ہم ایک بہت بڑے عالمی قحط کا شکار ہونے والے ہیں۔ کیا اس خوفناک وارننگ کا کسی کو اندازہ ہے جو گذشتہ چند مہینوں سے دنیا بھر کے سائنسدان، عالمی ادارۂ خوراک، ورلڈ بینک اور لاتعداد عالمی تنظیمیں دے رہی ہیں۔’’ کرونا‘‘کی وجہ سے جو خوراک کے ذخیروں میںجو کمی واقع ہوئی ہے، اس کے نتیجے میں اس وقت دنیا میں بھوکوں کی تعداد اسّی کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ کرونا سے پہلے یہ تعداد اندازاً تیرہ کروڑ تھی۔ ان اسّی کروڑ میں سے چوبیس کروڑ ایسے ہیں جو مکمل فاقہ زد گی کی وجہ سے موت کی آغوش میں جا سکتے ہیں۔ یہ سب صرف گذشتہ سال کے کرونا کی وجہ سے نہیں ہوا ،بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس دنیا پر گذشتہ دس سالوں سے پے در پے ایسی آفات و بلّیات نازل کرتا رہا ہے جس کے نتیجے میں آج یہ کیفیت ہے کہ اس دنیا کو 2021ء میں ایک خوفناک خوراک کے بحران کا سامنا ہونے والا ہے۔ آج سے ایک دہائی قبل جب افریقی ’’سوائن فلو‘‘ آیا تھا تو اس کے اثرات اس قدر گہرے تھے کہ امریکہ کے ادارے ’’US Centers for disease and prevention‘‘ (مرکزِ بیماری و حفظِ ماتقدم)کی رپورٹ کے مطابق صرف امریکہ میں پانچ لاکھ پچھتر افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان میں80فیصد ایسے تھے جو پینسٹھ سال سے زیادہ عمر کے تھے۔ لیکن اس سوائن فلوکا دوسرا پہلو جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا وہ یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں سٔور کی ایک چوتھائی نسل ختم ہو گئی اور عمومی طور پر سٔور پالنے والے فارموں میں اسقدر خوف و ہراس پھیلا کہ مزید نسلی افزائش کم ہو گئی۔ وہ ممالک جہاں سٔور کا گوشت شوق سے کھایا جاتا ہے وہاںاب یہ پچیس فیصد مہنگا ہوچکا ہے۔ چین میں ’’کرونا‘‘کی آمد سے پہلے سٔور کا گوشت دگنا مہنگا ہوچکا تھا۔سوائن فلو کے بعد گذشتہ سال ستر سالہ تاریخ کا سب بڑا ٹڈی دل (Locust) کا حملہ ہوا جس کے نتیجے میں مشرقی افریقہ، جو کہ خوراک پیدا کرنے والا علاقہ ہے، وہاں کی فصلیں تباہ ہو کر رہ گئیں۔کینیا جیسے زرعی ملک میں گندم اور دالوں کی قیمت میں 60فیصد اضافہ ہو گیا۔ ٹڈی دل کے علاوہ گذشتہ دس سالوں میں آہستہ آہستہ جو موسمی تبدیلیاں (Climate Change)آتی رہی ہیں،انہوں نے زمین کے نظامِ خوراک وپیداوار کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کی ایک مثال گذشتہ سال بنگلہ دیش کے سیلاب کی ہے۔ سیلاب نے وسیع رقبے پر اسقدر فصلیں تباہ اور جانور ہلاک کر دیئے کہ ورلڈ بینک کی کئی ملین ڈالر کی امداد بھی سب کچھ بحال نہ کر سکی۔ اس وقت دنیا بھر میں خوراک کی کمی کی وجہ سے انڈونیشیا کی محبوب ترین غذا ’’توفو‘‘ جو سفید پھلیوں سے بنائی جاتی ہے اس کی قیمت چالیس فیصد زیادہ ہو چکی ہے، اسی طرح برازیل میں ان کی پسندیدہ دال ’’Black turtle bean‘‘ کی قیمت میں ساٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے، روس میں چینی کی قیمتیں ستر فیصد بڑھ گئی ہیں۔ کرونا کے دنوں میں بڑے بڑے امیر ممالک بھی خوراک کی کمی کا شکار ہوئے اور لوگوں کو کھانا پہنچانے کے لیئے خیراتی اداروں کو میدان میں آنا پڑا۔ برطانیہ کے صرف ایک خیراتی ادارے ’’ٹرسل ٹرسٹ‘‘ (Trisell Trust) نے مسلسل روزانہ تین ہزار پیکٹ ایسے گھرانوں میں تقسیم کیے جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ ایسا کبھی برطانیہ میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ میں یوں تو ایسے لوگوں کی ایک خاصی تعداد ہمیشہ سے موجود رہی ہے جو خوراک کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ میں ہمیشہ سے بے گھر لوگوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد موجود رہی ہے، لیکن کرونا وائرس کے بعد امریکہ جس بحران کا شکار ہوا ہے وہ بہت بڑا ہے۔ خوراک کی کمی کا شکار امریکی افراد کی تعداد چار کروڑ بیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے، اور ان میں سے ایک کروڑ تیس لاکھ بچے ہیں۔تازہ ترین سروے جو ’’USDA ‘‘نے امریکہ کے گھرانوں سے متعلق ہے، اس کے مطابق گذشتہ دو سالوں یعنی 2019ء سے اب تک امریکہ میں تین کروڑ پچاسی لاکھ لوگ بھوک کا شکار ہوچکے ہیں اور ایک کروڑ گھرانے آج بھی وہاں ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو مناسب خوراک فراہم نہیں کر سکتے۔یہ ایک ایسی آفت ہے جس کا سامنا 2021ء میں ہر غریب اورامیر ملک کو کرنا پڑ سکتا ہے۔ عالمی بینک کے اندازے کے مطابق دنیا کے 110ممالک بھوک کے مسٔلے کا شکار ہوں گے، جن میں 50ممالک تو ایسے ہیں جہاں مہنگائی اور خوراک کی کمی قحط کی صورتِ حال پیدا کر سکتی ہے۔ان تمام ممالک میں اکثریت غریب ملکوں کی ہے۔ کیا یہ خوراک کی کمی کا عذاب اچانک ہم پر نازل ہوا ہے۔ نہیں۔۔ہر گز نہیں۔انسان نے غریب لوگوں کی بھوک سے فائدہ اٹھا کر سرمایہ بنانے کا کاروبار گذشتہ ایک صدی سے نہایت ظالمانہ طریقے سے شروع کر رکھا ہے۔ دنیا کی امیر ترین اقوام اس دنیا میں موجود پانی اور خوراک کو جس تیزی سے چاٹ رہی ہیں اور جس طرح اپنی عیاشی کے لیئے دنیا کے نظام ِ خوراک کو تباہ کرنے کے لیئے تلی ہوئی ہیں، اس کا نتیجہ اب ظاہر ہو رہا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’ہم نے پانی سے زندگی پیدا کی‘‘ اور ہم اس عظیم ذخیرے کے دشمن ہیں۔ زیرِ زمین پانی کو اللہ تعالیٰ نے لاکھوں سال سے آہستہ آہستہ انسان کے لیئے جمع کیا تھا جو اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا کسی کو اندازہ ہے کہ ایک کلو ’’بیف‘‘کے لیئے پچاس ہزار لٹر پینے کے صاف پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت دنیا کے امیر ممالک میں جسقدر گوشت کھایا جاتا ہے، اس میں سے دس فیصد بھی کمی کر دی جائے تو دنیا میں موجود دس کروڑ بھوکوں کو کھانا کھلایا جا سکتا ہے اور اگر پچاس فیصد گوشت میں کمی آجائے تو دنیا سے بھوک کا مکمل خاتمہ ہو جائے۔ ایک اندازے کے مطابق مغرب میں جس طرح کی خوراک لوگ کھاتے ہیں اگر دنیا میں بسنے والا ہر شخص ویسی ہی خوراک استعمال کرے تو اسے اگانے کے لیئے دو زمینیں چاہییں۔ افریقہ، ایشیا اور جنوبی امریکہ کے غریب ممالک اپنے کھیتوں پر جانوروں کا چارہ اگا کر مغربی دنیا کو بیچتے ہیں جو وہ اپنے سٔوروں، بیلوں، بکریوں اور دیگر جانوروں کو ڈالتے ہیں، جبکہ ان غریب ممالک کے بچے بھوک سے مر رہے ہوتے ہیں۔ یہ زمین ہر انسان کی بھوک کے لیئے کافی خوراک پیدا کر سکتی ہے لیکن ہر انسان کی ہوس کے لیئے اس کے پاس بہت کم ہے۔ یہ تو مغربی دنیا کا عام آدمی ہے جس کا لائف سٹائل دنیا بھر کی خوراک کے ذخیرے کو تباہ کر رہا ہے لیکن اصل مسٔلہ اور ہے وہ بہت ہی گہرا ہے۔ دنیا میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری قائم کرنے کے لیئے عالمی سطح پر ڈبلیو ٹی اور آئی ایم ایف کے ’’سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام‘‘ بنائے گئے، جن کے تحت دنیا کی خوراک پر اب یہ کمپنیاں قابض ہو چکی ہیں۔ پیٹنٹ (Patent) کے قانون کی وجہ سے دنیا کی دس بڑی بیجوں کی کمپنیاں 80فیصد بیجوں کی مالک ہیں اور جینیٹک انجنئرئنگ کے طریقے سے دنیا بھر کے کسانوں کو ایسے بیج فراہم کیئے جاتے ہیں جو صرف ایک ہی فصل دیتے ہیں، یعنی اگلی فصل کے بیجوں کے لیئے پھر انہی کمپنیوں سے رجوع پڑتا ہے۔ دنیا کی مزید دس بڑی کمپنیاں اس وقت گوشت، دالیں، چاول، گندم اور دودھ جیسی ضروریات کی بلا شرکتِ غیرے مالک بن چکی ہیں۔ ذخیرہ اندوزی تو بہت پہلے سے چلی آرہی تھی، اس کے ساتھ ساتھ حصص اور سٹاک کا کاروبار، گھر بیٹھے کروڑوں لوگوں کو اس کھیل میں امیر بنا رہا ہے۔لگتا ہے 1943ء کے بنگال کے قحط کا منظر دوبارہ دہرایا جانے والا ہے۔ بنگال میں قحط پڑا،جنگِ عظیم دوئم چل رہی تھی، برطانیہ کے مقبول وزیراعظم ’’چرچل‘‘ نے جنگ عظیم دوئم کا بہانا بنا کر خوراک کے گوداموں کو تالے لگا دیئے کہ یہ کل ہمارے کام آئے گی ۔اس ظلم کے نتیجے میں پینتالیس لاکھ بنگالی بھوک سے تڑپ کر مر گئے، جن میں سے پچانوے فیصد مسلمان تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 2021ء میں کون کونسے ملک بنگال کی طرح قحط زدہ ہوتے ہیں اور کون کون سے سربراہان ،چرچل جیسا ظالمانہ کردار ادا کرتے ہیں۔