب معززین یا تو استعفیٰ دے کر گھر جا چکے یا جو اس پہ راضی نہ ہوئے ، ٹرمپ نے ایک ٹویٹ پہ فارغ کردیئے او ر جان بولٹن سمیت ایسے ڈھیٹ معززین کی تعداد چھ بنتی ہے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ جنہیں نکال نہ سکے ان کے لئے حالات ایسے پیدا کردیئے کہ وہ از خود عزت سے گھر چلے جائیں۔ان میں سے اکثر وہ تھے جنہیں عرف عام میں ہارڈ لائنر کہا جاتا ہے۔ان میں سے ہی ایک جم میٹس بھی تھے جو شام سے صدر ٹرمپ کے امریکی فوج کے انخلا کے پروگرام کے مخالف تھے اور چاہتے تھے کہ ابھی کچھ دیر مزید مشرق وسطیٰ میں امریکہ موجود رہے۔جم میٹس ویسے تو ریٹائر ہونے والے تھے لیکن شام پہ اپنے مخالفانہ بیانات کے سبب ذرا قبل از وقت ریٹائر کردیئے گئے۔ان کی جگہ پینٹا گون نے ان سے بھی شدید ہارڈ لائنر پیٹرک شیناہن کو نامزد کیا۔موصوف کے تعارف کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ بوئنگ کے سابق سربراہ رہے ہیں جو امریکی محکمہ دفاع کے لئے ملٹری طیارے اورمیزائل سسٹم بناتی رہی ہے۔ اس کمپنی میں امریکی جرنیلوں کا اچھا خاصا سرمایہ لگا ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پینٹاگون کے دباو ٔمیں آکر پیٹرک شیناہن کو عبوری سیکریٹری دفاع لگائے رکھا تآنکہ ان کے خلاف ماضی میں گھریلو تشدد کا ایک کیس منظر عام پہ نہ آگیا۔ریکس ٹلرسن بھی چین روس اور شام کے معاملے میں صدر ٹرمپ کی مصالحتی پالیسیوں کے خلاف تھے ۔ ایک ٹویٹ کے ذریعے صدر موصوف نے ان سے عہدہ چھوڑنے کی استدعا کی اور ان کی خدمات کا شکریہ ادا کیا۔ اسٹیو بینن جو اپنی اسلام دشمنی کے سبب بدنام تھے اور جنہیں اسی مقصد کے لئے وائٹ ہاوس میںبٹھایا گیا تھا ، انتہائی مختصر مدت کے بعد صدر ٹرمپ نے انہیں بھی فارغ کردیا۔در حقیقت صدر ٹرمپ اب تنازعات سے نکلنا چاہتے ہیں اور وہ شمالی کوریا،ایران اور شام میں یہی کررہے ہیں۔ ان کا مطمع نظر ایک ہی ہے اور وہ ہے گریٹر اسرائیل جس کے لئے وہ لائے گئے ہیں۔ اس قصہ دلپذیر میں ایک اہم بات رہ گئی ہے ۔بکراہت تمام استعفیٰ دینے والے اور بیک جنبش ٹوئٹر بدست خاص صدر ٹرمپ فارغ ہونے والوں میں ایک قدر مشترک تھی۔ یا تو وہ صدر ٹرمپ کی مصالحتی پالیسی کے مخالف تھے یا اندرون خانہ وائٹ ہاوس کی چیرہ دستیوں اور آپسی پیشہ وارانہ عداوت کا شکار ہوئے تھے جن میں مرکزی کردار پینٹا گون کا تھا۔گمان غالب تو یہی ہے کہ صدر ٹرمپ پینٹا گون کے دباو کے باوجود طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز ایک بار پھر بچھائیں گے۔ یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے۔ ایک طرف امریکی ایوانوں میں حقیقتاً خلفشار مچا ہوا ہے اور دوسری طرف مذاکرات کی منسوخی کے بعد طالبان ہر قسم کے دباؤسے آزاد منزلوں پہ منزلیں مارتے جارہے ہیں ، انہیں کسی کی پروا نہیں ہے۔