وہ میری ان دنوں کی سہیلی تھی جب زندگی نیلے اور سفید یونیفارم میں ملبوس ‘ بے فکری کی دہلیز پر روز ایک نیا خواب بنا کرتی۔ ماں باپ کی چھتنار چھائوں تلے اٹھکیلیاں کرتی۔ کبھی نہ رکنے والے بے وجہ قہقہوں سے سجی رہتی۔اس سے ملنے کا پہلا دن مجھے آج بھی یاد ہے۔ خان پور میں انگلش طرز تعمیر پر بنی ہوئی ریلوے کالونی کے ایک پرسکون اور سرسبز گوشے میں وہ سکول تھا جسے ہم روانی میں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ریلوے کالونی خان پور کہا کرتے تھے۔ جہاں میرا داخلہ چوتھی کلاس میں ہوا تھا۔ والد صاحب کا تبادلہ رحیم یار خاں سے خان پور ہونے کے بعد سکول داخلوں کا مرحلہ آیا ریلوے کالونی میں آباد اس گورنمنٹ سکول کو شہر کا بہترین سکول کہا گیا ۔سو میرا اور بڑی بہن کا داخلہ اس سکول میں ہوا۔ کسی بھی نئی جگہ پر پہلے دن میں عجیب اجنبیت سی ہوتی ہے اور ایسی ہی اجنبیت نے ہی میرے ننھے دل کو گھیرا ہوا تھا۔ سکول کے گیٹ سے لے کر کلاس روم کے بنچوں تک۔ سکول کی پروقار استانیوں سے لے کر سفید اور نیلے یونیفارم میں ملبوس سینکڑوں طالبات کے چہروں تک ۔جنبیت پھیلی ہوئی تھی اور میں ایک پڑھاکو ‘ قدرے نک چڑی اپنے زعم میں رہنے والی ننھی لڑکی تھی‘ جسے اس روز ’’شبانہ صدیق ‘‘ کی صورت میں بلا کی خوش اخلاق باتونی اور وجہ ‘ بے وجہ ہنسنے والی پیاری سی دوست ملی۔ اتنے سالوں کے بعد بھی ریلوے کالونی خان پور کے سکول میں اس اجنبی دوپہر میں مجھے اس کی اپنائیت اور محبت کے سارے انداز یاد ہیں۔ اس نے کلاس میں آنے والی نئی لڑکی کو جس طرح سے خوش آمدید کہا۔ اسے اپنے بنچ پر جگہ دی اور اس طرح ہم ایک دوسرے سے دلوں میں گھر کر گئے۔ یہ دوستی کے اس سفر کا پہلا باب تھا۔ جس کا اختتام 27جنوری 2019ء کو اس کی ناگہانی موت سے ہوا۔ وہ زندگی سے بھری ہوئی تھی۔ زندگی سے اس قدر لبریز تھی کہ گمان تک نہیں تھا کہ موت اس کے اس قدر قریب ہے اور ایک روز وہ موت کا ہاتھ پکڑ کر عدم کی راہوں میں گم ہو جائے گی۔ لیکن شاید موت تو ہم سب کی زندگی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ مولا علیؓ کا قول یاد آتا ہے کہ موت زندگی کی محافظ ہے۔ گویا زندگی اور موت ایک ہی سکے کے دو رخ ہوں۔ انسان تو مگر جینے کی خواہش میں مبتلا ہے۔ اس کی جان کے ساتھ رشتے ناتے‘ خواہشوں اور خوابوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جڑا ہوا ہے۔ ہم لاکھ یقین رکھیں کہ موت برحق ہے اور ہم سب بھی ایک روز اس سے ملنے والے ہیں لیکن پھر بھی انسان کبھی موت کی پلاننگ نہیں کرتا۔ اسی لئے موت ہمیشہ سرپرائز دے جاتی ہے۔ جانے والا تو اگلی منزل کو روانہ ہو جاتا ہے مگر پیچھے رہ جانے والے‘ ہجر اور حیرانی سے دوچار بس خالی کمروں اور سونی دہلیز کو تکتے رہ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی آنکھوں کو بھر جاتا ہے اور کبھی کبھی کوئی دکھ کی دہلیزیں سونی کر جاتا ہے۔ میری سہیلی کا بچھڑ جانا اس کے پیاروں کے لیے ایسا ہی دکھ ہے! عمر ایمان‘ مریم اور خدیجہ کی جان چھڑکنے والی ماں‘ بھائی نوید عامر کی محبت کرنے والی شریک سفر راشدہ باجی ‘ فرزانہ باجی اور مصباح کی پیار کرنے والی بہن وہ زندگی سے جڑے ہوئے ان میٹھے رشتوں میں بندھی تھی اس کی رخصتی کا خلا صرف اس کی یاد ہی بھر سکتی ہے۔ یا وہ صبر جو خدا ہجر زدہ دلوں پر اتارتا ہے! میں جب شبانہ کو یاد کروں تو ایک پوری دنیا میرے سامنے آباد ہو جاتی ہے۔ وہی خان پور والا گھر۔ سکول کا زمانہ‘ مہربان ٹیچرز کے چہرے جنہیں ہم آئیڈلائز کہا کرتے تھے۔ آدھی چھٹی میں دیسی گھی کے پراٹھے‘ آملیٹ اور اچار کی مہک‘ گرما گرم سموسے دہی کی چٹنی سکول کی غیر نصابی سرگرمیوں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔ آٹھ بجے کا دیکھا ہوا پی ٹی وی کا ڈرامہ اگلے روز ایک دوسرے کے ساتھ پھر سے ڈسکس کرنا اور اگلی قسط میں کہانی اور کرداروں کے بارے میں پیشین گوئیاں کرنا۔ پھر نویں اور دسویں میں شعاع اور خواتین ڈائجسٹ پڑھنے کا شوق بھی ہم دونوں نے اکٹھے پالا۔ کتاب پڑھنے کا شوق بھی بہت تھا۔ وہ عمران سیریز بہت شوق سے پڑھا کرتی۔ مگر مجھے اس میں دلچسپی نہ تھی۔ کئی بار عمران سیریز کی کہانی سنانے کی کوشش کرتی۔ میں لاکھ نہ سننا چاہتی مگر وہ سنا کر دم لیتی اور پھر خوب کھلکھلا کر ہنستی کہ دیکھا تمہارا وقت برباد کیا! اس وقت ہمارے گھروں میں فون نہیں تھے۔ سو میں چھٹی کرتی تو وہ اس روز کا ہوم ورک تفصیل سے لکھ کر میری بڑی بہن کو دے دیتی۔ اس کے ساتھ دو تین صفحات پر مشتمل ایک دلچسپ خط ہوتا جس میں پورے دن کی روداد لکھی ہوتی۔ بعد میں جب وہ فیملی کے ساتھ ملتان شفٹ ہو گئی تو اس کے خط باقاعدگی سے آیا کرتے۔ لمبے لمبے خط کسی دلچسپ کہانی کی طرح پڑھنے والے کو اپنے ساتھ باندھے رکھتے۔ جواباً میں بھی خط لکھتی لیکن جو روانی اور سلاست شبانہ کے خط میں ہوتی وہ مجھے میسر نہیں تھی۔ پھر خطوں کا دور بیت گیا فون‘ سیل فون آ گئے۔ رابطے اگرچہ آسان ہو گئے مگر ان رابطوں میں وہ گہرائی اور چاشنی نہ تھی جو خطوں میں ہوتی تھی۔ میں اکثر اسے کہتی کہ تمہاری تحریر میں بہت روانی ہے۔ تم افسانہ کیوں نہیں لکھتی۔ اس کی عملی زندگی جلدی شادی کی وجہ سے جلدی شروع ہو گئی۔ شاید اس لئے وہ کبھی اس طرف توجہ نہ دے سکی۔ کچھ سالوں سے اس میں ٹھہرائو آ گیا تھا۔ اس پہ اللہ کی رحمت یہ ہوئی کہ وہ دین کی طرف بہت مائل ہو گئی تھی۔ یقین اور ایمان کی اس منزل پرتھی کہ جب اسے اپنی بیماری کا پتہ چلا تو ذرا بھر نہیں گھبرائی ‘ایسی پیار ی اور حوصلہ مند کہ انسان حیرت زدہ رہ جائے۔ وہ ہمیشہ حیران بھی کرتی کبھی ہر سالگرہ پر وٹسپ کر کے کبھی اچانک ملنے کو آ کر اور پھر ایک دن زندگی کو خدا حافظ کہہ کر نظروں سے اوجھل ہو کر۔! خدا اس کی آخری آرام گاہ کو نور سے بھر دے ۔ میری یادوں میں وہ ہمیشہ ہنستی مسکراتی رہے گی۔ ہاں مگر بچپن اور سکول کی وہ یادیں جو ہمیشہ خوش رکھتیں تھیں اب یاد آئیں گی تو آنکھوں میں نمی بھر دیں گی: لحد کی‘ مٹی کی‘ تقدیر کی امان میں دوں سفید لٹھے میں کفنا کے سرخ شاخِ گلاب ہوا بہشت کے باغوں کی زلف زلف پھرے تری لحد ترے بالیں کے گرد جوئے شراب یہ تنگ وتار گڑھا نور سے بھرے عامرؔ سدا رہے تیرے حجرے میں ہالہ مہتاب (منفرد شاعر عامر سہیل نے یہ اشعار اپنی آپا طاہرہ جبیں ہاشمی کی وفات پر کہے تھے)