الیکشن سے عین بارہ روز قبل تو حد ہی ہوگئی۔ جیل نواز شریف گیا اور قید پی ٹی آئی کے سپورٹر ہوگئے۔ ایک کے بعد ایک اس کے لگاتار چھ جلسے یوں بری طرح ناکام ہوگئے جیسے کسی نے پی ٹی آئی کے جلسوں میں آنے والوں کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی ہوں۔ جہلم کے جلسے پر تو چہلم کا گمان ہو رہا تھا۔ اپنے اپنے وقت کے آٹھ طاقتور ترین لوگوں کی آٹھ سالہ محنت تو جیسے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے۔ غبارے میں اپنے اپنے حصے کی ہوا بھرنے والے فرماتے ہیں ’’پی ٹی آئی کی ہوا چلی ہوئی ہے، یہی جیتے گی‘‘ ہم بطور تھیوری تو اسے تسلیم کرسکتے ہیں لیکن بھری جلسہ گاہیں دکھا کر ثابت تو کیجئے کہ ہوا وجود بھی رکھتی ہے۔ نظر تو یہ آرہا ہے کہ 13 جولائی کو ہوا اکھڑ گئی ہے۔ پی ٹی آئی 13 جولائی کے بعد ایک بھی کامیاب جلسہ نہیں کر سکی۔ نوبت یہ آگئی ہے کہ اس کا لاہور کا متوقع جلسہ بھی یقین نہیں کہ ہوسکے گا یا نہیں۔ اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ نتائج حسب منشا نکل آئیں گے تو یہ ایک بہت بڑی خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ خوش فہمی بھی تب کام آسکتی ہے جب مقابلہ کانٹے کا ہو۔ پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں میں ووٹ کا زیادہ بڑا فرق نہ ہو۔ آٹھ دس ہزار کا فرق ’’مینج‘‘ کیا جا سکتا ہے لیکن اگر فرق بہت بڑا ہو اور رجحان بھی پورے ملک کی سطح پر ہو تو پھر دست شفقت سینہ کوبی کے سوا کسی کام نہیں آتا۔ کون نہیں جانتا کہ جسے دست شفقت میسر ہو اسے یہ بات پہلے روز بتادی جاتی ہے کہ جلسہ گاہ اور بیلٹ بکس بھرنا آپ کی ذمہ داری ہوگی۔ اگر آپ کی جلسہ گاہ میں شاپر اڑ رہے ہوں اور امیدوار بھاری ووٹ نہ لے سکے تو پھر ہم آپ کے لئے کچھ نہ کر پائیں گے۔ بھری پڑی جلسہ گاہ اس لئے ضروری ٹھہرتی ہے کہ عوام کو قائل کیا جاسکے کہ انتخابی نتائج اسی رجحان کے مطابق آئے ہیں جو جلسوں میں عوامی شرکت کی صورت سب نے دیکھا۔ ایسے میں پی ٹی آئی کے جھنگ، سیالکوٹ، فیصل آباد، جہلم اور شاہدرہ کے جلسوں کے خالی پنڈال خطرے کی وہ گھنٹی ہے جو قومی سطح پر سنی جا چکی۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پولنگ سٹیشن پر بھی اب پی ٹی آئی کے ساتھ وہی ہونے جا رہا ہے جو 13 جولائی کے بعد سے جلسہ گاہوں میں ہو رہا ہے اور انتخابی نتائج میں ہم آہنگی نہ نظر نہ آرہی ہو تو ردعمل میں جو کچھ ہوگا اسے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ کچھ لوگ اب تک نہیں سمجھ سکے کہ یہ نوے کی دہائی والا وہ پاکستان نہیں جس میں نجی الیکٹرانک میڈیا تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا۔ لے دے کر اخبارات تھے اور ان کا گلہ دبانے کے لئے بارہ گھنٹے کی مہلت دستیاب رہا کرتی تھی۔ سو قوم اگلے دن وہی اور اتنا ہی پڑھ پاتی تھی جتنا اور جیسا اسے پڑھوانے کی اجازت ہوا کرتی تھی۔ بہت بڑے بڑے انکشافات کے لئے کسی ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا صحافی کی اس کتاب کا انتظار کرنا پڑتا تھا جو 1990ء کے رازوں سے 1995ء میں پردہ اٹھا رہی ہوتی تھی۔ قوم وہ کتب پڑھ کر حیرت سے انگلی دانتوں میں دبا لیا کرتی تھی کہ اچھا تو پانچ سال قبل ہمارے ساتھ یہ ہوا تھا ؟ آج کا پاکستان الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی برکت سے ایک ایسا پاکستان ہے جس میں سینسر شپ کامیاب ہو ہی نہیں سکتی۔ حالیہ تجربے نے ثابت کردیا کہ الیکٹرانک میڈیا کا گلہ دبایا جائے گا تو جو وہاں نشر نہ ہوسکے گا وہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچ جائے گا۔ سوشل میڈیا نے عوام کے شعور کو بے پناہ قوت بخشی ہے۔ اور یہ عوامی شعور اداروں کی حدود کا قائل ہے۔ یہ عوامی شعور چیئرمین واپڈا سے پانی اور بجلی کے مسائل کے حل کی ہی توقع رکھتا ہے۔ یہ چیئرمین واپڈا کی این ایچ اے یا موٹروے کے کام میں مداخلت کا قائل نہیں۔ اس شعور کے نزدیک این ایچ اے اور موٹروے کے کام انہی اداروں کے سربراہوں کے کرنے کے ہیں۔ قوم کے اجتماعی شعور کو اطلاعات کنٹرول کرکے گمراہ تو کیا جا سکتا ہے جیسا کہ بیسویں صدی کے پاکستان میں کیا جاتا رہا لیکن اطلاعات تک رسائی ہونے کی صورت میں اس اجتماعی شعور کو بد دیانتی پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ پچھلے ایک سال سے یہ قوم بہت کچھ دیکھتی آرہی ہے۔ اور اس نے اس عرصے میں جو کچھ دیکھا وہ غلط اور صحیح کا فیصلہ دینے کے لئے کافی ہے۔ وہی فیصلہ جسے عوامی فیصلہ کہا جاتا ہے !