اسلام آباد (غلام نبی یوسفزئی) عدالت عظمیٰ نے قتل عمد کے مقدمات میں مقتول کے ورثا کے تعین کا معاملہ مناسب قانون سازی کیلئے وفاقی حکومت کو بھیج دیا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بنچ نے قتل عمد کے ملزم کو ورثا کی طرف سے معاف کرنے کے ایک مقدمے کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو سفارش کی ہے کہ اس ضمن میں قانون سازی کی جائے کہ اگر مقتول کا وارث فوت ہو جائے تو پھر اس صورتحال میں قاتل کو معاف کرنے کا اختیار وارث کے وارث کو ہوگا۔فیصلہ چیف جسٹس نے تحریر کیا ہے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے الگ نوٹ لکھا ہے ۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قصاص کے مقدمات میں ولی کا تعین کیا گیا ہے ، اگر ولی مر جائے تو ولی کے ولی کو قتل معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن تعزیر کے مقدمات میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 348کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت صرف قانونی ورثا قتل معاف کرسکتے ہیں۔فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ قتل کا ہر مقدمہ تعزیر کا ہوتا ہے اس لیے اس ضمن میں قانون خاموش ہے کہ اگر وارث مرجائے تو کیا وارث کے وارث کو قتل معاف کرنے کا اختیار ہوگا؟فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا میں مقننہ نے ضابطہ فوجداری میں ترمیم کرکے اس کا تعین کردیا ہے اور قرار دیا ہے کہ اگر وارث مرجائے تو عدالت کی اجازت سے ان کا قانونی وارث قتل معاف کر سکتا ہے ۔قتل عمد کے مقدمات میں قتل معاف کرنے کے لیے ورثا کا تعین ضروری ہے اس لیے اس صمن میں مقننہ مناسب قانون سازی کرے ۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ عدالتی تشریح کے ذریعے مقننہ سے قانون بنانے کا اختیار نہیں لیا جاسکتا اس لیے وفاقی سیکرٹری قانون کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ یہ معاملہ وفاقی حکومت کے سامنے رکھیں۔ واضح رہے وہاڑی میں قتل کے ایک مقدمے میں مقتول کی بیوہ اور بیٹے نے قاتل کو معاف کیا تھا لیکن مقتول کے والد نے معاف کرنے سے انکار کیا تھا جبکہ ٹرائل کورٹ سے قاتل کو سزائے موت ہوئی تھی۔ ہائیکورٹ میں اپیل کے دوران مقتول کے والد کا انتقال ہوا اور ہائیکورٹ نے مقتول کی بیوہ اور بیٹے کے ساتھ راضی نامہ پر قاتل کو بری کردیا۔مقتول کے بھائیوں نے بریت کا فیصلہ چیلنج کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ان کے والد مقتول کے ولی تھے اور انھوں نے قاتل کو معاف نہیں کیا تھا،ولی کے مرنے کے بعد اب وہ ولی کے ولی ہیں اور قاتل کو معاف نہیں کرتے ۔ انہوں نے عدالت سے ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم کرنے کی استدعا کی ۔ سپریم کورٹ نے بریت کا فیصلہ برقرار رکھا لیکن حکومت کو قانون سازی کرنے اور ورثا کا تعین کرنے کی سفارش کی۔