معزز قارئین!۔ آج 20 صفر اُلمظفر ہے اور آج پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں، نواسۂ رسولؐ ، سیّد اُلشہداء امام عالی مقام، حضرت امام حُسین علیہ السلام اور اُن کے 72 ساتھیوں ۔ شُہدائے کربلا کے یوم ختم ، چہلم کے موقع پر ، عقیدت و احترام سے تقریبات منعقد کر رہے ہیں اور 18صفر اُلمظفر سے آج تک لاہور میں ، آسودۂ خاک ، سیّد علی ہجویری، حضرت داتا گنج بخش ؒ کے 976 ویں سالانہ عُرس مبارک کے تیسرے روز دُنیا کے مختلف ممالک سے حاضری دینے والے عقیدت مند۔ ’’ فیض عالم‘‘ سے برکتیں سمیٹتے رہے ہیں !۔ تواریخ کے مطابق ’’ غزنی کے سُلطان ، شہاب اُلدّین غوریؔ 1191ء میں ۔ترائن ؔکی پہلی جنگ میں دہلی ؔاور اجمیر ؔکے راجا ، پرتھویؔ راج چوہان سے شکست کھا کر غزنی واپس چلا گیا تھا، پھر نائب رسولؐ فی الہند ، خواجہ غریب نواز حضرت مُعین اُلدّین چشتی ؒنے غوریؔ کے خواب میں آ کر اُسے فتح کی بشارت دِی تھی تو، 1193ء میں غوری ؔنے پرتھوی ؔراج پر فتح پائی ،پھر اجمیرؔ اور راجستھان کے کئی علاقوں میں لاکھوں ہندوئوں نے خواجہ غریب نوازؒ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرلِیا؟ اُن میں میرے آبائو اجداد بھی شامل تھے۔ معزز قارئین!۔ جب مَیں نے ہوش سنبھالا تو میرے والد صاحب ، تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکن رانا فضل محمد چوہان نے مجھے خواجہ غریب نوازؒ کی، روحانی عظمتوں سے متعارف کرانا شروع کردِیا۔وہ مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جایا کرتے تھے۔مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا اور اردو زبان میں اپنی پہلی نعت لکھی جو، لائل پور کے روزنامہ’’ ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ میں شائع ہُوئی۔ مَیں 1960ء میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی۔ اے۔ فائنل کا طالبعلم تھا، جب مَیں نے مسلکِ صحافت اختیار کِیااور اردو اور پنجابی میں باقاعدہ شاعری کا آغاز ۔ اُنہی دِنوں مجھے خواجہ غریب نواز ؒکی یہ رُباعی پڑھنے اور سمجھنے کا موقع مِلا… شاہ ہست حُسین ؑ، پادشاہ ہست حُسین ؑ! دِیں ہست حُسینؑ ، دِیں پناہ ہست حُسین ؑ! سَرداد ، نَداد ، دست ، در دستِ یزید! حقّا کہ بِنائے لا اِلہ ،ہست حُسین ؑ! یعنی۔’’ ہمارے ( اصل) شاہ اور بادشاہ حضرت امام حُسین ؑ ہیں۔ دِینِ اسلام اور دِین کی پناہ بھی امام حُسین ؑ ہی ہیں۔آپؑ نے (دِین کی بقا کے لئے ) اپنا سر قلم کروالیا لیکن ،خلافت کے نام پر یزید کی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کِیا‘‘۔ معزز قارئین!۔ حضرت امام حسین ؑ کی جنگ ملوکیت، جَور و جَبر، خیانت، نجاست، بربریت اور جہالت کے خلاف تھی لیکن ،اُس جنگ میں اِمام عالی مقام ؑکے قبیلے کے چند افراد اور عقیدت مند ہی تھے، اُن میں پردہ دار خواتین ،کم سِن اور شیر خوار بچے ہی شامل تھے۔ یزیدکے حُکم سے اُس کے لشکر نے اکثر کو شہید کردِیا اور تاقیامت رُسوا ئی حاصل کرلی۔ حضرت امام حُسین ؑ ، اُن کے رشتہ داروں اور عقیدت مندوں کی قربانیوں نے فی الحقیقت اسلام کو زندہ کردِیا۔ امامِ عالی مقامؑ کی خدمت میں میری منقبت کے تین شعر پیش خدمت ہیں … صاحب کردار ، فخر مِلّت ، بَیضا، حُسین ؑ! کار گاہِ کُن فکاں میں ، مُنفرد، یکتا ،حُسین ؑ! سیّد اُلشہدا، حُسین ؑ اُن کا نصب اُلعین، تخت و تاج تو ،ہر گز نہ تھا! رَزم گاہ میں ، دین کی خاطر تھے ، صف آرا، حُسین ؑ! سیّد اُلشہدا، حُسین ؑ …O… جان تو دے دِی اثرؔ ، پائی حیاتِ جاوداں! صاحبِ دوراں بھی ہیں اور صاحبِ فَردا،حُسین ؑ! سیّد اُلشہدا، حُسین ؑ 10 محرم الحرام 61 ھ کو حضرت امام حُسینؑ ، اُن کے ساتھیوں اور عقیدت مندوں کی شہادت کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے ہی شہدائے کربلا کی بیوائوں اور یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا۔ کوفہ میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی تقریریں اُس کے بعد یزید کے دربار میں فصیح و بلیغ خطبے اور برجستہ جوابات سے متعلق مُؤرخین لکھتے ہیں کہ ’’ گویا ’’باب اُلعلم ‘‘ حضرت علی ؑ خطبہ دے رہے ہیں ‘‘۔معزز قارئین!۔ مَیں نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے یوم وِلادت پر 2007ء میں ایک منقبت لکھی تھی، اُس کے تین بند پیش خدمت ہیں … خُدا کی رحمت ، مَدام ، تُم پر! رِدائے خَیراُالاَنامؐ ، تُم پر! بتُول کا نُورِ تام، تُم پر! علی ؑ کی بیٹی ؑ سلام تُم پر! …O… مُلوکِیت جیسے غم کدہ، تھی ! یزِیدیت زلزلہ زدہ ، تھی! ہے ختم، زورِ کلام تُم پر! علی ؑ کی بیٹی ؑ سلام تُم پر! …O… وفا کے پَیکر ، شُمار ہوتے وہاں ، جو ہوتے نِثار ہوتے نبیؐ کے سارے ، غُلام تُم پر علی ؑ کی بیٹی ؑ سلام تُم پر! …O… فَیض عالم ؒ حضرت خواجہ غریب نوازؒ 587 ھجری (1191ئ) میں لاہور تشریف لائے تو آپؒ نے حضرت داتا صاحب سیّد علی ہجویریؒ کے مزارِ اقدس کے احاطے میں چلّہ کشی فرمائی اور وہاں چلّہ کشی کی اور حضرت داتا صاحبؒ کی عظمت بیان کرتے ہُوئے فرمایا کہ … گنج بخشِ فَیضِ عالم مظہرِ نُورِ خُدا! ناقِصاں را پِیر کامل کامِلاں را راہنما! یعنی۔ ’’حضرت داتا صاحب سیّد علی ہجویری خزانہ بخشنے والے ، تمام مخلوقات کو فائدہ پہنچانے والے ، اللہ تعالیٰ کا نور ظاہر کرنے والے ، عام اِنسانوں کے لئے پیر کامل اور پیرانِ کامل کو سیدھا راستہ دِکھانے والے ہیں‘‘۔ معزز قارئین!۔ 11 جولائی 1973ء سے مَیں اپنا روزنامہ ’’سیاست‘‘ شائع کر رہا تھا کہ ’’1980ء میں ، خواجہ غریب نوازؒ ،خواب میں میرے گھر رونق افروز ہُوئے۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا ۔ آپؒ نے مجھے مسکرا کر دیکھا۔ مَیں نے اُٹھ کر آپؒ کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو آپ مسکراتے ہُوئے غائب ہوگئے ۔ میری آنکھ کُھل گئی تو مَیں نے اپنی اہلیۂ مرحومہ ( نجمہ اثر چوہان) کو جگایا اور اشارے سے اُ ن سے پانی مانگا ۔ اُنہوں نے مجھے پانی دِیا اور کہا کہ’’ ہمارے بیڈ روم میں تو خوشبو پھیلی ہُوئی ہے؟‘‘۔ تو مَیں نے انہیں خواجہ غریب نوازؒ کی تشریف آوری کا بتایا ، پھر خواجہ غریب نواز کی برکت سے میرے لئے پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے، کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے کُھل گئے۔ ستمبر 1983ء میں خواب ؔمیں کسی دلدل میں پھنس گیا تھا۔ تو مَیں نے پوری قوت سے ’’ یا علی ؑ ‘‘ کا نعرہ لگایا تو مجھے کسی غیبی طاقت نے دلدل سے باہر نکال دِیا اور مجھے کہا کہ ’’ تم پر مولا علی ؑ کا سایۂ شفقت ہے‘‘۔ پھر مجھے مولا علی ؑ کے سایۂ شفقت میں ستمبر 1991ء میں صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ خانۂ کعبہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی اور پھر مجھے آدھی دُنیا دیکھنے کا موقع مِلا۔ معزز قارئین!۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزارِ اقدس پر چلّہ کشی کے بعد خواجہ غریب نوازؒ نے خواجہ قطب اُلدّین بختیار کاکیؒ سمیت اپنے کئی مریدوں کے ساتھ ملتان میں 5/4 سال تک رہ کر ہندی اور کئی دوسرے علاقائی زبانیں سیکھیں ۔ جون 2004ء میں مجھے اجمیر شریف میں بارگاہِ سلطان اُلہند میں حاضری کا موقع مِلا اور پھر اجمیر شریف کے بازاروں ، گلیوں اور محلّوں میں گھومنے کا بھی۔ مَیں تصّور میں ، اجمیرشریف کے کسی گوشے میں خواجہ غریب نوازؒ کو اپنے چالیس مریدوں کے ساتھ ہندی ( راجستھانی ) زبان میں تبلیغ ِاِسلام کا منظر دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ وہاں میرے بزرگوں نے بھی اپنی ہی زبانؔ میں خواجہ غریب نواز ؒ کا وعظ سُن کر دائرہ اِسلام میں داخل ہونے کا عزم کِیا ہوگا؟۔ وطن واپسی پر مَیں نے خواجہ غریب نواز ؒ کے حضور پنجابی اور ہندی میں دو منقبتیں پیش کیں ۔ہندی منقبت کے دو بند پیش خدمت ہیں… اَن مُولت سگرے ،بِھیت رے! گیا کارا ،کارا ، اتِیت رے! مَیں تو گائوں پریم کے ،گِیت رے! خواجہ جی ؒبنے ، مورے ،مِیت رے! …O… جگ کو اُجیارا ، دیں خواجہ! اُپدیش نیارا، دیں خواجہ! سندیش ہے ،اُن کا، پرِیت رے! خواجہ جیؒ بنے ، مورے ،مِیت رے! معزز قارئین!۔ مَیں اپنے والد گرامی کی ہدایت کے مطابق جب بھی ’’گنج بخش فیض عالم ؒ ‘‘کی بارگاہ میں پیش ہوتا ہُوں تو پہلے احاطۂ دربار میں خواجہ غریب نوازؒ کی چلّہ گاہ ؔپر حاضری دیتا ہُوںیعنی۔"Through Proper Channel"۔