چشمِ وا مولانا کی گرویدہ ہو چکی ہے،عزیمت اور جمہوریت اب ان کے ہاتھوں میں ہے اور وہ اپنی جرات رندانہ سے برنگ شعلہ دہک رہے ہیں۔ حزب اختلاف کی اے پی سی میں وہ کسی شیر کی طرح دھاڑ رہے ہوتے ہیں کہ اسمبلیوں سے استعفے دو اور ان کے حلیف مان کر نہیں دیتے۔ ان کی یہ دلاوری دیکھ کر ان کے وابستگان پکار پکار کر کہہ رہے ہیں: واہ مولانا واہ۔ آپ بولتے ہیں تو مہر عالم تاب کا منظر کھل جاتا ہے۔ میرے جیسے طالب علم کا معاملہ مگر اور ہے کہ دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کر رہ گئی ہیں۔کیا آپ سنتا چاہیں گے؟ یہ ایم ایم اے کا زمانہ تھا۔ آمر پس چلمن نہیں تھا ، مسند اقتدار پر جلوہ افروز تھا۔یعنی آمریت کا سورج نصف النہار پر تھا۔ مرحوم قاضی حسین احمد کا مطالبہ تھا کہ ایم ایم اے اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائے۔ لیکن حضرت مولانا کا تدبر نکتہ آفرینی کر رہا تھا کہ یہ حکمت کے خلاف ایک جذباتی فیصلہ ہے ۔قاضی صاحب نے کہا پھر میری جماعت کو استعفی دینے دیا جائے ، مولانا نے فرمایا یہ بھی بصیرت کے خلاف ہے اس لیے معاملہ سپریم کونسل کو بھیجتے ہیں۔ قاضی صاحب اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے اور باہر کھڑے میڈیا سے کوئی بات تک نہ کی۔مولانا نے البتہ اپنی بصیرت سے اہل وطن کو فیض یاب کرتے ہوئے فرمایا: اسمبلیوں سے استعفی دینا حکمت نہیں ، ہم اسمبلیوں کے اندر اور باہر اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں کہ کل استعفوں کو خلاف حکمت قرار دینے والے مولانا ، آج استعفوں کی ضدکیوں کر رہے ہیں اور قاضی حسین احمد مرحوم کا جو مطالبہ کل مولانا کے نزدیک غیر منطقی اور حکمت کے تقاضوں کے خلاف تھا آج مولانا خود اپنی ہتھیلی پر وہی مطالبہ لیے گلی گلی کیوں آواز لگا رہے ہیں کہ استعفی دو ، تو یہ مولانا کا نہیں آ پ کا اپناقصور ہے ۔یہ آپ کی اپنی سادگی ہے اور یہ اس بات کا اعلان ہے کہ آپ میں اتنی بصیرت ہی نہیں کہ آپ حضرت مولانا کے فیصلوں کی حکمت اور شان نزول سمجھ سکیں۔ ورنہ سامنے کی یہ حقیقت آپ کو یاد رہتی کہ جب مستعفی ہونا حکمت اور بصیرت کے تقاضوں کے خلاف تھا اس وقت مولانا قومی اسمبلی کے رکن تھے اور قائد حزب اختلاف کے عہدہ جلیلہ پر فائز تھے اور صوبہ سرحد میں وزیر اعلی بھی جے یو آئی کا تھا۔ آج جب اسمبلیوں سے مستعفی ہونا عزیمت کا نقش اول ٹھہرا ہے تو عالم مختلف ہے۔ مولانا نہ قائد حزب اختلاف ہیں نہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ، وہ تو پارلیمان کے رکن بھی نہیں۔ اب آپ ہی بتائیے جس پارلیمان کے مولانا رکن ہی نہ ہوں،اس پارلیمان کو وہ رحم کی نظر سے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ بصیرت اور حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ ایسی پارلیمان کی تکا بوٹی کرا دی جائے تا کہ آئندہ مولانا کے بغیر محفل سجانے کا کوئی تصور ہی نہ کر سکے۔اصول بہت واضح ہے ، محفل میں ہم ہیں تو پھر مسند اقتدار پر بیٹھا آمر بھی گوارا ہے اور محفل میں ہم نہیں تو پھر بدن میں غم کی آگ پھنکے گی ، پھر جمہوریت پر شبخون ہو گا ، پھر پارلیمان اور جمہوریت کے دفاع کا معرکہ ہو گا۔ جو یہ اصول نہ سمجھ سکے دانش کے باب میں اس کا اپنا ہاتھ تنگ ہے۔ مولانا نے تو عزیمت اور بصیرت کا فسانہ سر محفل کہہ چھوڑا ہے۔ دھاندلی کا لفظ مولانا کا تکیہ کلام ہے۔ یہ طے شدہ اصول ہے کہ جب مولانا یا ان کے سیاسی حلیف الیکشن ہار جائیں تو دھاندلی ہو جاتی ہے۔مولانا جب بے نظیر بھٹو کے حلیف تھے اور نواز شریف جیت گئے تو مولانا نے فرمایا خوفناک دھاندلی ہو گئی ہے اور اب ایک ہی رستہ باقی بچا ہے کہ نئے انتخابات کرا دیے جائیں۔ غور فرمائیے یہ 1990 کے انتخابات کی بات ہو رہی ہے جب مولانا خودبھی ہار گئے اور ان کی سیاسی حلیف پیپلز پارٹی بھی۔ مولانا کے ہاں یہ بھی طے شدہ اصول ہے کہ ان کا حریف جب دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آتا ہے تو وہ اسلام اور پاکستان کا دشمن بن جاتا ہے اور اس سے اسلام اور وطن عزیز کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔عمران خان کے بارے میں تو مولانا کا موقف آپ سب کو معلوم ہی ہو گا، دلچسپ بات یہ ہے کہ جب مولانا الیکشن ہار گئے اور نواز شریف جیت گئے تو ایسا ہی الزام نواز شریف پر بھی عائد کیا گیا۔فرمایا:’’نواز حکومت ایٹمی پالیسی پر سودے بازی کر رہی ہے اور ہمیں خاص ذرائع سے یہ اطلاعات مل چکی ہیں‘‘۔(بحوالہ مشافہات۔ جلد اول، صفحہ 245)۔آج تو مولانا امن کے سفیر بنے ہوئے ہیں، نواز شریف دور میں یہ حال تھا کہ کرگل کے موقع پر نواز شریف کے موقف کو مولانا نے نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم امہ کی توہین قرار دیا تھا۔نواز شریف نے انہی دنوں کہا کہ جنگ لڑنے سے اجتناب کرنا جنگ لڑنے سے زیادہ جرات مندانہ اقدام ہے تو مولانا نے اس بیان کو ’’ گناہ کبیرہ ‘‘ قرار دے ڈالا۔ مولانا دلیل کا کوہ ہمالیہ ہیں۔کچھ معلوم نہیں کب وہاں دھوپ نکل آئے اور کب برف پڑنا شروع ہو جائے۔ نواز شریف کی مخالفت میں بے نظیر کے ساتھ کھڑے رہے۔، لوگوں سے طعنے بھی سنے مگر ڈٹے رہے لیکن جب نواز شریف کی حکومت آئی تو فرمایا کہ نواز شریف فوری طور پر آئین میں ترمیم کریں تا کہ آئندہ کوئی عورت وزیر اعظم نہ بن سکے۔( بحوالہ مشافہات : جلد اول، صفحہ 256)۔ یہ مولانا کی عملی بصیرت کا نکتہ کمال ہے کہ عورت کی حکمرانی کا یہ شرعی اصول انہیں اس وقت یاد آیا جب بے نظیر کی جگہ نواز شریف کی حکومت بن چکی تھی۔ جب نواز شریف سے نہیں بنتی تھی تو 1996 ء میں فرمایا ہم مسلم لیگ سے تو بات کر سکتے ہیں لیکن نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں مان سکتے۔مسلم لیگ ن کو اب کوئی متبادل لانا ہو گا۔ کیونکہ نواز شریف بہت غلطیاں کر چکے اور ہم مزید تجربات نہیںچاہتے۔لیکن آج چودہ سال بعد وہی نواز شریف ہے اور مولانا اسی نواز شریف کے چولہے سے آگ لے کر انقلاب کا الائو دہکانا چاہتے ہیں۔ ہے کوئی مولانا جیسا؟ واہ مولانا واہ۔آپ بڑ ے حضرت ہیں۔