لائبریری کے سوا ایک اور مقام ایسا ہے کہ آپ میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر مجھے لے جائیے اور میں کچھ دیر کے بعد آپ کو بتا دوں گا کہ آپ مجھے کہاں لے آئے ہیں۔ انارکلی ‘ مال روڈ اور پاک ٹی ہائوس کے باہر فٹ پاتھوں پر پرانی کتابوں کا جو جہان ہر اتوار سجتا ہے اپنی زوال پذیر مہک اپنے ساتھ لاتا ہے۔ ایک زمانہ میں میری اتوار کی سویریں اس جہان میں گزرتی تھیں۔ یہ جو فٹ پاتھوں پر بکھرا پرانی کتابوں کا جہان ہوتا ہے اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک سیکولر دنیا ہے۔ ایک غیر وابستہ کائنات ہے۔ یہاں آپ کو دنیاکے ہر موضوع‘ ہر مذہب اور ہر ثقافت کے بارے میں کتابیں مل جائیں گی۔ یہاں تک کہ اگر آپ پورنو گرافی میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ذرا سی سرگوشی درکار ہے۔ میرے لکشمی مینشن والے فلیٹ کے عین سامنے ہال روڈ کے فٹ پاتھ پر مقبول خان مقبول برس ہا برس تک فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں کے انبار لگائے کاروبار کرتا رہا، یہاں تک کہ بالآخر خود بھی شاعر ہو گیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شاعری اس کے زوال کا باعث بن گئی۔ وہ کتابیں فروخت کرنے سے زیادہ لوگوں کو اپنی شاعری سنانے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اگر کوشش کر کے ٹیلی ویژن کے لئے ایک دو ڈرامے لکھ لیتا تو یکدم ایک بڑا شاعر ہو جاتا۔ معذرت کرتا ہوںکہ میں قدرے بھٹک گیا۔ واپسی اختیار کر کے کتابوں کی دنیا کی سیر کرواتا ہوں۔ پالو کولہو ’’اَل کیمسٹ‘‘ کے حوالے سے یکدم ایک بین الاقوامی سطح کے ناول نگار کے طور پر مستحکم ہو گیا۔ اگرچہ اَل کیمسٹ‘‘ بھی بنیادی طور پر فریدالدین عطار کے ’’منطق الطیر‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔ مجھے پالو کولہو کے دو تین ناول تو بہت پسند ہیں لیکن وہ ایک بڑا ناول نگار نہیں ہے۔ پالو کولہو کا تازہ ترین ناول ’’ہپّی‘‘ ہے جو بہت ہی عامیانہ ہے بلکہ فضول ہے۔ اسے ہرگز نہ پڑھیے گا۔ لگتا ہے کہ پالو کولہو کے دانے مُک گئے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ مصنف مائیکل آن ڈاٹ جے کا تازہ ناول ’’وارلائٹ‘‘ قدرے پیچیدہ ہے اور کم از کم مجھے پسند نہیں آیا۔ پولینڈ کی اولگا ٹو کارزک کا ناول’’فلائٹ‘‘ 2018ء میں بکرپرائزکا حقدار ٹھہرا اور یہ ناول ایک مختلف فضا اور ماحول کا ہے۔پڑھ لینا چاہیے۔ نِیل مکرجی کا ناول’’دی لائیوز آف ادرز‘‘ بہت ضخیم ہے اور بہت ہندوستانی ہے۔ ڈیزی جانسن کا ناول’’ایوری تھنگ انڈر‘‘ اپنے موضوع اور زبان کے لحاظ سے ایک بڑا ناول ہو سکتا تھا لیکن اسے نہ پڑھنے سے آپ کا کچھ نقصان ہو گا۔ ضرور پڑھیے۔ انگریزی شاعری کا اکلوتا مجموعہ جو مجھ تک پہنچا وہ ڈاکٹر نازش امین کا ’’سائلنٹ وسپرز‘‘ ہے یعنی ’’خاموش سرگوشیاں‘‘ جس کی نظمیں سادہ لیکن دل پر اثر کرنے والی ہیں۔ یہ نازش کا پہلا شعری مجموعہ ہے جس کی بہت پذیرائی ہوئی ہے۔ شنید ہے ڈاکٹر صاحب بہت لائق فائق ہیں اور بین الاقوامی سیمینار میں تحقیقی مقالے پیش کرنے کے لئے مدعو کی جاتی ہیں۔ پچھلے دنوں اردن کے ’’ڈیڈ سی‘‘ کے کنارے کسی شہر میں مقالہ پڑھنے کے لئے گئیں تو یہ بھی شنید ہے کہ انہوں نے مردہ سمندر کو اپنی شاعری سنا کر اس میں ایک نئی روح پھونک دی۔ شائد وہ مریضوں کا علاج بھی اپنی شاعری سے کرتی ہوں گی۔ اللہ ان مریضوں کے حال پر رحم کرے۔ ’’جب میں سوچتی ہوں کہ تمہیں خط لکھوں میرے حرف خاموش ہو جاتے ہیں کیا تم اب بھی محسوس کرتے ہو میری خاموش سرگوشیوں کا رَس؟ اب جگر تھام کے بیٹھیے کہ اردو کی باری آئی ۔ بے شک جو کچھ بھی رسول اللہؐ کے حوالے سے لکھا جائے وہ سب عرش مقام ہے لیکن سیرت النبوی کے محدود مطالعے کے دوران میری سب سے پسندیدہ سیرت مارٹن لنگز ابوبکر سراج الدین کی تحریر کردہ’’محمدؐ قدیم ماخذکی بنیاد پر ان کی حیات طیبہ‘‘ ہے جو انگریزی زبان میں لکھی گئی اور جس کے مطالعے سے روح کے اندر جتنے بھی چراغ بجھتے جا رہے تھے وہ یکدم روشن ہو گئے اور ان کے نور نے میری ویرانیوں کو بھر دیا۔ اس لازوال تصنیف کا اردو ترجمہ کاظم جعفری نے نہائت لگن سے کیا ہے اور بک کارنر جہلم نے اسے نہائت شاندار گیٹ اپ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ لیکن اس کی قیمت کچھ زیادہ ہے۔ کچھ کتابوں پر منافع نہ بھی کمایا جائے تو بھی یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوتا۔ پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی نے بابا گرونانک کی حیات پر بہت تفصیلی کتاب ترتیب دی ہے۔ ہمارے دور کے بہت اہم اور تخلیقی فکشن رائٹر خالد فتح محمد کا ایک اور ناول’’زینہ‘‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ اس کی نسبت قدرے پیچیدہ ہے لیکن خالد کی نثر کی قوت سے ہرگز انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ زینہ بہ زینہ ناول نگاری کے عروج تک پہنچ رہے ہیں۔ مجھے ان کے زیر طبع ناولوں’’وقت کی باگ‘‘ اور ’’سو دوزیاں‘‘ کا انتظار رہے گا۔ زاہد حسن موجودہ عہد میں پنجابی کے نمائندہ اور نمایاں ادیب ہیں اردو میں جو ناول لکھے وہ بھی توجہ کا مرکز بنے۔ ’’ہجر تیرا جے پانی منگے‘‘ ان کی پنجابی کہانیوں کا مجموعہ ہے جس کی ایک ایک کہانی بہت بھر پور اور موثر ہے کتاب کا عنوان میاں محمد بخش کے اس شعر کی عکاسی ہے: ہجر تیرا جے پانی منگے‘ میں کُھوہ نیناں دے گیڑاں دل کر دا اے تینوں کول بٹھا کے‘ میں درد پرانے چھیڑاں ’’ادھ ادھورے لوگ‘‘ محمد حفیظ خان کے مشہور سرائیکی ناول کا رواں دواں اردو ترجمہ ہے۔ اسکے کرداروں اور ماحول میں اپنی مٹی کی مہک رچی بسی ہے۔ اعظم معراج کی شاندار تصنیف’’شان سبز و سفید‘‘ قیام پاکستان سے لیکر اب تک دفاع پاکستان میں مسیحیوں کے تاریخی کردار اور ارض پاک کیلئے جان قربان کرنے والے مسیحی شہدا کی لازوال قربانیوں کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ پاک فوج اور فضائیہ میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والے مسیحی بھائیوں کی فہرست بہت طویل ہے جن میں دو جنرل ‘ متعدد ایئر وائس مارشل اور بہت سے افسر شامل ہیں۔ کتنے لوگ آگاہ ہیں کہ ونگ کمانڈر شہیدلیسلے مڈل کوٹ کو ڈبل ستارہ جرأت عطا کیا گیا۔ پاک فوج ‘ فضائیہ اور بحریہ میں سینکڑوں مسیحی افسروں اور سپاہیوں نے پاکستان کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور پاکستانی پرچم کے سفید حصے کی لاج رکھ لی اور پھر اپنے چاچا ایف ای چوہدری پاکستان کے سب سے شہرت یافتہ صحافی فوٹو گرافر کے گروپ کیپٹن سپوت سیسل چودھری کی 1965ء کی جنگ میں فضائی شجاعت سے کون واقف نہیں۔ اعظم معراج کی یہ تحقیق واقعی قومی پرچم کے سبز و سفید کو یکجہتی میں پروتی ہے۔محمود شام کا سفر نامۂ حج ’’رحمن کے مہمان‘‘ ایک گہرے تحقیقی جذبے کا ثمر ہے۔ فخر زمان کا اردو شعری مجموعہ’’وقت کو تھام لو‘‘ اور پنجابی شعری کلام’’زوال دی گھڑی‘‘ اپنی قوت تخلیق سے ایک بلند مرتبے پر فائز ہیں۔ نازیہ پروین کی تحقیقی کتاب’’خس و خاشاک زمانے فکری اور فنی جہات’’اسے تنقید کے میدان میں بہت نمایاں کرتی ہے۔ یوسف صالح محمد خان کی ’’سیرت رسولؐ‘‘ بھی ایک عرق ریز محبت کی امین ہے۔ عرفان احمد عرفی کے افسانوں کا مجموعہ ’’کنٹرول رُوم‘‘ قابل تحسین ہے اور پھر غلام نظام الدین کا ’’شعرِ ناب‘‘ فارسی اردو اور پنجابی میں لکھی گئی تصوف کے جہانوں میں سرگرداں شاعری کا انتخاب میرے لئے ایک ایسا نایاب تحفہ جس نے میری روح کو سرشار کر دیا۔ سبحان اللہ!