قاضی منان سے ہماری ملاقات واشنگٹن ڈی سی میں حلال سکینہ گرل میں ہوئی جہاں ہم پاکستانی کھانے کی تلاش میں پہنچے۔ ہم تین لوگ تھے پرنٹ میڈیا کی صحافی گلناز نواب‘ ریڈیو آر جے سعدیہ رفیق اور میں۔ واشنگٹن ڈی سی میں ہمیں دو دن ہو چکے تھے اور ہم پاکستانی کھانے کو ترسے ہوئے تھے۔ پاکستانی ریسٹورنٹ گوگل کیے تو اس میں سکینہ حلال گرل کا نام سرفہرست تھا جو ہمارے ہوٹل سے نزدیک ترین مسافت پر تھا۔ جونہی ریستوران کے اندر داخل ہوئے پاکستانی کھانوں کی خوشبو نے ہمارا استقبال کیا۔ کچھ دیر بعد ہم واشنگٹن ڈی سی میں بیٹھے ہوئے چکن کڑاہی، بھنڈی گوشت اور گندم کی گرما گرم روٹیوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔جو بھلا سا لڑکا ہمیں کھانا سرو کر رہا تھا میں نے اس سے پوچھا اس ہوٹل کا مالک کون ہے۔ کھانا بے حد لذیذ تھا۔ سو ہم تینوں کھانے کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ پاکستانی پاکستانی کو پہچانتے ہیں۔’’کھانا بہت مزے کا ہے بالکل پاکستانی ذائقے کا‘‘ ’’آپ پاکستان سے آئے ہیں؟‘‘ جی ہم صحافی ہیں اور یہاں ایک سٹڈی ٹور پر آئے ہیں‘‘ کھانا کھاتے ہی ہمارے اندر کا صحافی بیدار ہوچکا تھا۔ سو ہم نے سوچا کہ اس ہوٹل کے مالک سے ضرور ملنا چاہیے جس نے عین واشنگٹن کے وسط میں ایک چھوٹا سا پاکستان بنا رکھا ہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد قاضی منان ہمارے ساتھ بیٹھے ہم تینوں کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔ سو یہ ایک طرح سے پینل انٹرویو تھا۔ گلناز نواب سعدیہ رفیق اور میں۔ قاضی منان ہمیں اپنی زندگی کی کہانی سنا رہے تھے۔ میں جہلم کے ایک مضافاتی گائوں میں پیدا ہوا۔ میرا خاندان روحانی اور مذہبی اقدار سے مالا مال ایک غریب گھرانہ تھا۔ میری والدہ مرحومہ سکینہ بی بی انتہائی مذہبی اور خدا ترس خاتون تھیں۔ گھر میں غربت تھی‘ کئی بہن بھائی کھانے والے تھے،اس کے باوجود ہماری والدہ نے یہ روایت بنا رکھی تھی کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر گائوں کے کسی نہ کسی بھوکے فرد کو کھانا دیا کرتی تھیں۔ ہم حیران ہو کر اپنی والدہ سے اکثر پوچھتے کہ گھر میں ہم بہن بھائیوں کے لئے تو کھانا پورا نہیں اور آپ اسی میں سے کھانا خیرات بھی کرتی ہیں۔ ان کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا کہ اللہ اس طرح ہمارے رزق میں برکت دے گا۔ بھوکوں کو کھانا کھلانے کی یہ وہ روایت ہے جو میں نے ہمیشہ یاد رکھی اور آج بھی یہاں واشنگٹن ڈی سی میں سکینہ حلال گرل میں ہم روزانہ بے گھر بھوکے افراد کو مفت کھانا فراہم کرتے ہیں‘‘ جہلم کے ایک مضافاتی گائوں کا غریب لڑکا کس طرح امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں ایک ریستوران کا مالک بنا۔؟‘‘ ہمارا سوال سن کر قاضی منان مسکرائے اور بولے ایک بڑی لمبی کہانی ہے میں 1966ء میں امریکہ آیا تو میری جیب خالی تھی بس ایک لگن اور دھن تھی کہ یہاں بھر پور محنت کر کے زندگی بنانی ہے۔ میں نے یہاں کئی کام کئے ۔کام میں نے 12سال کی عمر سے ہی شروع کر دیا تھا جب میں اپنے قصبے میں گلیوں میں پھر کر سبزی بیچا کرتا تھا۔ میری والدہ مویشی پالتیں اور اس کا دودھ فروخت کرتیں میں ہمیشہ ان کے کام میں مدد کرتا یوں مجھے کام کرنے کی عادت شروع سے تھی۔ امریکہ آ کر کئی کام کئے ۔ گاڑیاں چلائیں‘ چھوٹی موٹی مزدوریاں کیں۔ پھر رفتہ رفتہ اپنی گاڑی خرید کر چلانی شروع کر دی۔ میں آٹھ سو ڈالر ایک دن میں کمانے لگا۔ پہلے میں ایک امریکی کار سروس کے ساتھ منسلک ہوا۔ رفتہ رفتہ میں نے اپنی کار سروس بنا لی۔ معاشی طور پر مستحکم ہوتا گیا۔ میں نے اپنی کار سروس میں کئی دوسرے پاکستانی مہاجرین کو بھی نوکری دی۔ یہ ریستوران میں نے 2013ء میں خریدا۔ نام رکھنے کا مرحلہ آیا تو میں نے اس کا نام اپنی مرحومہ والدہ سکینہ بی بی کے نام پر سکینہ حلال گرل رکھا۔ اور اسی روز فیصلہ کیا کہ میں اپنی خدا ترس والدہ کی طرح بے گھر غریب لوگوں کو مفت کھانا دیا کروں گا اور اب واشنگٹن ڈی سی میں سکینہ حلال گرل وہ جگہ ہے جہاں کسی بھی مذہب‘ مسلک‘ قومیت اور کسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والا بھوکا غریب شخص باعزت طریقے سے بیٹھ کر کھانا کھا سکتا ہے۔ اگر وہ کھانا ساتھ لے جانا چاہے تو اسے کھانا پیک کر کے دے دیا جاتا ہے۔‘‘ قابل فخر پاکستانی قاضی منان کی اس سخاوت نے امریکیوں کو اس قدر متاثر کیا کہ انہیں امریکی حکومت کی طرف سے ایک خصوصی تقریب میں مثالی مہاجر (Examplery immigrant)کا خطاب دیا گیا۔ واشنگٹن پوسٹ میں ان کی جدوجہد کی کہانی چھپی۔ ٹائمز نے قاضی منان کی تصویر اپنے ٹائٹل پر چھاپی۔امریکہ میں مقیم اس مثالی پاکستانی مہاجر کی کہانی سن کر بطور پاکستانی ہمارا فخر اور انبساط سے بھر گیا۔ واشنگٹن چونکہ امریکہ کا دارالحکومت ہے سو پاکستان جتنے بھی سرکاری وفد آتے ہیں وہ ایک بار یہاں ضرور کھانا کھاتے ہیں، ہمیشہ کھانے کی تعریف کرتے ہیں۔ آپ کو ایک دلچسپ بات بتائوں‘ یہاں ہر جمعے کو حسین حقانی سہ پہر کو دودھ پتی پینے آتے ہیں ان کے ہمراہ زیادہ تر بھارتی صحافی ہوتے ہیں۔ وہ جب بھی یہاں آتے ہیں تو میرا چھوٹا بھائی موجود ہو تو وہ مجھے کہتا ہے یہ شخص پاکستانی غدار ہے میں نے اس کے لئے دودھ پتی نہیں بنانی۔ پھر میں اس کو سمجھاتا ہوں کہ دیکھو اس وقت یہ ہمارا مہمان ہے اور ہم مسلمان ہیں۔ ہمارے گھر دشمن بھی مہمان بن کر آ جائے تو ہم ان کی خاطر تواضع کرتے ہیں۔2016ء میں قاضی منان نے چھ ہزار مفت کھانے بانٹنے کا ٹارگٹ پورا کیا اور اب ہر سال اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں پہلے والے ہوم لیس امریکی ‘ دوپہر اور شام کو اکثر اس پاکستانی ریستوران میں بلا جھجک داخل ہوتے ہیں۔ کھانا طلب کرتے ہیں تو انہیں بہترین ذائقے دار کھانا مفت مہیا کیا جاتا ہے۔ قاضی منان کا کہنا ہے کہ ان بے گھر غریبوں سے کہتا ہوں۔ '' This is your place to eat as long as i own it'' وائٹ ہائوس سے آدھ میل کی مسافت پر واقع سکینہ حلال گرل اور اس کے محنتی ہمدرد مالک قاضی منان کی کہانی ایسی ہے جس پر ہم سب پاکستانی فخر کر سکتے ہیں۔